1920ء کے لگ بھگ ہندوستان میں تحریکِ ہجرت شروع ہوئی۔ کچھ مذہبی رہنماؤں نے فتوی دیا کہ ہندوستان دارالحرب ہے اس لیے یہاں سے ہجرت کرو؛ چنانچہ لاکھوں مسلمانوں نے گھر بار بیچا اور افغانستان کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔اس تحریک کا انجام المناک ناکامی تھی۔ رہنماؤں میں سے خود کسی نے ہجرت نہ کی۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! مقصد ایک واقعہ کا بیان ہے جو‘ اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو غالباً باری علیگ نے لکھا ہے۔ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے کچھ مسلمان جلال آباد کی مسجد میں بیٹھے قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔کچھ مقامی حضرات آئے اور ان سے بات چیت شروع کی۔ انہوں نے بتایا کہ پشتو نہیں جانتے۔ اس پر وہ حیران ہوئے اور تعجب کا اظہار کیا کہ اگر پشتو نہیں جانتے تو قرآن پاک کیسے پڑھ لیتے ہیں !
یہ واقعہ ایک سادہ سی مثال ہے اس بات کی کہ کس طرح مذہب مقامی ثقافت کے ساتھ خلط ملط ہو جاتا ہے یوں کہ بعض اوقات دونوں کو الگ الگ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو تا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ 2014ء میں امریکی ریاست میسوری میں پیش آیا۔ مقامی انتظامیہ نے ٹیکسی ڈرائیوروں کے لیے یونیفارم مقرر کی تھی تا کہ عوام پہچان سکیں۔ سفید قمیض اور سیاہ رنگ کی پتلون۔ ایک پاکستانی نژاد ڈرائیور نے یہ یونیفارم پہننے سے انکار کردیا۔( اس کا نام یہاں عمداً نہیں لکھا جا رہا ) وہ شلوار قمیض پہنتا تھا۔ اور سر پر ٹوپی پہنتا تھا۔ اس کی اور انتظامیہ کی آنکھ مچولی چلتی رہی۔ پھر مذاکرات ہوئے۔اس کا موقف تھاکہ یہ اسلامی لباس ہے۔ اسے چھوڑا نہیں جا سکتا اور یہ کہ انتظامیہ اس کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کی مجاز نہیں۔انتظامیہ نے اُس کی کئی باتیں مان لیں۔ ٹوپی کی اجازت بھی دے دی۔ یہ بھی کہا کہ بے شک شلوار پہنو بس ہو سیاہ رنگ کی تا کہ یونیفارم کی لگے۔واحد شرط انہوں نے یہ رکھی کہ کرتا بے شک پہنو بس گھٹنوں سے اوپر ہو۔ڈرائیور نہ مانااور عدالت میں چلا گیا۔ اس کا امریکی وکیل تگڑا تھا اس نے عدالت کو قائل کر لیا کہ یہ لباس اسلام کی رُو سے لازم ہے۔ ڈرائیور مقدمہ جیت گیا۔ اگر وہ شلوار قمیض کو اپنا قومی یا علاقائی لباس قرار دیتا تو اور بات تھی۔ ظاہر ہے کہ مراکش سے لے کر برونائی تک اربوں مسلمان ہیں جو یہ لباس نہیں پہنتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیکسی ڈرائیور واقعی یہ سمجھتا ہو کہ یہ لباس اس کے مذہب کا تقاضا تھا۔
رسالت مآبﷺکی حیاتِ مبارکہ میں جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے‘ وہ وہی لباس پہننا جاری رکھتے تھے جو قبولِ اسلام سے پہلے پہنتے تھے۔ آپؐ نے لباس کے بنیادی اصول‘ ستر کے لحاظ سے‘ مقرر فرمائے‘ لیکن کسی لباس کی تخصیص نہیں فرمائی۔ اس ضمن میں دیوبند مکتب فکر کے معروف عالم دین اور سکالر مولانا محمد منظو رنعمانی ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''رسول اللہﷺ لباس کے بارے میں ان حدود واحکام کی پابندی کے ساتھ جو مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکے ہیں‘ اسی طرح کے کپڑے پہنتے تھے جس طرح اور جس وضع کے کپڑوں کا اس زمانے میں آپﷺ کے علاقے اور آپ کی قوم میں رواج تھا۔ آپؐ تہبند باندھتے تھے‘چادر اوڑھتے تھے‘کرتا پہنتے تھے‘ عمامہ اور ٹوپی بھی زیب سر فرماتے تھے اور یہ کپڑے اکثر وبیشتر معمولی سوتی قسم کے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی دوسرے ملکوں اور دوسرے علاقوں کے بنے ہوئے ایسے بڑھیا کپڑے بھی پہن لیتے تھے جن پر ریشمی حاشیہ یا نقش ونگار بنے ہوتے تھے۔ اسی طرح کبھی کبھی بہت خوش نمایمنی چادریں بھی زیب تن فرماتے تھے جو اس زمانے کے خوش پوشوں کا لباس تھا۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ زبانی ارشادات وہدایات کے علاوہ آپﷺ نے امت کو اپنے طرز ِعمل سے بھی یہی تعلیم دی کہ کھانے پینے کی طرح لباس کے بارے میں بھی وسعت ہے۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کی پابندی کے ساتھ ہر طرح کا معمولی یا قیمتی لباس پہنا جا سکتا ہے اور یہ کہ ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگوں کو اجازت ہے کہ وہ شرعی حدود واحکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا علاقائی وقومی پسندیدہ لباس استعمال کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے ان اصحابِ صلاح وتقویٰ نے بھی جن کی زندگی میں اتباع سنت کا حد درجہ اہتمام تھا‘ یہ ضروری نہیں سمجھا کہ بس وہی لباس استعمال کریں جو رسول اللہؐ استعمال فرماتے تھے۔ دراصل لباس ایسی چیز ہے کہ تمدن کے ارتقا کے ساتھ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اس طرح علاقوں کی جغرافیائی خصوصیات اور بعض دوسری چیزیں بھی لباس کی وضع قطع اور نوعیت پر اثر انداز ہوتی ہیں‘ اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں کا لباس یکساں ہو یا کسی قوم یا کسی علاقے کا لباس ہمیشہ ایک ہی رہے۔ اس لیے شریعت نے کسی خاص قسم اور خاص وضع کے لباس کا پابند نہیں کیا ہے۔ ہاں‘ ایسے اصولی احکام دیے گئے ہیں جن کی ہر زمانے میں ہر جگہ بہ سہولت پابندی کی جا سکتی ہے۔‘‘ (معارف الحدیث‘ حصہ ششم‘ صفحہ 424)
بنگال‘ملائیشیا‘ انڈونیشیا اور برونائی کے مسلمان لنگی پہنتے ہیں ( جسے ہم پنجاب میں دھوتی کہتے ہیں۔فرق یہ ہے کہ وہاں یہ سلی ہوئی ہوتی ہے)۔ میانمار کے غیر مسلم بھی یہی لنگی پہنتے ہیں بلکہ لنگی برما کے قومی لباس کا حصہ ہے۔ افغان طالبان کو کریڈٹ دینا چاہیے کہ انہوں نے کسی احساسِ کمتری کے بغیر‘ امریکیوں سے مذاکرات کے وقت بھی اپنا لباس نہ چھوڑا۔ ان کا یہ رویہ لائقِ تحسین ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے! تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا لباس یا ان کے علاقے میں مروجہ شٹل کاک برقع مذہب کا لازمی تقاضا ہیں۔ہمارے مذہب نے لباس اور خوراک کے ضمن میں ستر اور حلال و حرام کے بنیادی اصول بتائے اور پھر ان اصولوں کے اندر رہنے کی تلقین کرتے ہوئے تمام لباسوں اور تمام کھانوں کی اجازت دی۔ اس نکتے کو سمجھنا ہو تو حرمین شریفین جا کر دیکھیے۔ صرف احرام ہے جو سب مسلمانوں کے لیے لازم ہے۔ اس کے علاوہ ہر ملک اور ہر قومیت کے مسلمان اپنا اپنا لباس پہنتے ہیں اور یہ لباس ان کی شناخت بھی ہیں۔ صرف سر پر اوڑھے جانے والے لباس پر غور کیجیے۔ مسقط‘ الجزائر‘ مراکش‘ دبئی‘ انڈونیشیا‘ازبکستان‘ سب کی پگڑیاں اور ٹوپیاں مختلف ہیں۔ سب کے ریستوران الگ الگ ہیں۔یہ سارے لباس اور یہ تمام کھانے مسلمانوں کے ہیں۔
لباس کا اہم ترین پہلو‘ اپنی بساط کے مطابق‘ خوش لباسی ہے۔ قائداعظم خوش لباس تھے۔ خوش لباسی میں اصل کردار پیسے کا نہیں‘ ذوق کاہے۔ بمل کرشن اشکؔ کے اشعار یاد آگئے
گو جی تو چاہتا ہے کہ ہر لمحہ ہر گھڑی
ملتی رہے بدن کو نئی سے نئی قمیض
صندوق میں ہزار طرح کے لباس ہوں
اِس طرح کی کبھی‘ کبھی اُس رنگ کی قمیض
سو طرح کے بٹن ہوں‘ ہزاروں طرح کے کاج
یہ دکھ نہ ہو کہ ویسی طرح کی نہ تھی قمیض
پیوند کیوں لگائے پھریں شہر شہر لوگ
کیوں چیختے پھریں کہ میاں پھٹ چلی قمیض
کہتے پھریں کہ بھر گیا جی اس قمیض سے
روتے پھریں کہ اور نہ تھی کیا کوئی قمیض
کالر نہ آستین نہ جیبیں نہ کاج ٹھیک
اور اس پہ یہ مذاق کہ بس ایک ہی قمیض
اے اشکؔ! چُپ کہ آخر اُسی کی ہے دی ہوئی
کہہ دے کہیں کہ لاؤ میاں! دو مری قمیض!