دو نحوستیں

جہاں جانا ہے وہاں نہیں جا سکتے۔
مہذب دنیا میں کتنے ملک ہیں جہاں راستے بند ہو تے ہیں؟ شاہراہوں پر قوی ہیکل کنٹینر پڑے ہوتے ہیں۔ بچے کی ولادت کا وقت نزدیک ہے‘ مگر ہسپتال نہیں جا سکتے۔ ہوائی اڈے پر نہیں پہنچ سکتے۔ کمرۂ امتحان میں نہیں پہنچ سکتے۔ جنازے میں شامل ہونا ناممکن ہے۔ تدفین کے لیے میت کو قبرستان لے جانا ناممکن ہے۔ پہلے پتا کیجیے کون سا راستہ کھلا ہے؟ کب تک کھلا ہے ؟ پھر گھر سے نکلیے!
اس ملک کے بے زبان شہریوں کے ساتھ یہ ظالمانہ مذاق کب تک جاری رہے گا؟ جس حکومت نے ‘ جس ریاست نے‘ لوگوں کو آرام پہنچانا ہے ‘ وہی ان کے راستے بند کر رہی ہے۔دھرنے دینے والے قانون سے بالا تر ہیں۔ کیوں ؟ کیا راستوں پر قبضہ کرنے والے حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟ اور پھر یہ ظالمانہ مذاق ہر چند ماہ کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ کوئی گروہ اٹھتا ہے۔ راستوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس گروہ سے نمٹنے کے بجائے حکومت خود راستوں پر قبضہ کر لیتی ہے۔گویا وہ گروہ اور حکومت اس ضمن میں ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔ٹارگٹ عوام ہیں۔ راستے بند ہونے ہی ہونے ہیں۔ گروہ نے نہ کیے تو حکومت کر دے گی۔
کوئی مذہبی دن ہے تو راستے بند۔ سیاسی سرگرمی ہے تو راستے بند۔ کسی کے رشتہ دار کی لاش گری ہے تو راستے بند۔طلبہ کے مطالبات ہیں تو راستے بند۔ کسی کرّو فر والے نے گزرنا ہے تو راستے بند۔ ان تمام مواقع پر پبلک کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ پانی اور ماچس تک پر ٹیکس لینے والی ریاست لوگوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر یوں غائب ہو جاتی ہے جیسے اس کا وجود ہی کوئی نہیں۔ اندھے کو بھی ماں کم از کم مسجد پہنچاکر غائب ہوتی تھی۔ ریاست تو لوگوں کو بند راستوں کے سامنے چھوڑ کر گم ہو جاتی ہے۔
کس مہذب ملک میں راستے بند ہوتے ہیں ؟ کیا سعودی عرب اور یو اے ای میں مسلمانوں کے گروہ راستے بند کرتے ہیں ؟ کیا برطانیہ‘ امریکہ‘ ملائیشیا ‘ جاپان میں حکومتیں کنٹینروں سے راستے بلاک کر تی ہیں؟کیا حکومت بتائے گی کہ وہ یہ سلسلہ کب بند کرے گی یا کرائے گی؟یا کم از کم اتنا بتادے کہ عوام اس مسئلے کے حل کے لیے کیا کریں؟ کس کے پاس جائیں ؟ تیرہ بخت عوام کے پاس ہیلی کاپٹر ہیں نہ حاجب اور نقیب! برق رفتار بیش بہا گاڑیوں کے بیڑے ہیں نہ ہٹو بچو کرنے والے پولیس مین! تو کیا وہ گھروں سے نکلنا بند کر دیں؟ یا یہ قوم اجتماعی خود کشی کر لے ؟
دو نحوستیں اس ملک کے ساتھ یوں چمٹی ہیں کہ اترنے کا نام نہیں لے رہیں۔ ایک اندرونی بد امنی ہے۔ کبھی دھماکے ہیں تو کبھی اغوا برائے تاوان۔ ہے کوئی بہادر عوامی نمائندہ جو اسمبلی میں کھڑا ہو اور سوال کرے کہ باقی شہروں کو تو چھوڑ دو صرف اسلام آباد کا بتاؤ کہ ایک مہینے میں کتنی گاڑیاں‘ کتنے موٹر سائیکل چوری ہوتے ہیں اور ڈاکے کتنے پڑتے ہیں ؟ ٹریفک حادثات بھی بدامنی کا حصہ ہیں۔ بچاؤ کے لیے کیے گئے اقدامات صفر ہیں۔
دوسری نحوست اقتصادی غلامی ہے۔عالمی اقتصادی ادارے پہلے بھی ہماری گردن پر سوار تھے۔ آج بھی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پہلے ان کے نمائندے صرف وزارتِ خزانہ میں بیٹھتے تھے اب سٹیٹ بینک آف پاکستان بھی مکمل طور پر ان کے قبضے میں ہے۔ کس چیز پر کتنا ٹیکس لگانا ہے ‘ اس کا فیصلہ پاکستانی حکومت نہیں کرتی۔ کوئی اور کرتا ہے۔ کہنے کو ہم آزاد ہیں۔ ماں کو فارسی نہیں آتی تھی‘ بچڑا آب آب کہتے مر گیا۔ پاکستانی عوام تبدیلی تبدیلی کہتے جان دے رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کے بچوں کے نکاح حجاز میں ہوتے تھے۔ آج کے حکمران بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف لاکھوں خاندان محلے کی مسجد میں بھی نکاح کرانے سے معذور ہیں۔ پلّے پیسہ ہے نہ دھیلا‘ نکاح کیسے ہو گا؟ سونے کو تو چھوڑیے‘ مرغی کے سالن کے ساتھ برات کو کھانا کھلانا مشکل بلکہ ناممکن ہو رہا ہے۔ تقریباً پونے چار سو روپے میں ایک کلو گھی مل رہا ہے۔ روٹی کا آٹا کم ہو رہا ہے اور قیمت کا رُخ آسمان کی طرف ہے۔ وہ دن دور نہیں جب لوگ چیتھڑے اوڑھیں گے اور اُبلے ہوئے پتے کھائیں گے۔ کیا کسی نے وزیر اعظم کو‘ صدر کو‘ کسی وزیر کو‘کسی چیف منسٹر کو‘کسی گورنر کو بازار میں سودا سلف لیتے دیکھا ہے؟ جو قیامت عام آدمی پر ٹوٹی ہے اس کا اربابِ اختیار کو کوئی اندازہ ہی نہیں! دو مختلف دنیائیں ہیں جو الگ الگ سیاروں پر آباد ہیں۔
فیض صاحب کا ایک فقرہ بہت مشہور ہے۔ کسی محفل میں پاکستان کے مستقبل پر بات چیت ہو رہی تھی۔ کسی کو ڈر تھا کہ خون خرابہ ہو گا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ مزید ٹوٹ پھوٹ اور شکست و ریخت ہو گی۔ فیض صاحب کہنے لگے کہ اس سے بھی زیادہ برا ہو گا۔ وہ اس طرح کہ پاکستان اسی طرح چلتا رہے گا۔ لگتا ہے ان کا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والوں نے‘ جو سمندر پار بیٹھے ہیں ‘ یہی طے کر رکھا ہے کہ یہ ملک ایسے ہی رہے۔ ڈوبے نہیں ‘ بس سطحِ آب پر تیرتا رہے مگر یوں کہ غوطے بھی کھاتا رہے اور زندہ بھی رہے۔ بس پانی سے نکل کر اپنے پاؤں پر نہ چل سکے۔ کتنی دہائیاں ہو گئیں‘ ہم قرضوں پر قرضے لے رہے ہیں۔ ہماری برآمدات میں کوئی مشینری ہے نہ ٹیکنالوجی۔ غضب خدا کا زرعی اشیا بھی باہر سے منگوا رہے ہیں۔ کبھی گندم! کبھی چینی! کشکول بدست ملک ملک پھر رہے ہیں اور آواز لگا رہے ہیں جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کابھی بھلا۔ تبدیلی والے مڈل کلاس کا نعرہ لگا کر آئے تھے۔ سب نے دیکھ لیا کہ ماشاء اللہ ان کے وزیروں اور کلیدی امرا کی جائدادیں بھی مغرب میں ہیں۔ یہ بھی تو شہ خانوں کے معاملات خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ سیاحت کی ترقی یوں کی کہ متبادل انتظام کیے بغیر سرکاری موٹل بیک جنبش قلم بند کر دیے۔ترقیاتی منصوبے جو جاری تھے‘ جہاں ہیں‘ جیسے ہیں‘ کی بنیاد پر وہیں روک دیے گئے۔
پڑھنے والے شکوہ کرتے ہیں کہ ہم کالم نگار مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ مایوسی ہم نہیں‘ وہ پھیلا رہے ہیں جن کے پاس اختیار ہے۔ لکھنے والے نے تو وہی لکھنا ہے جو اسے دکھائی دے رہا ہے ! کیا یہ لکھنے والے ہیں جو آئے دن شاہراہیں بند کر دیتے ہیں؟ کیا کالم نگار جلوس نکالتے ہیں یا دھرنے دیتے ہیں یا کنٹینر لگا لگا کر آمد ورفت مسدود کر دیتے ہیں ؟ کیالکھنے والوں نے قوم کو استعماری مالیات کے شکنجے میں کسا ہے ؟ بھائی لوگو! سفیر کو کیوں قتل کرتے ہو؟ سفیر تو وہی پیغام دے گا جو اسے سونپا گیا ہے! کالم نگار وہی کچھ لکھے گا جو اسے گردو پیش میں نظر آ رہا ہے اور صاف نظر آرہا ہے!
اندرونی بد امنی اور بیرونی طاقتوں پر معاشی انحصار ! جو حکومت ان دو نحوستوں سے قوم کو مستقل چھٹکارا دلائے گی وہی نجات دہندہ ہو گی۔ تقریریں‘ بیانات‘ جوابی بیانات ‘ ذاتی حملے ‘میڈیا کی کھوکھلی مہمات ‘ الزامات‘ جوابی الزامات‘ ان سے حکومت بھی غیر مقبول ہو رہی ہے اور اپوزیشن بھی! جو جماعتیں اپوزیشن میں بھی متحد نہیں ہو رہیں‘ وہ حکومت میں آکر کیا تیر ماریں گی؟ ان کے پاس متبادل معاشی منصوبہ کیا ہے ؟ دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نہیں دکھائی دے رہی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں