تاخیر مت کیجیے

پروفیسر صاحب کالج میں اس کے استاد تھے۔ خبر ملی کہ بیمار رہنے لگے ہیں۔ اسی دن اس نے ارادہ کر لیا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہو گااور ان کے لیے پھل اور نیالباس لے کر جائے گا۔ ان سے پوچھے گا کہ ادویات کون کون سی لے رہے ہیں۔ پھر باقاعدگی سے ادویات پہنچایا کرے گا۔ کچھ رقم بھی ان کی خدمت میں پیش کرے گا۔ آج وہ جو کچھ بھی ہے‘ جس پوزیشن میں‘ مالی آسودگی کے ساتھ‘ اپنے اساتذہ کی وجہ سے ہے۔ اسے سکندر اعظم کا قول یاد آیا کہ والد مجھے آسمان سے زمین پرلایا اور استاد زمین سے اٹھا کر‘ دوبارہ آسمان جتنی بلندی پر لے گیا۔
اس کا پروگرام تھا کہ اسی اتوار کو ان کی خدمت میں حاضر ہو گا۔ اتفاق سے اتوار کی صبح گاؤں سے اس کا پرانا دوست آگیا جو شام تک اس کے پاس رہا۔ یوں معاملہ اگلے اتوار پر جا پڑا۔ اگلے اتوار اسے طبیعت میں اضمحلال سا محسوس ہوا۔ وہ دو پہر تک بستر ہی میں پڑا رہا۔ اس سے اگلے اتوار سسرال میں ایک دعوت تھی۔ ہفتے اسی طرح مہینے بن بن کر گزرتے رہے۔ اس نے اپنے آپ کو ملامت کی اور مصمم ارادہ کیا کہ اس اتوار کو سارے کام چھوڑ کر‘ہر حال میں‘ جائے گا۔ تاہم موت کے فرشتے نے اس کے مصمم ارادے سے اتفاق نہ کیا۔ اتوار آنے سے پہلے ہی اسے پروفیسر صاحب کی رحلت کی اطلاع مل گئی۔ وہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔یاس اور حسرت نے اس کے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اسے اپنے آپ سے جرم کی بُو آنے لگی۔ وہ کئی دن خاموش رہا۔ بار بار سوچتا کاش گزشتہ اتوار کو ان کی خدمت میں چلا جاتا۔اب کفِ افسوس ملنے کے سوا کیا ہو سکتا تھا۔ اس نے ان کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کرائی۔ ان کی بیوہ کو پھل‘ آٹا اور چینی بھجوائی۔فیس بک پر ان کی تصویر شیئر کی۔ بہت سے لائکس آئے۔ دوستوں نے کمنٹس میں مغفرت کی دعائیں کیں۔ مگر ایک کانٹا سا اس کے دل میں رہ گیا جس کی چبھن وقتاً فوقتاً اسے بے چین کرتی۔ افسوس! ہائے افسوس! کاش وہ ان کی وفات سے پہلے ان کے پاس چلا جاتا۔
یہ ایک شخص کی داستانِ حسرت نہیں! اس بے برکت آئینے میں ہم میں سے اکثر اپنا اپنا چہرا دیکھ سکتے ہیں! ہمارا کوئی پیارا‘ کوئی بزرگ‘ کوئی پیر صاحب‘ کوئی استاد‘ مرحوم والد کا کوئی دوست‘ گاؤں میں کوئی عزیز بیمار ہوتا ہے‘ یا بڑھاپے کی آخری منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے‘ ہم دل کی گہرائیوں کے ساتھ اس کے پاس جانے کا پروگرام بناتے ہیں۔ کوئی نمائشی پہلو نہیں ہوتا۔ صرف اور صرف اپنے دل کی تسکین کی خاطر ! صدق ِدل کے ساتھ ! مگر پھر دنیا کی مکروہات اور روزمرہ کی مصروفیات آڑے آجاتی ہیں۔ آج نہیں‘ کل‘ کل نہیں پرسوں! غیر ارادی طور پر التوا پڑتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے۔پھر خبر آتی ہے کہ وہ صاحب چل بسے۔ اس لیے اگر کسی سے ملنا ہے تو اس کی موت کا انتظار نہ کیجیے۔ دنیا کے کام کبھی ختم نہیں ہوتے۔ آپ کے اور ہمارے بعد بھی یہ کام ہوتے رہیں گے۔جس دن ساری مصروفیات چھوڑ کر بیمار کو یا کسی بوڑھے بزرگ کو ملنے چلے جائیں گے تو ان مصروفیات کو ترک کرنے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ پہلے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین کے نیچے ایک گائے ہے جس نے زمین کو اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے۔ ہم غیر شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ دنیا ہم نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ یقین کیجیے جس دن آپ اپنے ضروری کاموں کی خود ساختہ فہرست کو نظر انداز کر کے کسی بیمار‘ یا کسی بسترِ مرگ پر پڑے شخص کو ملنے چلے جائیں گے‘ کاروبارِ دنیا کو ایک رمق برابر بھی نقصان نہیں ہو گا۔یہ ہمارا وہم ہے یا غلط فہمی یا ایک غیر شعوری خود پسندی کہ دنیا کے کام ہماری وجہ سے چل رہے ہیں۔ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنی دانست میں دنیا کا کارخانہ چلا رہے تھے۔ ایسی بہت سی کھوپڑیوں میں کوّے انڈے دے رہے ہیں اور آنکھوں کے سوراخ سانپوں کی گزر گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
دوسروں کی موت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے پہلے ہی ان سے ملاقات کر لینی چاہیے مگر ہمیں اپنی موت کا انتظار بھی نہیں کرنا چاہیے۔کسی کا قرض واپس کرنا ہے‘ یا کسی کی مدد کرنی ہے‘ کسی کے سامنے کچھ اعتراف کرنا ہے‘ یا کسی سے معافی مانگنی ہے‘ تو یہ کام ورثا کو سونپنے سے قبل خود ہی کر دینا چاہیے۔نیک کاموں کی فہرست کو مزید ملتوی نہ کریں۔ کل تو دور کی بات ہے‘ اگلا لمحہ‘ زندگی کا آخری لمحہ ہو سکتا ہے۔ جو کچھ کسی کو دینا چاہتے ہیں بس دے ڈالیے۔ ابھی ! اسی وقت !
کیا پتہ کل دینے والا نہ رہے‘ یا لینے والا نہ ملے!
پاکستان ہی کی بڑی بڑی کاروباری ایمپائرز کے انجام پر غور کر لیجیے۔ کراچی کا کیسا عظیم الشان کباب اور پراٹھا ہاؤس تھا۔ جیکب لائنز کے تھڑے سے آغاز ہوا اور سلطنت بن گئی۔ جڑواں شہروں میں بہت بڑا تعلیمی سلسلہ تھا۔ آج سب ورثا میں بانٹے جانے کے بعد اور کچھ وراثتی جھگڑوں کے بعد‘ پارہ پارہ ہو چکے ہیں؎
مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں
بنے گا کوئی تو تیغِ ستم کی یادگاروں میں
دبئی سے لے کر اٹلانٹک پار تک محلات اور اپارٹمنٹس ! مگر کفن ایدھی کا! دولت بے حساب مگر خوراک عبرتناک !! خواجہ حسن نظامی نے مغل شہزادوں‘ شہزادیوں کا احوال قلم بند کیا ہے جو در در بھیک مانگتے تھے اور عبرت کا نشان تھے۔ یہ بات تو عام کہی جاتی ہے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی مگر سکندر کے تو دونوں ہاتھ تابوت سے باہر نکالے گئے تھے تا کہ سب دیکھ لیں‘ خالی ہاتھ جا رہا ہے!
وقت کی گیند‘ دنیا کے اس بازیچے میں‘ مسلسل گول کیے جا رہی ہے! تاریخ ہر رات ٹھیک بارہ بجے تبدیل ہو جاتی ہے۔ اذان دینے میں ایک منٹ کی تاخیر نہیں کی جاتی۔ اذان صرف نماز کے لیے بلانے کا کام نہیں کرتی بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ وقت بگٹٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ بڑے سے بڑے علامہ یا بادشاہ کے لیے بھی اذان مؤخر نہیں کی جاتی! سورج طلوع اور غروب ہونے میں ایک ثانیہ تاخیر یا تقدیم نہیں کرتا۔ دھوپ اور چھاؤں بڑے سے بڑے شہنشاہ کے لیے اپنا پروگرام نہیں بدلتی۔ تو پھر ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں اور ہماری کیا اوقات ہے۔ یہ جو ہم ٹائم ٹیبل بناتے پھرتے ہیں اس ٹائم ٹیبل کی کیا حیثیت ہے؟ ٹائم ٹیبل ضروری ہے! بالکل ضروری! مگر خالق اور اس کی مخلوق کے حوالے سے جو ہمارے واجبات ہیں‘ جو ذمہ داریاں ہیں اور جن جن چیزوں کی جواب دہی کرنی ہے‘ ان میں تاخیر کرنا‘ اور کرتے جانا‘ غفلت نہیں‘ پرلے درجے کی حماقت ہے۔ ہم نے اپنی اولاد کو جو کچھ دینا ہے‘ وہ تو ہمارے بعد بھی انہیں مل جائے گا مگر جو کچھ ہم خلقِ خدا کو دینا چاہتے ہیں وہ ہمارے بعد کسی نے نہیں دینا۔آنکھ بند ہونے کے ایک لمحے بعد دو اہم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ایک تو نام ختم ہو جاتا ہے۔اب یہ چوہدری صاحب یا ڈپٹی صاحب نہیں‘ اب یہ میت ہے۔ صرف اور صرف میت! دوسرے‘ ملکیت کا خاتمہ! اس لیے تاخیر مت کیجیے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں