ناظم جوکھیو کی میت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے۔ اس کے سارے جسم پر زخموں کے نشان تھے۔ لاش ملیر (کراچی) کے ایک فارم ہاؤس سے ملی تھی۔ فارم ہاؤس سندھ کی حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے کی ملکیت بتایا جا رہا ہے۔ ایم پی اے نے گرفتاری دے دی ہے۔ کیا مجرم کو سزا ملے گی یا ویسا ہی انصاف ہو گا جیسا کوئٹہ کے ایک چوک پر ڈیوٹی دینے والے ٹریفک پولیس کے سپاہی کے ساتھ ہوا تھا‘ جسے ایک وڈیرے کی گاڑی نے کچل دیا تھا؟ اس سوال کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔
سندھ کے گورنر نے مقتول کے پسماندگان سے ملاقات کی اور اُس جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جو سندھ کی حکومت نے بنائی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ وفاق کی سطح پر جے آئی ٹی بنوائیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس نوجوان کی درد ناک موت کا بہت افسوس ہے۔ اگر وہ مجرم کو قرار واقعی سزا دلوا سکیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ وہ مقتول کے ساتھ ہمدردی اس لیے کر رہے ہیں کہ ملزم کا تعلق ایسی پارٹی سے ہے جو وفاقی حکومت کی مخالف صف میں ہے۔ یہ سوچنا کہ یہ حبِ علی نہیں بغضِ معاویہ ہے، قرینِ انصاف نہیں ہو گا۔ اگر اجازت ہو تو ان کی خدمت میں ایک گزارش ہے۔ یہ قتل تو سندھ میں ہوا ہے‘ جس کے نظم و انصرام کا تعلق وفاق سے براہ راست نہیں۔ کیا وہ اُن ہلاکتوں کے بارے میں کچھ معلومات مہیا فرما سکتے ہیں جو وفاق کی ناک کے عین نیچے ہوئیں؟ سالِ رواں کے پہلے مہینے میں اسلام آباد کے ایک نوجوان اسامہ ستی کو چار سرکاری اہلکاروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ کیا نتیجہ نکلا؟ نو ماہ ہو گئے کیا قاتلوں کو سزا ملی؟ اُس پر بھی جے آئی ٹی بنوا دیں! اس سفاکانہ قتل کے ایک ماہ بعد وفاقی دارالحکومت ہی میں ایک بڑی گاڑی نے مانسہرہ کے چار نوجوانوں کو کچل دیا تھا جو تلاشِ روزگار میں گھر سے نکلے تھے۔ اس حوالے سے ایک با اثر خاتون کے بیٹے کا ذکر بھی میڈیا میں ہوتا رہا۔ کیا وہ ایک خصوصی جے آئی ٹی اس ضمن میں بھی بنوائیں گے؟ یوں تو ماڈل ٹاؤن کے قتلِ عام کا مقدمہ بھی موجودہ حکومت کے ایجنڈے پر تھا۔ توقع تھی کہ قاتلوں کو سزا ملے گی‘ مگر کچھ بھی نہ ہوا!
معاملے کا اصل پہلو اور ہے۔ شرمناک پہلو! جو ہماری بے بسی ظاہر کرتا ہے۔ بے بسی غلامی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ایک غلامی وہ تھی جو پاکستان بننے کے بعد ختم ہو گئی۔ انگریزی استعمار جسمانی لحاظ سے رخصت ہو گیا۔ ایک غلامی وہ ہے جس میں آج تک ہم گلے گلے دھنسے ہوئے ہیں۔ ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہیں۔ پاؤں زنجیروں میں مقید ہیں۔ منہ میں کپڑا ٹھنسا ہے۔ اسے اقتصادی غلامی کہتے ہیں۔ کشکول بدست، ساری دنیا میں پھر رہے ہیں۔ گلی گلی، در در صدا لگا رہے ہیں۔ کہیں سے تیل، کہیں سے ڈالر، جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ اس کی تازہ مثال ملاحظہ ہو۔ فیصل آباد میں پینے کا صاف پانی مہیا کرنے کے لیے جاپان چھ ارب روپے کی گرانٹ دے رہا ہے۔ گرانٹ وہ رقم ہوتی ہے جو واپس نہیں کرنا ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں بھیک! اس رقم سے واٹر ٹریٹمنٹ کا پلانٹ لگے گا اور ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر بھی بچھایا جائے گا‘ یعنی صاف کیا ہوا پانی گھر گھر پہنچایا جائے گا۔ جاپانی سفیر کو حق پہنچتا ہے کہ اس پر تھوڑا سا مذاق بھی کرتا؛ چنانچہ اس نے معاہدے کی تقریب میں کہا کہ اس امداد کے بعد، جاپان کو طلوع آفتاب کی سرزمین کے بجائے پینے کے صاف پانی کے ذریعہ کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے! اور یہ کون سا فیصل آباد ہے؟ یہ فتح جنگ کا غریب قصبہ نہیں!! نہ ہی سندھ یا بلوچستان کا کوئی غربت زدہ شہر ہے! فیصل آباد تو خیر سے پاکستان کا مانچسٹر ہے۔ صنعت و حرفت کا مرکز! پاکستان کا تیسرا بڑا شہر! ایک بے حد امیر شہر!
2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق فیصل آباد کا جی ڈی پی 43 بلین ڈالر تھا۔ پانچ اعشاریہ سات فی صد شرح ترقی پر 2025ء میں یہ جی ڈی پی 87 بلین ڈالر ہو جانا ہے‘ یعنی ستاسی ارب ڈالر۔ کون سی صنعت ہے جو فیصل آباد میں نہیں۔ کاٹن ٹیکسٹائل، سِلک ٹیکسٹائل، سپر فاسفیٹ، ہوزری، صنعتی رنگ، صنعتی کیمیکلز، گارمنٹس، کاغذ، پلپ، پرنٹنگ، زرعی آلات، گھی، اور مشروبات! اس شہر سے ہر سال لاکھوں افراد حج، عمرے اور زیارات کے لیے جاتے ہیں۔ کروڑوں کی خیرات دیتے ہیں!
فیصل آباد کے کتنے ہی کنبے موسم گرما میں مری اور ایبٹ آباد کے گراں ترین ہوٹلوں میں ہفتوں ٹھہرتے ہیں۔ اولادیں ان کی کچھ مغربی ملکوں میں پڑھ رہی ہیں اور کچھ بزنس کر رہی ہیں۔ مگر یہ سب امرا، اور بہترین کھانے تناول کرنے والے آسودہ حال حضرات، اپنے ہی شہر کے لیے چھ ارب روپے صاف پانی پر نہیں لگا سکتے۔ آج کل ڈالر تقریباً ایک سو ستر روپے کا ہے۔ چھ ارب روپے جو جاپان خیرات میں دے رہا ہے، ڈالروں میں ساڑھے تین کروڑ ڈالر بنتے ہیں۔ 2013ء کے اعداد و شمار پر بھی جائیے تو شہر کی آمدنی تینتالیس ارب ڈالر ہے۔ کیا تین ساڑھے کروڑ ڈالر، اُس میں سے، یہ شہر اپنے پانی پر نہیں خرچ کر سکتا؟؟؟ مگر صاحب! جو مزا مانگ کر کھانے میں ہے وہ کما کر کھانے میں کہاں!
اب واپس چلتے ہیں ناظم جوکھیو کے قتل کی درد ناک کہانی کی طرف! اس کا اصل سبب وہ غیر ملکی شہزادے ہیں جو ناظم جوکھیو کے گاؤں کے نواح میں تلور کا شکار کھیل رہے تھے۔ ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں تھیں، ان گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں مبینہ طور پر غیر ملکی تھیں۔ راستے انہوں نے روکے ہوئے تھے۔ ناظم نے انہیں اپنے علاقے میں دندنانے سے منع کیا۔ منع انہوں نے کیا ہونا تھا۔ ناظم نے وڈیو بنائی جو وائرل ہوئی۔ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ تلور کا شکار منع ہے‘ مگر جب صدقہ خیرات اور قرضے دینے والے ملکوں کے حکمران یہ ممنوعہ شکار آپ کے ملک میں، آپ کی زمینوں پر کھیلیں تو آپ سوائے انہیں جُھک کر سلام کرنے کے اور کیا کر سکتے ہیں؟ شکار تو شکار ہے، ہمارے ایک سابق حکمران نے تو ایک غیر ملکی سفیر کو وفاقی دارالحکومت میں پلاٹ بھی الاٹ کر دیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اُس دانا شخص نے قبول نہ کیا۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ احتیاج شیر کو بھی لومڑی بنا دیتی ہے۔ ہم بھی شیر ہیں۔ اپنے مجبوروں اور بے کسوں پر شیر کی طرح حملہ کرتے ہیں خواہ وہ ملیر کا ناظم جوکھیو ہو یا اسلام آباد کا اسامہ ستی یا کوئٹہ کا ٹریفک سارجنٹ حاجی عطااللہ ہو! مگر جب ہمارے کشکول میں سکے پھینکنے والے غیر ملکی آئیں تو ہم لومڑی بن جاتے ہیں! مشرق وسطیٰ کا ایک طاقت ور بادشاہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ سیر کے لیے پہنچا۔ جگہ جگہ مجسمے نصب تھے۔ بادشاہ کے عقیدے پر ضرب پڑی۔ اس نے انہیں ڈھانپنے کے لیے کہا۔ بالی کے میئر نے انکار کر دیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ کشکول بدست نہ تھا!!!