ہم اہلِ قریہ اُن معززین سے مختلف ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں!
ہمیں ایک ایک فرد کا پتا ہے کہ کون کس کا فرزند ہے اور کون کس کا برادر زادہ یا خواہر زادہ! ہم جانتے ہیں کہ کس کے آبا کہاں سے آئے تھے؟ کس کے اجداد کیا کرتے تھے؟ ہم کسی سے مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں تو اسے دیکھ کر نہیں، بلکہ اس کے مرحوم والد، دادا اور نانا کے چہرے ذہن میں لا کر مصافحہ یا معانقہ کرتے ہیں۔ ہمیں ایک ایک مرحوم کی قبر کا علم ہے۔ جب قبرستان قبروں سے بھر جاتے ہیں تو ہم نئی زمین پیش کر دیتے ہیں، فروخت نہیں کرتے!
ہم حویلیوں اور مکانوں کو ان کے حال سے نہیں، بلکہ ماضی سے پہچانتے ہیں! ہمیں معلوم ہے، کس حویلی کے درمیان کب لکیر کھنچی اور اس سے پیشتر کیا نقشہ تھا۔ دیوار کہاں تھی، دروازہ کہاں تھا، کون سا کمرہ رُو بہ شمال تھا اور کون سا جنوب کی طرف کھلتا تھا۔ مکانوں اور حویلیوں کے یہ معدوم نقشے یا تو ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں یا خوابوں میں! جو کچھ بھی ہو جائے ہمیں خواب پرانی حویلیوں اور مرحوم مکانوں کے آتے ہیں! چچا زاد جب درمیان میں دیوار کھڑی کرتے ہیں تو ہم، سارے اہلِ قریہ روتے ہیں، مگر صحنوں کے درمیان اٹھنے والی اور کمروں اور برآمدوں کو بانٹنے والی یہ دیواریں رونے سے کبھی نہیں رکیں! ہمیں شہروں میں رہنے والے معززین سے ہمدردی ہے جو کوٹھیوں اور محلات کی تقسیم کے لیے عدالتوں میں جاتے ہیں مگر ان پر رونے والا کوئی نہیں ہوتا۔
ہماری خوشیاں کیا ہیں؟ ہماری خوشیاں وائی فائی کے پاس ورڈ سے نہیں نہ سالگرہ کی تقریب سے، نہ آدھی رات کو پزا ڈیلیور کرانے سے نہ بیڈ روم کے سائز سے نہ فانوس کے امپورٹڈ ہونے سے! ہم شام کو درختوں کی ٹہنیاں اور گھاس چارپائی پر بچھا دیتے ہیں۔ جب ہماری بکریاں اسے کھاتی ہیں تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ ہماری ابلق گائے جب سفید براق بچھڑا جنے، جب بارش وقت پر ہو، جب خوشوں کے اندر دانے گیلے نہ ہوں، جب بیل دوڑ میں انعام جیت لے، جب بھڑولے گندم سے بھر جائیں، جب مونگ پھلی کی بوریاں چھت سے جا لگیں، تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ ہم بکری کے نئے میمنے کو چوم کر، رنگ رنگ کی مرغیوں کو بڑھتا دیکھ کر، بھوسے کا مینار بنا کر، تالابوں کو پانی سے چھلکتا دیکھ کر مسرت حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں دودھ دینے والی گائے ہو، ہمارے مویشیوں کو چارہ ملتا رہے، ہمارے گاؤں میں تھانیدار نہ آئے، ہمارے ٹریکٹروں میں ڈالا جانا والا پٹرول مہنگا نہ ہو تو ہم خوش ہوتے ہیں۔ ہمیں خوشی کے لیے سالگرہ کا کیک نہیں درکار۔ نہ ہمارے قریوں میں کیک بنتے ہیں۔ ہمارے بچے چاکلیٹ کھاتے ہیں نہ آئس کریم! ہاں وقت پر کھانا کھا کر وقت پر سو ضرور جاتے ہیں اور اذان کے ساتھ اٹھ بیٹھتے ہیں۔
ہم اہلِ قریہ نیو ایئر نائٹ نہیں مناتے نہ ایک دوسرے کو ہیپی نیو ایئر کہتے ہیں۔ ہم اہلِ قریہ حقیقت شناس ہیں! ہمیں معلوم ہے ہم نئے سال میں ہیپی نہیں ہوں گے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں اور نفاق کی نشانیاں ہیں۔ یہ ممکن بھی کیسے ہے کہ رات کو سوئیں اور صبح بیدار ہوں تو سب کچھ بدل گیا ہو؟ ہمیں تو اکتیس دسمبر اور یکم جنوری میں کبھی کوئی فرق نہیں دکھائی دیا۔ بارش سے جھپ جھپ کرتے جس کچے صحن کو عبور کر کے کمرے میں جاتے ہیں اور جا کر سو جاتے ہیں‘ صبح اٹھ کر اُسی کیچڑ سے بھرے ہوئے صحن سے گزر کر باہر نکلتے ہیں۔ وہی ڈبیوں والے کھیس اوڑھے ہوئے، وہی گُڑ اور نمک والی چائے پیتے ہوئے، اُسی دھوئیں سے بھری ہوئی رسوئی میں بیٹھے ہوئے، ہم اُس صبح کو دیکھتے ہیں جسے شہر کے معززین نئی صبح کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے لیے یکم جنوری ایک تاریخ کے سوا کچھ نہیں۔
ہمارے قریوں میں ڈسپنسریوں، ہسپتالوں، لیبارٹریوں، ایکس رے اور الٹرا ساؤنڈ کی دکانوں اور دوا فروشوں کا رواج نہیں۔ ہم مریضوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹر کے ہسپتال لے جاتے ہیں جہاں ڈاکٹر موجود ہو تو آلات موجود نہیں ہوتے۔ اکثر و بیشتر مریض واپسی پر میت میں تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ کوئی وزیرِ صحت، کوئی سیکرٹری صحت کبھی ہمارے قریے میں نہیں آیا۔ ہمارے ہاں ایسی دکانیں بھی نہیں جہاں ذبح شدہ بکرے لٹکے ہوں۔ ہاں کوئی علیل بکری یا مریض گائے بھینس حلقوم پر بر وقت چھری پھِروا، لے تو اور بات ہے۔ ہم تو پیاز اور لسی کے ساتھ کھانا کھا لیتے ہیں۔ چٹنی ہمارا فاسٹ فوڈ ہے۔ آم کی رُت ہو تو آم کے ساتھ، اور خربوزوں کا موسم ہو تو خربوزوں کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔ جس رفتار کے ساتھ اور جس مقدار میں معززینِ شہر مرغِ بریاں اور مرغِ مسلّم کھاتے ہیں، اُس رفتار اور اُس مقدار کا ساتھ ہم اہل قریہ کہاں دے سکتے تھے۔ وہ تو بھلا ہو فرنگیوں کا جنہوں نے گتّے کی مرغی ایجاد کی، جس کا نام شیور کی مرغی رکھا، جس کے چرغے، تِکے اور کڑھائیاں کھائی جاتی ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مرغ سمجھ کر کھائی جاتی ہیں۔ وہ مرغ ہی کیا جو صحنوں، سبزہ زاروں، کھیتوں، گلی کوچوں میں مٹر گشت نہ کرے۔ جو ایک ادائے فاخرہ کے ساتھ اذان نہ دے اور وقتاً فوقتاً گردن میں تناؤ نہ پیدا کرے۔
فرنگیوں کی یہ ایجاد متعدی بیماری کی طرح پھیلی۔ خربوزے بھی شیور کے آنے لگے۔ سب ایک رنگ کے، ایک سائز کے، گول گول، گنجے گنجے، بے ذائقہ۔ پھر شیور کے شاعر پیدا ہونے لگے۔ استاد کا منہ دیکھا نہ کتاب کا۔ سوشل میڈیا کی پیداوار! پھر اینکر بھی شیور کے آنے لگے۔ گفتگو کے فن سے ناآشنا، زبان کی نفاست اور باریکیوں سے ناواقف! پھر پردۂ سیمیں پر شیور کے ڈرامے آ گئے۔ انہوں نے سبق سکھایا کہ بیٹا باپ کو اور بیٹی ماں کو تنک کر کہے: میری اپنی زندگی ہے! ان ڈراموں نے سکھایا کہ خاندان کے اندر مقدس رشتوں کو ہوس کی نذر کیسے کیا جاتا ہے۔ ان اسباق کی کوکھ سے شیور کے میاں بیوی وجود میں آئے۔ بیوی نے شوہر کو خبرِ وحشت اثر دی کہ اس کی اپنی زندگی ہے جس کا شوہر اور شوہر کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ میاں نے اپنی الگ دنیا بسا لی۔ دونوں الگ الگ دنیاؤں کی کلیدیں موبائل فون میں محفوظ ہیں جو کھل جا سم سم سے کھلتی ہیں۔ ہر موبائل کا اپنا کھل جا سم سم ہے۔ اب تو موبائل چہروں کے نقوش سے کھلتے ہیں۔ یہ دو متوازی دنیائیں چلتی رہتی ہیں یہاں تک کہ میاں بیوی کاغذی طور پر بھی الگ ہو جاتے ہیں۔ خدا اس وقت سے بچائے جب بزرگ بھی شیور کے ہوں گے۔
ہم اہل قریہ مختلف ہیں۔ ہمارا لباس، ہماری خوراک، ہمارے سونے جاگنے کے اوقات، ہماری مہمان نوازی، ہماری ترجیحات، ہمارے غم سب کچھ مختلف ہے۔ کسی کی موت واقع ہو جائے تو ہم سب کام چھوڑ دیتے ہیں۔ فصل کا کام ہو یا مکان کی تعمیر، سب کچھ رُک جاتا ہے۔ سب ماتم والے گھر کا رُخ کرتے ہیں۔ قبر کی کھدائی سے لے کر مہمانوں کے کھانے تک، کوئی کام بھی وفات والا گھر نہیں کرتا بلکہ اہلِ قریہ کرتے ہیں۔ ہمیں وفات کی خبر اخبار یا ٹیلی ویژن سے نہیں، اُس تار کے ہلنے سے ملتی ہے جو ہمارے دلوں میں لگی ہوتی ہے۔ تفصیل میں کیا جائیں، بس اتنا عرض کیے دیتے ہیں کہ ہم اہلِ قریہ اُن معززین سے مختلف ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں!