سب سے پہلے گھر میں نازنین اور شاکرہ آئیں۔
دونوں ہم عمر! صبح صبح اکٹھی باہر نکلتیں۔ گلی میں گھومتیں، پھرتیں! مگر آہ تقدیر ایک بڑا سانحہ ہاتھ میں لیے سامنے کھڑی تھی۔ ایک صبح بیگم فجر کی نماز کے بعد، حسب معمول، سیر کے لیے گھر سے نکلیں۔ چار قدم چلی تھیں کہ پر نظر آئے۔ یوں لگا جیسے کسی نے نوچ کر پھینکے ہوں۔ ان کا دل دہل سا گیا۔ آگے بڑھیں تو گلی کے کنارے نازنین ، زخموں سے چُور تڑپ رہی تھی۔ انہوں نے اٹھایا۔ گھر لا کر اس کے زخم دھو رہی تھیں، ساتھ ساتھ روئے جا رہی تھیں۔ بس یہی عالم تھا کہ ان کے ہاتھوں ہی میں اس مظلوم نے جان دے دی۔ اس کی میت انہوں نے ساتھ والے خالی پلاٹ میں باقاعدہ دفن کرائی۔ میں سوتا ہی دیر سے ہوں۔ پو پھٹنے کے بعد! یونیورسٹی کے زمانے میں بھَیڑی عادت رات کو جاگنے کی پڑی تو پھر چمٹ ہی گئی۔ کافی دیر سے اٹھا تو روہانسی آواز میں بولیں ''بہت بڑا ظلم ہوا ہے‘‘۔ دل ہَول گیا۔ پوچھا: کیا ہوا؟ بتایا کہ نازنین کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا ہے۔ سب کو پڑوسیوں کے سفید بِلّے پر شک تھا۔ اُسی دن سے اُس سفاک بِلّے کا نام اُس ر سوائے زمانہ قاتل کے نام پر رکھ دیا گیا جس نے دارالحکومت میں ایک لڑکی کا سر حال ہی میں، بے رحمی کے ساتھ تن سے جدا کر دیا تھا۔ سفید بِلّے کے مالکوں کو یقینا معلوم نہیں ہو گا کہ یہ خونخوار ہے۔ کیا عجب نازنین سے رومانس لڑایا ہو۔ اس نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہو اور اس نے طیش میں آکر اسے مار دیا ہو۔ تاہم یہ سب اندازے ہیں۔ حقیقتِ حال صرف اوپر والے کو معلوم ہے۔ قتل کا عینی شاہد کوئی نہیں۔
شاکرہ اب تنہا رہ گئی تھی۔ دن بھر صحن میں گھومتی۔ آوازیں نکالتی۔ کچھ ماتمی، کچھ حسرت انگیز۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اس کی دیکھ بھال بہت زیادہ ہونے لگی۔ کوشش کی جاتی کہ وہ گھر سے باہر گلی میں نہ نکلے۔ نکل جاتی تو ڈھُنڈیا پڑ جاتی۔
اس کے بعد تین مخلوقات زمینی مزید منگوائی گئیں۔ بطخ کے دو بچے مگر طفلانِ شیر خوار جیسے۔ اتنے چھوٹے کہ ایک ہتھیلی پر دونوں آرام سے بیٹھ جاتے اور جگہ پھر بھی بچ جاتی۔ ایک کا نام جانی رکھا گیا، دوسرے کا مانی۔ ساتھ شاکرہ کا ایک ہم نسل آیا۔ عمر میں جانی مانی سے بڑا‘ مگر شاکرہ کے سامنے بچہ! اس کا نام ارباب اختیار نے پونی رکھا۔ توقع یہ ہو رہی تھی کہ پونی اپنی ہم نسل سینئر، شاکرہ، کے ساتھ اتحاد کرے گا‘ اس لیے کہ پنجابی محاورہ ہے 'کاں کاواں دے تے بھرا بھراواں دے‘ یعنی کوّے کوّوں کا ساتھ دیتے ہیں اور بھائی بھائیوں کا۔ یہ شعر بھی زبان زدِ خاص و عام ہے:
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز
مگر شاکرہ نے پونی کو نزدیک نہ آنے دیا۔ تکبر اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ مجسم نخوت! ساتھ سینیارٹی کا زعم! اللہ اللہ! یہ سینیارٹی کا زعم بھی بہت مہلک ہوتا ہے۔ انسان ہو یا پرندہ یا کوئی اور مخلوق، کسی کام کا نہیں رہنے دیتا۔ بیوروکریسی میں تو ایک دن کی سینیارٹی بھی بہت سوں کو فراعنہ اور نماردہ کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے حالانکہ سینیارٹی کیا ہے؟ فقط پیدائش کا حادثہ! جس میں سینیارٹی پر اترانے والے کا اپنا کوئی کمال نہیں! اگر ایسا فرد سینئر ہونے کے ساتھ احمق یا نالائق بھی ہو تو نیچے والوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دیتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں‘ کاش یہ صاحب چند سال یا چند ماہ یا چند دن بعد پیدا ہوتے یا پیدا ہی نہ ہوتے! اسی طرح قبیلے، ذات اور برادری پر اترانا بھی عجیب کام ہے۔ اس میں بھی سارا کمال اُس کا ہے جس نے پیدا کیا! یہ آپ کا اپنا کارنامہ تو نہیں! ہمارے مڈل ایسٹ والے بھائی آج تک قبائلی احساسِ تفاخر سے نہیں نکلے۔ ہمارے ایک بزرگ تھے۔ ان کے ایک دوست ان سے بڑے تھے۔ صرف دس دن بڑے! بحث میں ہارنے لگتے تو کہتے: یار تم خاموش ہو جاؤ تم مجھ سے جونیئر ہو! اسی لیے کہا گیا ہے کہ بزرگی بعقل است نہ بسال! بزرگی عمر سے نہیں عقل سے ہوتی ہے۔ سینیارٹی کے زعم میں مبتلا اکثر افراد کو دیکھ کر تو خدا کی بے نیازی پر یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شاعروں‘ ادیبوں کو اطلاعات کے شعبے میں ملازمتیں دی گئیں اور رینک بھی دیے گئے (فیض صاحب کرنل تھے)۔ چراغ حسن حسرت کیپٹن تھے۔ ان کا کرنل، یاد نہیں کون تھا، انہیں تنگ کرتا تھا۔ جنگ ختم ہوئی تو یہ حضرات فارغ ہو گئے۔ چراغ حسن حسرت نے اس موقع پر کہا:
جرمنی بھی ختم اس کے بعد جاپانی بھی ختم
تیری کرنیلی بھی ختم اور میری کپتانی بھی ختم
سینیارٹی کے حوالے سے ایک واقعہ احمد فراز سے بھی منسوب ہے۔ وہ اکادمی ادبیات میں ملازم تھے۔ ان کا باس متعلقہ منسٹری کا کوئی افسر ہو گا جو سینیارٹی کے زعم میں تھا۔ ایک تقریب میں اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہا تھا جبکہ فراز کو حاضرین گھیرے ہوئے تھے۔ کہنے لگا: فراز تم تو فلاں گریڈ میں ہو۔ فراز نے جواب دیا کہ جی ہاں! گریڈ تو میرا وہی ہے مگر میں ساتھ احمد فراز بھی ہوں!
پونی شاکرہ کے پاس جاتا۔ اسے شاکرہ میں اپنی ماں نظر آتی‘ مگر شاکرہ کا دماغ آسمان پر تھا۔ وہ اسے ٹھونگے مارتی۔ پونی جان بچا کر بھاگتا تو وہ تعاقب کرتی۔ کھانے پینے کے برتن ان کے الگ الگ تھے۔ پھر بھی شاکرہ اپنے برتنوں کو چھوڑ کر پونی کا کھانا کھا جاتی۔ یہ صاف غنڈہ گردی تھی۔ پونی کو اس کے ساتھ، رات، ڈربے میں رکھا گیا تو پتہ نہیں رات بھر اسے مارتی رہی یا ڈراتی رہی، صبح پونی بالکل ڈاؤن تھا۔ سارا دن ایک جگہ بیٹھا رہا۔ دوائی دی گئی تو دو دن کے بعد چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔ پونی کے لیے اب ایک ہی راستہ بچا تھا کہ جانی مانی کے گروپ میں شامل ہو جائے۔ یہ بات درست تھی کہ نسلیں الگ الگ تھیں۔ پونی ایک مرغی کی اولاد تھا اور ننھے مُنے تھن متھنے جانی مانی بطخ خاندان کے چشم و چراغ تھے‘ مگر جاگیردارانہ صفات رکھنے والی متکبر شاکرہ کے رویے کا یہ رد عمل تھا کہ پونی اور جانی مانی دوست بن گئے۔ ہر وقت اکٹھے رہتے۔ جانی مانی کو غور سے دیکھنا ہمارے لیے بہت بڑی انٹرٹین منٹ تھی۔ برتن سے باجرے کا ایک دانہ چُگتے۔ پھر فوراً پانی والے برتن سے پانی پیتے۔ پھر باجرے کا دانہ، پھر پانی کا گھونٹ اور یہ سلسلہ چلتا رہتا اور ہم کتنی کتنی دیر یہ تماشہ دیکھتے رہتے۔ گھر کے تین طرف پانچ فٹ چوڑی گلی ہے۔ تینوں اس گلی کا چکر لگاتے‘ جیسے سپاہی گشت پر ہوں۔ آگے آگے پونی چلتا، پیچھے پیچھے جانی مانی، پروں کو ہِلا ہِلا کر، چلتے۔ چھوٹے تھے مگر چال میں وہی بڑی بطخوں والا حسن اور مستانہ پن تھا۔ ایک صاحب آئے تو ان کا منظم گشت دیکھ کر کہنے لگے: یہ پونی تو ان کا جیسے ناظم ہے۔ اُس دن سے پونی کا نام ناظم پڑ گیا۔ پو پھٹے جانی مانی اور ناظم اتنا شور کرتے ہیں کہ انہیں باہر نکالنا پڑتا ہے۔ انسان دیر سے سوتے اور دیر سے جاگتے ہیں مگر دیگر مخلوقات غروب آفتاب کے ساتھ ساری سرگرمیاں چھوڑ دیتی ہیں اور صبح صادق کے وقت اٹھ کر کام شروع کر دیتی ہیں!
اور ہاں جب بھی کوئی تکبر کرتا ہے اور ظلم و جور، تو یاد رکھیے، زیر دست اکٹھے ہو جاتے ہیں اور جب زیر دست اکٹھے ہو جائیں تو منظرنامہ بدل کر رہتا ہے۔