وہ تو بھلا ہو رضاربانی کا کہ انہوں نے امریکی ارکان کانگرس کی یاوہ گوئی کا بھرپور جواب دیا۔
جس تکبر سے اور جس لہجے میں ان ارکان کانگرس نے پاکستان کے بارے میں بات کی، اس کا فوری نوٹس وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو لینا چاہیے تھا۔ ان ارکان نے اپنی حکومت سے کہا کہ پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپنائے کیونکہ افغانستان میں، بقول ان کے، پاکستان کا کردار دُہرا ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعاون بھی کیا اور طالبان کو، بشمول حقانی نیٹ ورک، پناہ بھی دی۔ اس ہرزہ سرائی کا جواب جناب رضا ربانی نے دیا کہ پاکستان امریکی ریاست نہیں‘ ایک خود مختار ملک ہے۔ انہوں نے امریکہ کو یاد دلایا کہ وہ خود افغانستان میں دوغلا کردار ادا کرتا رہا ہے اور دنیا بھر میں اپنے مفاد کے لیے آمروں کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ اُدھر تو یہ سب کچھ ہو رہا تھا اِدھر، ہمارے وزیر خارجہ مریدوں کے سروں پر دست شفقت پھیر رہے تھے اور وزیر اعظم پنجاب کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کے ساتھ میٹنگ کر رہے تھے۔ اس میٹنگ میں ما شاء اللہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی شامل تھے۔ آئی جی اور چیف سیکرٹری‘ دونوں وزیر اعلیٰ کے ماتحت ہیں۔ وزیر اعظم کو صوبے کے افسروں کے ساتھ براہ راست میٹنگ کرنا پڑے تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ صوبے کے حکومتی سربراہ اپنے ماتحتوں سے خود کام لینے کا ہنر نہیں جانتے! جس صاحبِ اختیار کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہو گی وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ وزیر اعظم سے کیوں ملے گا؟ وہ تو عرض کرے گا کہ حضور! آپ مجھے حکم دیجیے! حکم کی تعمیل میں کس طرح کرتا ہوں اور کراتا ہوں، یہ میرا کام ہے‘ جناب کا نہیں ! مگر ایسی بات کہنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا ہونا لازم ہے۔ ویسے کسے نہیں معلوم کہ پنجاب کی حکومت کہاں سے چلائی جا رہی ہے اور کون چلا رہا ہے ! عضو معطل کون ہے اور سرگرمی کہاں سے پھوٹتی ہے۔ مگر فرنگی محاورہ ہے: Who bothers!‘ ہم پنجابی شاید ایسے ہی مواقع پر یاس کا اظہار یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ مٹی تے سواہ! یا مٹی تے گھٹّا۔
جناب وزیر اعظم نے نتھیا گلی میں فائیو سٹار ہوٹل کا افتتاح کیا ہے۔ اچھی بات ہے۔ آگے کی طرف پیش رفت ہے۔ مگر پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن ( پی ٹی ڈی سی ) کے تیس سے زیادہ موٹل اور ریستوران تقریباً دو پونے دو سال سے‘ یعنی نومبر 2019ء سے ٹھپ پڑے ہیں۔ پی ٹی ڈی سی چوالیس سال پہلے منافع کے لیے تشکیل نہیں دی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد سیاحت کا فروغ تھا۔ یہ موٹل ایسی ایسی جگہوں پر بنائے گئے تھے جہاں نجی شعبہ کے سرمایہ کاری کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ یہ موٹل خپلو، ناران، گلگت، بالا کوٹ، بمبریٹ (کیلاش وادی) سکردو، بشام، کالام، سست، اور دیگر کئی مشکل مقامات پر بنائے گئے تھے۔ کچھ ان میں سے کروڑوں روپے کما رہے تھے اور حکومت کو ٹیکس بھی ادا کر رہے تھے۔ قارئین میں سے اکثر و بیشتر ان موٹلوں میں ٹھہرے بھی ہوں گے۔ ایک سال دس ماہ پہلے ان تمام موٹلوں اور ریستورانوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ کہا یہ گیا کہ یہ گھاٹے میں جا رہے تھے۔ یہ اور بات کہ اعداد و شمار پیش نہیں کیے گئے کیونکہ سلطانی احکام جاری کرتے وقت ثبوت یا منطق یا دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اتنے عظیم الشان ادارے کی بندش کے مدارالمہام وزیر اعظم کے ایک قریبی دوست تھے۔ یہ وہی دوست تھے جن کا نام وزیر اعظم نے الیکشن جیتنے کے بعد، ایئر پورٹ پر بیٹھے بیٹھے ای سی ایل سے نکلوایا تھا۔ اللہ ہی جانے وہ ان موٹلوں کو بند کر کے کیا کرنا چاہتے تھے مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتے، رنگ روڈ سکینڈل کی نذر ہو گئے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ تیس سے زیادہ، یعنی تمام کے تمام، موٹل بند ہیں۔ ان کا کروڑوں کا ساز و سامان بیکار پڑا ہے۔ دیمک، کیڑوں اور پھپھوندی کے وارے نیارے ہیں۔ ملازمین بر طرفی کے بعد عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ سیاحوں کے قیام کا کوئی بندوبست نہیں۔ یہ ہے ٹورازم کا فروغ جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ بقول شاعر:
