سفید ہاتھیوں کی تعداد دنیا میں کم ہے! بہت ہی کم۔ یہ جو جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ہیں، تھائی لینڈ، لاؤس‘ برما، کمبوڈیا، ان ملکوں میں اگر حکمران کے فیل خانے میں سفید ہاتھی ہوں تو انہیں انصاف، خوش بختی اور طویل المیعاد اقتدار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مغل بادشاہ بھی سفید ہاتھی کی بہت قدر کرتے تھے۔
2016ء میں تھائی لینڈ کے بادشاہ کے پاس دس سفید ہاتھی تھے۔ سفید سے مراد یہ نہیں کہ سارا ہاتھی سفید رنگ کا ہو۔ اگر اس پر کہیں کہیں سفید نشانات ہوں تب بھی اسے سفید ہی کہا جاتا ہے۔ سفید ہاتھی سے مشقت کا کام لینا اس کی توہین سمجھی جاتی ہے۔ اگر بادشاہ کسی کو سفید ہاتھی تحفے میں دے دے تو اس کو مصیبت پڑ جاتی ہے۔ ایک تو اس سے کام نہیں لیا جاتا، دوسرے اس کی خوراک کا انتظام دیوالیہ کر کے رکھ دیتا ہے۔
تھائی لینڈ کے بادشاہ کے پاس صرف دس سفید ہاتھی تھے جن کی بدولت وہ خوش بخت تھا۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس تو سفید ہاتھی ان گنت تعداد میں ہیں۔ قومی ایئر لائن، سٹیل ملز، ریلوے، یہ سب سفید ہاتھی ہی تو ہیں۔ انہی کے وجود سے پاکستان میں برکتوں کا نزول رہتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ، منتخب قومی اور صوبائی مقدس ادارے، گورنرز، وزرائے اعلیٰ، سب برکت، اور اچھے شگون کا مظہر ہیں۔ وعدہ یہ کیا گیا تھا کہ کابینہ سولہ سترہ افراد پر مشتمل ہو گی۔ ایسی کابینہ عام ہاتھی کی طرح ہوتی۔ جیسے جیسے کابینہ کا حجم بڑھتا گیا ہاتھی کا رنگ سفید ہوتا گیا! یہاں تک کہ یہ سفید ہاتھی مکمل خوش بختی اور طوالتِ اقتدار کا نشان بن کر رہ گیا۔
سفید ہاتھیوں کی ایک اور قبیل نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ قومی خزانے پر چھا گئے۔ انہیں عرف عام میں اتھارٹی کہتے ہیں۔ جیسے ٹیلی کمیونی کیشن، بجلی اور آئل و گیس اور میڈیا کی اتھارٹیز وغیرہ وغیرہ۔
اول تو یہی بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ جب متعلقہ وزارتیں کروڑوں روپے کے اخراجات سے چل رہی ہیں جن میں وزیروں، سیکرٹریوں، جوائنٹ سیکرٹریوں، ڈپٹی سیکرٹریوں، سیکشن افسروں اور دیگر قسم قسم کے اہلکاروں کی بھرمار ہے تو ان اتھارٹیوں کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ میرے خیال میں ان اتھارٹیوں کے قیام کا سب سے بڑا مقصد اپنے اپنے پیاروں کو نوازنا تھااور یہ مقصد پورا کیا جاتا رہا۔ ان اتھارٹیوں کی ثقاہت اور اعتبار کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے۔ اکتوبر 2007ء میں کابینہ ڈویژن نے میڈیا میں اشتہار دیا کہ نیپرا (بجلی اتھارٹی) کا چیئرمین درکار ہے‘ اس لیے مناسب امیدوار درخواستیں دیں۔
72 درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے سترہ امیدوار شارٹ لسٹ ہوئے۔ کمیٹی نے ان کے تفصیلی انٹرویو کیے۔ کمیٹی کی سربراہی اُس وقت کے سیکرٹری کابینہ مسعود عالم رضوی کر رہے تھے۔ ایک جانکاہ محنت کے بعد پانچ امیدوار چنے گئے: حسین اختر بابر‘ میاں شاہد احمد‘ منیر اے شیخ‘ ظفر علی خان اور جاوید نظام! یہ سب اس کام کے ماہر تھے۔ ان پانچ کامیاب امیدواروں کے نام اٹھارہ جنوری 2007 کو وزیر اعظم کو حتمی چناؤ کے لیے بھیج دیے گیے۔
چودہ فروری کو یہ سمری جوں کی توں بغیر کسی فیصلے کے واپس کر دی گئی۔ اگلے دن یعنی پندرہ فروری کو وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری خالد سعید کو نیپرا کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ذرائع نے بتایا کہ چال بازی اس وقت شروع ہوئی جب وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے سمری کئی ہفتے رکھے رکھی اور مرکزی کمپیوٹر سیکشن میں درج ہی نہ کی۔ خالد سعید کی ریٹائرمنٹ اکتیس دسمبر 2008 کو تھی۔ عبوری وزیر اعظم اس وقت محمد میاں سومرو تھے۔ نیپرا میں اس غیر قانونی تقرری کے خلاف سینیٹ نے متفقہ ریزولیوشن پاس کی۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ جان محمد جمالی نے عبوری وزیر اعظم کو باقاعدہ خط لکھا کہ سینیٹ کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے خالد سعید کو چیئرمین نیپرا کی پوسٹ سے ہٹایا جائے‘ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔ جن امیدواروں کے انٹرویو کیے گئے، انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح روند کر ایک ایسے شخص کو چیئرمین لگا دیا گیا جس نے درخواست دی تھی نہ انٹرویو۔ دھاندلی کی یہ ساری روداد معروف بزنس اخبار بزنس ریکارڈر اپنی سات جنوری 2009 کی اشاعت میں ریکارڈ پر لے آیا۔ خالد سعید نے چار سال اس سبز چراگاہ میں گزارے ۔ یہ صرف ایک مثال ہے کہ یہ اتھارٹیاں کیوں بنائی گئیں اور کس طرح غیر مستحق افراد کو نوازا گیا۔
اب سنیے کہ آج سے بارہ دن پہلے کیا ہوا۔ ایف آئی اے نے آئل اور گیس اتھارٹی کے اور متعلقہ وزارت کے پانچ بڑے مگر مچھوں کو گرفتار کر لیا۔ اتھارٹی کے ملزموں نے غلط پٹرولیم لائسنس جاری کیے تھے‘ اور وزارت کے افسروں نے غیر قانونی پٹرولیم درآمدی کوٹہ کی اجازت دی تھی۔ ابتدائی اندازے کے مطابق نجی کمپنیوں کو ستر کروڑ روپے سے زیادہ کا فائدہ پہنچایا گیا۔
یہ غیر قانونیت، دھاندلی اور ظلم کی ایک مکمل تصویر ہے‘ مگر ان اتھارٹیوں کی دیدہ دلیری دیکھیے کہ یہ آڈیٹر جنرل کو اپنے کام کا، اپنے جاری کردہ لائسنسوں کا اور اپنے فیصلوں کا آڈٹ نہیں کرنے دے رہے۔ یہ کہتے ہیں کہ آڈیٹر جنرل ہمارے بجٹ کا آڈٹ کرے مگر ہم کس کو لائسنس جاری کرتے ہیں، ہمارے بورڈ کیا نادر شاہی فیصلے صادر کرتے ہیں، ملکی خزانے کو ہم کتنا چونا لگاتے ہیں، اس پر کوئی سوال جواب نہ ہو۔ یعنی گلیاں ہو جان سُنجیاں، وچ مرزا یار پھرے! سوال یہ ہے کہ پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟ آئین کی شق 170 (2) میں لکھا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حسابات کا آڈٹ، اور کسی ایسی اتھارٹی یا باڈی کے حسابات کا آڈٹ، جو وفاقی یا کسی بھی صوبائی حکومت نے قائم کی ہو یا ان کے کنٹرول میں ہو، آڈیٹر جنرل کرے گا‘ اور اس آڈٹ کی حدود اور نوعیت کا تعین خود آڈیٹر جنرل کرے گا‘ یعنی یہ فیصلہ کہ آڈٹ کی حدود کیا ہیں، کس حد تک، کس قسم کا آڈٹ کرنا ہے، یہ فیصلہ آڈیٹر جنرل کرے گا۔ اتھارٹی کیسے کہہ سکتی ہے کہ جناب آپ میرے اُن لائسنسوں کا اور میرے بورڈ کے ان تباہ کُن فیصلوں کا آڈٹ نہ کیجیے جن کے نتیجے میں نجی کمپنیوں کو کروڑوں کا فائدہ اور قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان پہنچ رہا ہے! واہ! کیا کہنے آپ کی فرمائش کے!
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بائیس دسمبر 2011ء کی ریزولیوشن میں اسی پہلو پر زور دیا ہے کہ سپریم آڈٹ کے ادارے کو بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرنے دیا جائے۔ شفافیت کو اہمیت دی جائے۔ جنرل اسمبلی کے اس ریزولیوشن نے بطور خاص کہا ہے کہ آڈٹ کا نتیجہ صرف اسی صورت میں مؤثر ہو گا جب آڈٹ اُس اتھارٹی یا محکمے سے مکمل طور پر آزاد ہو جس کا آڈٹ کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی قسم کے دباؤ سے آڈٹ کو بچانا ہو گا!
جو، حال ملک میں اداروں کا ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ لے دے کے ایک ادارہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا بچا ہے، خدا کے لیے اس کی حرمت کو برقرار رہنے دیجیے۔ اگر ہم اپنی جڑوں کو اسی طرح کھودتے رہے تو ہماری ابتری اور پراگندگی بڑھتی رہے گی۔ اداروں کی آزادی پر ہاتھ نہ ڈالیے۔ اُس شاخ کو نہ کاٹیے جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ سات گھر تو وہ بھی چھوڑ دیتی ہے جس کا نام ڈال سے شروع ہوتا ہے۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں