عالمی برادری طالبان کے ساتھ بات چیت کرے...دنیا نئی حقیقت کا ادراک کرے۔افغانستان سے رابطہ بڑھانا ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے...افغانستان مشکلات میں ہے‘دنیا کو اس کی مدد کرنی چاہیے... دنیا کے پاس طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے سوا کیا آپشن ہے ؟ عالمی برادری طالبان سے رابطے استوار کرے...افغانستان کے منجمد اثاثے جاری کرنا ہوں گے۔طالبان کی نیت پر شک کی کوئی وجہ نہیں...دنیا طالبان کو مزید وقت دے۔ افغانستان کو ماضی کی طرح بھلانے کی غلطیاں نہ دہرائیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ سارے بیانات طالبان کے ہو سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ یہ بیانات پاکستانی رہنماؤں کے ہیں جو وہ مسلسل دے رہے ہیں۔ نہیں معلوم طالبان تک یہ بیانات پہنچتے ہیں یا نہیں‘ نہیں معلومات ان پُرآشوب دنوں میں وہاں پاکستانی اخبارات جا رہے ہیں یا نہیں‘یا طالبان رہنما ہمارے ٹی وی چینلوں کو دیکھتے ہیں یا نہیں‘ مگر یہ طے ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو ہاتھ جوڑ کر ہمارے رہنماؤں کی منت کریں کہ بس کیجیے ! حضور ! خدا کے لیے بس کیجیے۔ دنیا کو یہ تاثر نہ دیجیے کہ آپ ہمارے سرپرست ہیں۔ ہم بالغ ہیں۔ اپنا اچھا برا سمجھتے ہیں۔ ہماری وکالت نہ کیجیے کہ اس طرح آپ کے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا بھی ہمیں ملے گی۔دنیا سے ہم کیا چاہتے ہیں‘ یہ ہمیں آپ سے بہتر معلوم ہے۔ آپ ازراہ کرم اپنے کام سے کام رکھیے۔
ہمارے ان بیانات کے بعد دنیا‘ خاص طور پر مغربی دنیا‘ ہمیں طالبان کے ساتھ بریکٹ نہ کرے تو کیا کرے ؟ کاش ہمارے رہنما تھوڑی بہت ڈپلومیسی ان طالبان لیڈروں ہی سے سیکھ لیتے کہ جو کام کرنا ہو اس کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے‘ خاموشی سے کر گزرتے ہیں۔ سنجیدگی کا تقاضا یہ تھا کہ تقریریں کرنے کے بجائے سفارتی محاذ پر یہ کام متانت سے کیے اور کرائے جاتے۔مگر بقول ظفرؔ اقبال ؎
اس بار تو ہے اصلیتِ عشق اس قدر
تھوڑی ہے بات‘ شور شرابا زیادہ ہے
وزیر اعظم سے لے کر وزیر خارجہ تک‘ مشیر قومی سلامتی سے لے کر وزیر داخلہ تک سب دنیا کو باور کرانے کی کوشش میں ہیں کہ افغانستان ہمارا مسئلہ ہے۔ طالبان کے مسائل ہمارے مسائل ہیں۔انسان حیران ہوتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کوئی سنجیدگی؟ کوئی گہرائی؟ کوئی احتیاط ؟ کوئی حساسیت ؟ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ فارن آفس کے منجھے ہوئے سفارت کاروں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ کس موقع پر کیا کہنا ہے اور کس موقع پر خاموش رہنا ہے۔ بہت سی ڈفلیاں ہر وقت بج رہی ہیں۔ کبھی Absolutely Notکا نعرۂ مستانہ لگ رہا ہے۔ کبھی بائیڈن کے فون نہ آنے کو کائنات کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
سچ کڑوا ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ افغانستان کے نام پر ہمارے زعما نے بھی خوب خوب فائدے اٹھائے۔ ضیاء الحق صاحب کی مونگ پھلی والی بات تو اب تاریخ کے صفحے پر لکھی جا چکی جسے کھرچناممکن ہی نہیں۔ امریکہ نے جو امداد پیش کی اسے جنرل صاحب نے مونگ پھلی یعنی بے حد قلیل قرار دیا جس کا مطلب واضح تھا۔ یہ تو خیر حکومتی معاملہ تھا۔ کچھ صاحبان ایسے تھے جن کے جسم پرخراش تک نہ آئی۔ اپنے محلات جیسے گھروں کے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں اطلس و کمخواب سے بنے ہوئے صوفوں پر بیٹھے رہے مگر افغان جہاد کے چیمپئن بن کر ابھرے۔دوسروں کے سینکڑوں ہزاروں لخت ہائے جگر کو قربان ہونے کے لیے بھیجا مگر اپنے بیٹوں کو امریکہ روانہ کیا۔پھر انہیں مجاہد نہیں‘ بزنس مین بنایا۔ وجہ ظاہر ہے مجاہد بننے میں جان کے زیاں کا امکان تھااور اپنے بچوں کی جان انہیں بہت عزیز تھی۔ اس کارِ خیر کے لیے دوسروں کی اولاد حاضر تھی۔سو دوسروں کی اولاد سے خوب خوب فائدہ اٹھایا گیا۔ یہ دوسروں کی اولاد ہی کا خون تھا جسے اپنے چہرے پر مل کر یہ حضرات جہادِ افغانستان کے چیمپئن بنے۔ مگر اب ایک اور راز کھلا ہے جو کم از کم ہم اہلِ پاکستان میں سے اکثر کو نہیں معلوم تھا۔''دنیا‘‘ہی کے ایک فاضل کالم نگارنے اس راز سے پردہ اٹھایا ہے۔افغانستان کے ایک معروف'' وار لارڈ‘‘ نے‘ جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کی آنکھ کا تارا ہیں‘ اپنے پوتے ( یا نواسے) کے ہاتھ میں بندوق پکڑائی نہ راکٹ۔ یوں تو انہوں نے‘ جن کو وہ دشمن سمجھتے تھے‘ ان کے علاوہ اپنے ساتھیوں کا بھی بے دریغ خون بہایا۔ کابل پر ان کا تباہ کُن حملہ روسیوں کے خلاف تھا نہ امریکہ کے‘ بلکہ اپنے ہی ایک افغان بھائی کے خلاف تھا جو انہی کی طرح ''وار لارڈ‘‘ تھا۔ دونوں ہی حکومت کرنے کے شائق تھے اور وہ بھی بلا شرکت غیرے؛چنانچہ شہر کے پرخچے اُڑ گئے۔اپنے پوتے ( نواسے ) کو‘ بہر حال‘ انہوں نے ایک ترقی یافتہ ملک میں‘ بحرالکاہل کے دلآویز اور ہوشربا کناروں پر‘ اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا۔ اب وہ افغانستان میں واپس آکر ایک ایسی یونیورسٹی میں استاد ہے جو ایک جارح اور استعماری ملک سے منسوب ہے ! اسی ملک نے بیس سال افغان سرزمین پر‘ افغانوں کا خون بہایا‘ خواتین کی بے حرمتی کی اور گھروں میں گھس گھس کر تباہی‘ بربادی اور خونریزی کے ریکارڈ توڑے۔ اگر ایک عام جہادی کا بیٹا اس طرح کرتا تو نہ جانے اس پر کیا گزرتی اور اسے کیا کیا طعنے دیے جاتے‘ مگر لیڈر اور رہنما جو چاہے کریں۔حفیظ جالندھری نے کہا تھا ؎
شیروں کو آزادی ہے آزادی کے پابند رہیں
جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں کھائیں‘ پییں آنند رہیں
مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہی ان کے رہنماؤں کی دورُخی پالیسی ہے۔ ہمارے پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے اپنے بیٹے کو اُسی فوج سے باہر نکال لیا جس فوج کی بدولت وہ سپہ سالار بنے تھے۔ ایک وزیر اعظم نے داماد کو فوج سے نکالا اور ڈی سی بنا دیا۔ عام لوگوں کے بچوں کے لیے اور قانون ہے اور ان کے بچوں کے لیے اور۔ ایک سیاستدان کی صاحبزادی سی ایس ایس کی چھلنی سے گزرے بغیر ایک پاکستانی سفارت خانے میں افسر لگا دی گئیں۔ ایک اور صاحب نے کہ بہت مشہور و معروف ہیں اپنے ڈاکٹر صاحبزادے کو ایف آئی اے میں تعینات کرا لیا۔ ہمارے سیاست دان حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ ان کے بیٹے شہزادے اور بیٹیاں شہزادیاں ہیں۔تقریباً تمام مسلمان ممالک میں یہی صورتحال ہے۔ مغربی ملکوں میں ایسا نہیں۔ حکمرانوں کے بیٹے دفتروں ریستورانوں اور دکانوں میں کام کرتے ہیں۔صدر اوباما کی بیٹی ساشا‘ باپ کی صدارت کے دوران‘ ریستوران میں ویٹر رہی اور کاؤنٹر پر بھی کام کیا۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کینیڈا کا موجودہ وزیر اعظم‘ ایک وزیر اعظم کا بیٹا ہے مگر ایک سکول میں ٹیچر رہا۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے یا کسی بھی مسلمان ملک کے حکمران کا فرزند کسی سکول میں پڑھائے گا؟ پڑھنے پڑھانے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ پارٹیوں کی ملکیت موروثی ہے۔ اسمبلیوں کی رکنیت موروثی ہے۔ وزارتیں بھی موروثی ہیں۔ سب کچھ طے ہے۔ اور مستقبل میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان بھی نہیں۔ جن کا دعویٰ تبدیلی کا تھا انہوں نے خود ہی ایسی تعیناتیاں کر کے ثابت کر دیا کہ ''اصل میں سارے ایک ہیں‘‘۔ہمارے اہلِ سیاست اور اہلِ اقتدار کی ایک خوبی ماننا پڑے گی کہ ایک دوسرے کا خیال ضرور رکھتے ہیں۔ اسما عیل میرٹھی نے بچوں کے لیے کمال کی نظمیں کہی ہیں۔ ان کی ایک نظم کوّوں پر بہت مشہور ہے۔ کوے بھی ہمارے بڑے لوگوں کی طرح مل کر کھاتے ہیں۔ یوں تو ہے کوّا حرص کا بندہ /کچھ بھی نہ چھوڑے پاک اور گندہ/اچھی ہے پر اُس کی عادت / بھائیوں کی کرتا ہے دعوت /کوئی ذرا سی چیز جو پالے / کھائے نہ جب تک سب کو بُلا لے۔