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
بات پھر وہی ریڑھ کی ہڈی کی آ جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کے جسدِ ضعیف میں جان ہوتی تو اس المناک نقصانِ عظیم پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتی۔
اب آئیے ایک اور معاملے کی طرف جس کا ذکر ہیڈ لائنز میں ہو رہا ہے۔ معروف کامیڈین عمر شریف بیمار ہیں۔ ہم دست بدعا ہیں کہ خالقِ کائنات انہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے اور وہ پھر سے اپنے ناظرین اور سامعین کو محظوظ کر سکیں۔ سندھ حکومت نے چار کروڑ روپے انہیں علاج کی غرض سے دیے ہیں۔ ایئر ایمبولینس کا انتظام اس کے علاوہ کیا جا رہا ہے۔ ایئر ایمبولینس اس طرح کی وین نہیں ہوتی جیسے ایدھی والوں کی ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے فاصلوں کے لیے ہیلی کاپٹر اور طویل فاصلوں کے لیے ہوائی جہاز ہوتا ہے۔ عمر شریف نے امریکہ جانا ہے اس لیے ان کی ایئر ایمبولینس ہوائی جہاز ہو گا۔ ایئر ایمبولینس پر کتنے اخراجات آتے ہیں؟ اس کا دار و مدار مندرجہ ذیل عوامل پر ہے۔ اوّل‘ فلائٹ کا رُوٹ یعنی کل فاصلہ کتنا ہے۔ دوم‘ مریض کی حالت، یعنی کون کون سے میڈیکل آلات کی راستے میں ضرورت پڑ سکتی ہے، طبّی عملہ کن افراد اور کتنے افراد پر مشتمل ہو گا؟ سوم‘ مریض کے ساتھ جانے والی لواحقین کی تعداد کیا ہو گی؟ اگر ایک سے زیادہ افراد ہیں تو جہاز بڑا ہو گا۔ کچھ کمپنیاں جائے رہائش سے لے کر ہوائی اڈے تک اور اترتے وقت ہوائی اڈے سے لے کر ہسپتال تک کا فاصلہ بھی مدِ نظر رکھتی ہیں۔ قصہ کوتاہ ایئر ایمبولینس کے اخراجات بھی حکومت ادا کرے گی۔ اب اس سارے معاملے کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھیے۔ کامیڈین ہونا عمر شریف کا پیشہ تھا۔ کیا یہ کام وہ مفت کرتے تھے؟ یا فی سبیل اللہ کرتے تھے؟ نہیں! یہ پیشہ ان کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہ ہر پروگرام کا، اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی، خطیر معاوضہ لیتے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی خزانے سے ایک نامور شہری کا علاج، وہ بھی اتنا مہنگا، کیا روا ہے؟ یہ قومی خزانہ عوام کے ٹیکسوں سے بھرا جاتا ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والے یہ عوام خود اپنا علاج، اپنی جیب سے کراتے ہیں۔ نہ کرا سکیں تو حکومت کراتی ہے‘ نہ پوچھتی ہے۔ اس ملک کے سب سے بڑے محسن اساتذہ ہیں۔ کیا ایک استاد کا علاج سرکار کراتی ہے؟ ڈاکٹروں سے بڑا محسن کون ہے! کورونا جب سے آیا ہے درجنوں ڈاکٹر اپنی جان کی قربانی دے چکے ہیں۔ کیا ڈاکٹروں کا علاج حکومتی خزانے سے ہوتا ہے؟ ایک خاص شہری کے علاج پر کروڑوں روپے کس قانون کے تحت صرف کیے جا رہے ہیں؟ ہمارے فنکار ساری زندگی کماتے ہیں اور معاف کیجیے گا‘ ان میں سے اکثر اللوں تللوں پر روپیہ اڑا دیتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کالم نگار وزارت ثقافت میں مزدوری کرتا تھا۔ ڈیوٹی میں فنکاروں کو بیرون ملک دورے کرنے کے لیے این او سی جاری کرنا بھی شامل تھا۔ ایک بہت مشہور فنکار کے بیرون ملک جانے پر سرکار نے پابندی عائد کر رکھی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ایک ملک میں، جو ہمارے مشرق میں واقع ہے، انہوں نے نشے میں دُھت، ایک عالی مرتبہ خاتون کو چھیڑا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک اور ملک میں جو ہمارے مغرب میں واقع ہے انہوں نے سٹیج پر، عالم وارفتگی میں شاشیدن مصدر کی گردان شروع کر دی تھی۔ شاشیدن کا معنی کسی فارسی لغت میں آپ خود دیکھ لیجیے!