'' پی آئی اے نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر افغانستان میں کابل سمیت دیگر شہروں کے لیے فلائٹ آپریشن معطل کر دیا۔اس سے قبل طالبان کی حکومت نے کابل اسلام آباد کرایہ کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے مراسلے میں دھمکی دی تھی کہ کرایہ کم نہ ہونے کی صورت میں پی آئی اے اور افغان ایئر لائن کی کابل فلائٹس پر پابندی لگا دی جائے گی۔ پی آئی اے نے موقف اختیار کیا کہ انشورنس کی قیمت بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے پر مجبور ہیں۔ادھر برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے افغانستان کے لیے پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن معطل کرنے کی وجہ طالبان کا جارحانہ رویہ قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ طالبان کا رویہ اس قدر جارحانہ ہے کہ ایک دن کابل میں منیجر آپریشن کو بندوق کی نوک پر بٹھا لیا اور روزانہ کی بنیاد پر نئی پالیسی متعارف کرا دیتے ہیں۔یہ اقدام پی آئی اے کے آپریشنز میں رکاوٹ بن رہے تھے۔‘‘
یہ خبر گزشتہ ہفتے روزنامہ دنیا میں شائع ہو ئی۔ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ طالبان کی حمایت یا مخالفت کا نہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کو نکالنے کے بعد طالبان نے کاروبارِ مملکت کس طرح چلانا ہے؟ ان کی فتح دنیا نے تسلیم کر لی۔ امریکہ اپنی ہزیمت مان چکا۔ اب اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہوائی جہازوں کے کرائے اور انشورنس جیسے تکنیکی ایشو بندوق سے حل کیے جائیں گے ؟ اگر کوئی افغانستان کا اور طالبان حکومت کا بداندیش ہے تو وہ اس پر واہ واہ کرے گا مگر جو افغانستان کا اور وہاں کی موجودہ حکومت کا خیر خواہ ہے وہ اس رویے پر فکرمند ہو گا۔
مانا کہ اس رویے کے پیچھے بیس تیس سالہ جدو جہد ہے جو بندوق کی مدد سے کی گئی۔ ایک لحاظ سے غلام محمد قاصر مرحوم کا شہرہ آفاق شعر طالبان پر صادق آتا ہے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
طالبان ناکام نہیں ہوئے۔ بندوق کی مدد سے اللہ کی نصرت کے ساتھ ظفریاب ہو ئے مگر ساتھ ہی تلخ حقیقت یہ ہے کہ انہیں بندوق چلانے کے علاوہ کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔ کھیت میں کارخانے میں بازار میں دفتر میں انہوں نے کوئی کام کیا نہ کوئی اور پیشہ یا مصروفیت۔ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا لڑائی میں حصہ لینے والے طالبان کو ایک باقاعدہ پیشہ ور فوج میں تبدیل کیا جائے گا ؟ اور پھر انہیں سول معاملات سے الگ رکھا جا ئے گا؟ یا کاروبارِ مملکت وہی چلائیں گے ؟ اگر وہی چلائیں گے تو پھر ان کے پاس تو بندوق ہی ہے۔ اگر پاکستان جیسے دوست ملک کی قومی ایئر لائن کے منیجر کو وہ بندوق کی نوک پر بٹھا سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک مطلب یہ ہے کہ ریاستی معاملات بندوق کے ساتھ چلائے جائیں گے۔متناقض بات (paradox) یہ ہے کہ ایک طرف وہ بندوق کو کندھے سے اتارنے کے لیے تیار نہیں‘ دوسری طرف وہ معاشی لحاظ سے دوسروں کے محتاج ہیں۔ جس پاکستان کے سینئر افسر کو وہ بندوق کی نوک پر بٹھا رہے ہیں یہ وہی پاکستان ہے جو اُن کے ملک کے لیے لائف لائن ہے۔ چاروں طرف خشکی سے محصور افغانستان کا انحصار پاکستان کی بندرگاہوں پر ہے۔ پیداوار وہاں کی پوست ہے یا پھل۔ صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ گندم ساری کی ساری پاکستان سے جاتی ہے۔ یہ بات بچے بچے کو معلوم ہے کہ سوئی سے لے کر مشین تک اور کپڑے سے کر چینی تک سب کچھ یہیں سے جاتا ہے۔ مریض بھی یہیں آتے ہیں اور طلبہ بھی۔
کوئی طالبان کو سمجھائے کہ اب آپ کو ملک کا نظم و نسق چلانا ہے۔ کارخانے لگانے ہیں۔زراعت کو مشینی ( میکانائز) کرنا ہے۔ عوام کے لیے خوراک پیدا کرنی ہے۔ دنیا بھر کے سفیروں سے معاملات طے کرنے ہیں جس کا واحد طریقہ گفت و شنید ہے۔ کالج‘ سکول‘ یونیورسٹیاں کھولنی ہیں۔ ایئر لائن چلانی ہے۔ عدالتیں قائم کرنی ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ معاملات چلانے ہیں۔یہ اور اس جیسے سینکڑوں کام کرنے ہیں۔ ان میں سے کوئی کام بھی بندوق کی نوک پر نہیں ہو گا۔ اب علم کی ضرورت ہے اور حلم کی ! اب بندوق کو غلاف میں ڈال دیں۔ ڈھنگ کی افرادی قوت اپنے پاس نہیں تو دوسرے ملکوں سے لیں۔ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ صنعت کاروں کو یقین دلائیں کہ وہ اور ان کی فیکٹریاں محفوظ رہیں گی۔پھلوں کو ڈبوں میں بند اور محفوظ کرنے کے لیے تھائی لینڈ‘ فلپائن اور ملائیشیا سے ماہرین بلائیں۔ معدنیات دریافت کرنے کے لیے کمپنیوں کو منگوائیں اور ان سے ماہرانہ اور شاطرانہ انداز سے شرائط طے کریں۔ یہ کام اعداد و شمار سے ہو گا اور مذاکرات سے! بندوق کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں !
جس تسلسل کے ساتھ افغانستان کے شہروں میں دھماکے ہو رہے ہیں اور ہلاکتوں کی جو تعداد رپورٹ ہو رہی ہے اس کے پیش نظر مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ دو دن پہلے طالبان کے ترجمان نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ چین افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے۔مگر کیا افغانستان کی اندرونی صورتِ حال چین کو ایسا کرنے دے گی ؟
سرمایہ کاری کے ساتھ چین کی افرادی قوت بھی آئے گی۔ کیا اس افرادی قوت کی حفاظت کی ضمانت دی جا سکے گی؟ پاکستان نے خود اس ضمن میں بہت ناخوشگوار واقعات برداشت کیے ہیں جبکہ پاکستان میں ادارے منظم ہیں اور ریاست مضبوط! اس کے مقابلے میں افغانستان انتہائی عدم استحکام کا شکار ہے۔ لسانی‘ مسلکی اور نسلی مسائل کی گرد افغانستان پر ایک سیاہ چادر کی صورت تنی ہوئی ہے۔ خدا کرے کہ چین کی سرمایہ کاری کا ارداہ پایۂ تکمیل تک پہنچے۔
طالبان حکومت کی کامیابی کے لیے صرف دو عوامل درکار ہیں اور یہ دو عوامل ایسے ہیں جن کے بغیر کامیابی کا کوئی امکان نہیں؛ ایک مذاکرات، دوسرا برداشت۔ دونوں عوامل بیرونی اور اندرونی دونوں حوالوں سے ناگزیر ہیں۔ خاص طور پر اندرونی ہم آہنگی کے لیے مذاکرات اور برداشت لازم ہیں۔ اس وقت جن ازبکوں اور تاجکوں کو طالبان حکومت نے اپنایا ہوا ہے یہ وہ ہیں جو نظریاتی طور پر ان کے ساتھ ہیں‘ برداشت کا تقاضا یہ ہے کہ مخالف نظریات رکھنے والوں کو بھی ساتھ ملایا جائے۔ مسلک اور زبان سے قطع نظر سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تو حکومت بچے گی اور کامیاب ہو گی۔ جو شواہد نظر آرہے ہیں وہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ خواتین کی ملازمتوں اور تعلیم کا سلسلہ وعدۂ فردا پر رُکا ہوا ہے۔ اس ضمن میں اندرونی اختلافات شدید ہیں۔ ایک گروہ اس سلسلے میں متوازن رویہ رکھنا چاہتا ہے‘ دوسرا غیر لچکدار! معاملات کی نوعیت کا اصل احساس اُن طالبان رہنماؤں کو ہے جو دوحہ مذاکرات میں شامل تھے۔ دوسری طرف طالبان کے وہ رہنما ہیں جو جنگ کے میدان میں تھے۔ دونوں کا اپنا اپنا استحقاق ہے۔ اور دونوں کی اپروچ میں تفاوت بہت زیادہ ہے۔ جنگی کمانڈروں کو چاہیے کہ وہ ایک پروفیشنل فوج تیار کرنے میں لگ جائیں اور پالیسی معاملات مکمل طور پر ان رہنماؤں کے حوالے کر دیں جو مذاکرات کی چھلنی سے گزرے ہیں اور جنہیں احساس ہے کہ دنیا کی کیا توقعات ہیں اور آگے کیسے بڑھنا ہے ؟