دیکھتے دیکھتے، ایک نسل ختم ہو جاتی ہے۔ ہم ٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں۔ بزرگ قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ بزرگی نہیں، دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ حضور! تیار ہو جائیے! آپ کی نسل کے خاتمے کا آغاز ہونے والا ہے۔ پھر نئی صف سے لوگ ایک ایک کر کے جانا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک اور نسل غائب ہو جاتی ہے۔ پھر اگلی نسل کی باری آتی ہے۔ بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ایک تہہ ہٹتی ہے۔ دوسری تہہ اوپر آجاتی ہے۔ یہی مدبّرالامر کی تدبیر ہے۔ یہی تقدیر ہے... ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تم کو ایک بچے کی صورت نکال لائے تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔(مفہوم) (الحج:5)
لاہور میں مرحوم دوست سید آفتاب احمد شاہ کا تعزیتی ریفرنس تھا۔ ان کی صاحبزادی نے کہ کسٹم سروس میں کلکٹر ہیں، اپنے ابو کی اور میری چوّن سالہ دوستی کا مان رکھتے ہوئے بطور خاص اسلام آباد سے بلایا۔ تقریب میں موبائل فون کی آواز دبا دی‘ جسے کہتے ہیں: Silent پر کر دینا۔ ایسا مسجد میں کیا جائے یا کسی تقریب میں، آواز کو دوبارہ بحال کرنا یاد نہیں رہتا۔ تقریب خاصی تاخیر سے ختم ہوئی۔ فون کی آواز ٹھیک کرنا یاد نہ رہا۔ صبح اسی تاخیر سے اٹھنا ہوا جس تاخیر سے ہم جیسے اٹھتے ہیں۔ دیکھا تو رات کے وقت کئی کالیں آئی تھیں۔ گھر والوں کی اور چھوٹے بھائی کی! سب سے چھوٹے ماموں جان اس نگر کو سدھار گئے تھے جہاں اس سے پہلے نانا جان، نانی جان، امی جان اور دوسرے ماموں سدھارے تھے۔ آخری نشانی ننھیال کی ختم ہو گئی۔ نانکے مُک گئے۔ ننھیال نانا نانی سے ہوتے ہیں اور اس کے بعد ماموئوں اور خالاؤں سے۔ اس کے بعد پسماندگان سے تعلق گہرا قائم ہو جائے تو خوش بختی ورنہ دنیا کی بھیڑ میں قرابت داری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جب ایک فریق گاؤں میں رہتا ہو اور دوسرا شہر میں!
ہمارے یہ ماموں، اپنے والد اور بھائی ہی کی طرح طویل قامت تھے۔ غضب کے شہسوار! نیزہ بازی کے ماہر! بے خوف! جیسے اس نسل کے لوگ تھے۔ رات کے بے پناہ اندھیرے میں سفر کرتے۔ کبھی پیدل کبھی گھوڑے پر۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی عزت، منصب یا امارت سے نہیں بلکہ علم، وجاہت اور شخصیت کی بنا پر کی جاتی ہے۔ ہجوم جنہیں دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہے۔ علاقے کے جھگڑے جن کی دانائی سے ختم ہو جاتے ہیں۔ لاٹھیاں اور بندوقیں اٹھائے، بپھرے ہوئے لوگ جن کی حکمت سے، چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں۔ پورے علاقے میں ان کا احترام تھا۔ شادیوں اور جنازوں پر ان کا انتظار کیا جاتا تھا۔ رہنمائی کے لیے لوگ ان کی طرف دیکھتے تھے۔ ہم بہن بھائی جب چھوٹے تھے تو ہمیں باہر کھیتوں میں لے کر جاتے جہاں خربوزے ہوتے اور موٹھ کی پھلیاں۔ بعد میں خربوزوں کی جگہ مونگ پھلی نے لے لی۔ گاؤں سے جب بھی ہمیں ملنے شہر میں آتے تو نانی جان ان کے ہاتھ وہ ساری سوغاتیں بھیجتیں جو آج معدوم ہو چکی ہیں۔ تنور میں بریاں کیے ہوئے باجرے کے سٹے، ستو، مرنڈے، میٹھی روٹیاں‘ بوتلوں میں بھرا خالص دودھ! ہمارے گاؤں اور ماموں جان کے گاؤں میں چار پانچ میل کا فاصلہ ہے۔ درمیان میں ایک گھاٹی پڑتی ہے۔ مشکل اور خوفناک۔ پہلے نیچے نشیب کی طرف جانا پڑتا ہے۔ ایک پُر ہول اترائی پر! گھوڑے پر ہوں تو، اتر کر، اور گھوڑے کو ساتھ ساتھ پتھروں اور چٹانوں پر چلا کر۔ سائیکل پر ہوں تو سائیکل کاندھے پر اٹھا کر! نشیب میں ایک میدان تھا ریتلا۔ اس کے بعد پہاڑی ندی! جو برسات میں عبور ہونے کے لیے پہروں انتظار کراتی۔ اسے پار کرنے کے بعد پھر چڑھائی‘ مگر یہ چڑھائی نسبتاً مہربان تھی۔ گھوڑے پر سوار ہوا جا سکتا تھا۔ دونوں گاؤں کے درمیان اس فاصلے اور اس پُر ہول گھاٹی کو ہم نے کتنی ہی بار عبور کیا ہو گا۔ ماموں جان ساتھ ہوتے تو یہ سارا سفر پکنک کی طرح لگتا۔ بارہا وہ رات کو سفر کرتے ہوئے اس گھاٹی کو تنہا پار کرتے۔ کبھی گھوڑے پر کبھی پیدل! بہت بعد میں، جب گاڑیاں اور موٹر سائیکل عام ہوئے تو اس گھاٹی کو مسافروں نے خیر باد کہہ دیا‘ اور نئے راستے تلاش کر لیے۔ پیدل چلنا خیال و خواب ہو گیا۔ گھوڑے‘ گھوڑیاں کم ہوتے ہوتے صرف یادداشتوں میں رہ گئے۔ ماموں جان کے گھر میں موٹر سائیکل آ گئی۔ ان کا بیٹا جوان ہوا تو اس نے جیپ خرید لی۔ اب وہ شہر میں ہمارے ہاں آتے تو بیٹے کی جیپ پر یا کبھی کبھی ہم انہیں گاڑی پر لے آتے۔
امی جان اور بڑے ماموں کی وفات کے بعد ننھیال صرف انہی پر مشتمل ہو کر رہ گیا تھا۔ ہم بھائی کوشش کرتے کہ جتنی زیادہ ممکن ہو ان سے ملاقات ہوتی رہے۔ ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ بہت بہادری سے بیماری کا مقابلہ کرتے رہے۔ اپنے معمولات، زمینوں کی دیکھ بھال، مسجد کے امور، علاقے میں آنا جانا، سب کچھ معمول کے مطابق جاری رکھا۔ ذیابیطس دیمک کی طرح کھاتی ہے خاص طور پر ان افراد کو جو دیہات میں رہنے کی وجہ سے ڈاکٹر اور ہسپتال سے دور ہوتے ہیں۔ ماموں جان کو سر اور ہاتھوں میں رعشہ شروع ہو گیا۔ آسٹریلیا میں ایک برخوردار نیورو فزیشن ہیں، اور ہمارے صاحبزادے کے دوست۔ ان سے پوچھا کہ اسلام آباد راولپنڈی میں کس ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود علاج کریں گے۔ ماموں جان کے وڈیو کلپس بنا کر انہیں بھیجے۔ دوائیں شروع کرائیں۔ کچھ عرصہ بعد سر کا رعشہ تو ٹھیک ہو گیا لیکن ہاتھوں کا رعشہ آخر تک رہا۔ ان کا بیٹا اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا۔ ایک دن میری بڑی بہن کا فون آیا کہ انہوں نے کچھ دنوں کے لیے ماموں جان کو گاؤں سے بلا لیا ہے۔ ان کے نئے دانت بنوانے ہیں۔ دانت بن گئے۔ میں نے چیک اپ کرایا تو گردوں کی کارکردگی کم نکلی۔ نیفرالوجسٹ کو دکھایا۔ اس نے پروٹین کم کرنے کا کہا۔ ان کی ادویات شہر سے باقاعدگی کے ساتھ بھجوائی جاتی رہیں۔ کبھی میں خود دینے جاتا۔ کچھ وقت ان کے ساتھ گزارتا۔ ایک دن گیا تو مسجد میں تھے۔ غسل کرنے کے بعد نماز پڑھنے لگے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی بھی باقاعدگی سے جاتا۔ بہت خوش ہوتے۔وقت گزر رہا تھا۔ وہ زیادہ کمزور ہو رہے تھے مگر اس کے باوجود عمومی حالت اچھی تھی۔ مسجد بھی جا رہے تھے۔ صاحب فراش نہ تھے۔ شاید قدرت انہیں اور ان کے تیمارداروں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ عشا کی نماز ادا کی۔ رات آدھی ایک طرف تھی‘ آدھی دوسری طرف۔ بیٹے کو بلایا کہ مجھے بٹھاؤ۔ باتھ روم گئے۔ واپس آئے۔ گلے سے خراش قسم کی آ واز آئی اور پلک جھپکنے میں وہ سرحد عبور کر چکے تھے۔
اب ہماری نسل فرنٹ لائن پر ہے۔ اس دنیا میں کوئی ہمیشہ کے لیے رہتا تو وہ پیغمبر ہوتے۔ خاتم النبیین ہوتے ع
جب احمد مرسَل نہ رہے، کون رہے گا!
خدا رفتگاں کی منزلیں آسان فرمائے! اور ہم پسماندگان پر رحم کرے!