آپ کے گھر میں دو بھائی دست و گریباں ہو جائیں، محلے والے سب کچھ سنیں اور دیکھیں تو آپ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ لڑنے والے میرے بھائی یا میرے بچے تھے۔ میرا اُس لڑائی سے کوئی تعلق نہیں! لڑائی آپ کے گھر میں ہوئی۔ انگلیاں آپ کی طرف اٹھیں گی۔
بھول جائیے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ بھی بھول جائیے کہ اس سے پہلے نون کی حکومت تھی یا پی پی پی کی یا قاف کی یا کسی آمر کی!
بس یہ ذہن میں رکھیے کہ جس کی بھی حکومت تھی، جب بھی تھی، پاکستانیوں ہی کی تھی! دھرنے دینے والے بھی پاکستانی تھے۔ خون میں نہائے ہوئے پولیس مین بھی پاکستانی تھے۔ ماڈل ٹاؤن کے چودہ مقتولوں پر گولیاں بھی پاکستانیوں نے چلائی تھیں۔ دنیا میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ عمران خان کی حکومت میں ایسا ہوا یا نواز شریف کے زمانے میں یہ حال تھا۔ دنیا والے اچھا ہو یا برا، پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے ہیں! ہمارے پاسپورٹ پر کسی حکمران کا کسی حزب اختلاف کا، کسی فوجی آمر کا نام نہیں لکھا ہوا۔ صرف اور صرف پاکستان کا نام ہے۔ ہماری کرنسی پاکستان کی کرنسی ہے‘ کسی حکومت کی نہیں۔ عالمی منڈی میں جب اس کی بے قدری ہوتی ہے تو کوئی نہیں کہتا کہ زرداری یا نواز شریف یا عمران خان کی کرنسی تحت الثریٰ کو چھو رہی ہے۔ یہی کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی کرنسی خاک میں مل رہی ہے!
پرسوں سے ایک دن پہلے سیالکوٹ میں کیا ہوا؟ اسّی کے قریب قانون دانوں نے خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کا گھیراؤ کیا۔ اس کے بعد حملہ کیا۔ دفتر کے سامان کی توڑ پھوڑ کی۔ سامان اور نیم پلیٹیں اکھاڑ کر باہر پھینک دیں۔ خاتون اے سی کے خلاف نعرے لگائے۔ اس دوران احاطے میں قائم دوسرے دفاتر، رجسٹرار آفس، محکمہ مال کے دفاتر، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، نقول برانچ اور ڈپٹی کمشنر کے ماتحت عملے نے، خوف زدہ ہو کر دفتروں کو تالے لگائے اور چلے گئے۔ یہ ہے ہمارا رویہ، ہماری سائیکی، ہمارا مائنڈ سیٹ! اور یاد رہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو قانون کا محافظ ہے! اور صرف وکیل برادری کیوں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ سارا ملک فرشتوں سے چھلک رہا ہو اور صرف ایک طبقہ مار دھاڑ کرے؟ عام راہ گیر سے لے کر وزیروں اور منتخب نمائندوں تک سب اسی دودھ سے دھلے ہوئے ہیں۔ وزیر کا بس چلے تو صحافی کو چانٹا رسید کر دیتا ہے۔ صحافی کا بس چلے تو وہ وی لاگر کو فرش پر لٹا کر دھنائی کرتا اور کرواتا ہے۔ مریض ڈاکٹروں پر حملے کرتے ہیں۔ پولیس نے تھانوں کو عقوبت خانوں میں تبدیل کر رکھا ہے۔ ہجوم پولیس کو کچل دیتا ہے۔ ٹاک شوز میں سیاست دان ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ وزیر شو میں بوٹ لے آئے تو اینکر مسلسل مسکراتا ہے مگر یہ کبھی نہیں کہتا کہ بوٹ کے ساتھ شو نہیں ہو گا۔ ایک دکاندار، ایک ڈاکٹر، ایک دفتری بابو، پولیس کو مطلوب ہو تو سارے دکاندار، سارے ڈاکٹر، سارے دفتری بابو، مجرم کو بچانے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ وزیر کہتا ہے: حزب اختلاف آئی تو کُٹ لگائیں گے۔ وزیر اعظم وزرا کو ہدایت دیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن میں دو وزیروں کی پیشی ہے تو تمام وزرا ساتھ جائیں! ہاری زبان کھولتا ہے تو وڈیرا اسے قتل کرا دیتا ہے۔ نچلی سطح پر دیکھیے تو ہر گلی، ہر سڑک، ہر چوک پر لوگ آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ گالیاں دے رہے ہیں۔ لوگ اسے انٹرٹینمنٹ سمجھتے ہیں اور اکٹھے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے افراد ایک دوسرے کے خلاف تھانے جا کر رپٹ درج کراتے ہیں۔ بہنوئی برادر نسبتی کو دیکھنا گوارا نہیں کرتا اور برادر نسبتی بہنوئی کی جان کا دشمن ہے۔ سرکاری دفاتر پر حملے عام ہیں۔ پوسٹ آفس کی خاتون افسر کو تھپڑ مارا گیا۔ گارڈ نے بینک منیجر ہی کو گولی مار دی۔ اس پس منظر میں وکیلوں نے خاتون اے سی کے دفتر پر چڑھائی کر دی تو کون سی اچنبھے کی بات ہے؟ یہ حملہ ہمارے مزاج کے عین مطابق ہے۔ یہی ہیں ہم! یہی ہماری اصل ہے اور یہی ہماری شناخت ہے ! ہم نے اسی طرح رہنا ہے۔ آپ کالموں کے نیچے پڑھنے والوں کے کمنٹ دیکھیے۔ گالیاں! ذاتی حملے! کمنٹ کرنے والوں کے ایک دوسرے پر حملے۔ کالم کے مندرجات پر کوئی بات نہیں کرنی! جو ذہن میں پہلے سے موجود ہے اسی میں مدھانی ڈالنی ہے اور اسے ہی بلونا ہے! ایاز امیر ہمارے سینئر صحافی اور دانش ور ہیں۔ بہت قابل احترام! ان کا قلم انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں حکومت کرتا ہے۔ ان کے کالم کے نیچے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ آپ یہ بتائیے آپ نے ملک اور قوم کے لیے آج تک کیا کیا؟ اس کالم نگار نے یہ کمنٹ پڑھا اور شرم سے پانی پانی ہو گیا! جو کچھ کالم میں لکھا ہے اس سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ ہر شخص، ہر گروہ، ہر طبقہ، ہر وقت، ہر جگہ شمشیر بدست ہے۔ زبان ہے یا ڈنڈا، ہر وقت ہر کسی کے لیے تیار ہے۔ اس پس منظر میں بھول جائیے کہ ہم مستقبل قریب تو کیا، مستقبل بعید میں بھی قوموں کی برادری میں معزز کہلائیں گے۔ ہمارا اخلاق، ہماری تربیت، ہمارا رویہ، بالکل اتنا ہی قابل عزت ہے جتنا ہمارا پاسپورٹ اور ہماری کرنسی!
دوسری طرف بیرونی محاذ پر ہماری نالائقی ملاحظہ ہو! قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے زرعی مصنوعات کو آگاہ کیا گیا ہے کہ زرعی تجارت میں زمینی راستے سے وسطی ایشیاء کے ممالک کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ ایران کہتا ہے کہ آپ صرف ایرانی ٹرک میں سامان لے جا سکتے ہیں۔ اُن سے کوئی پوچھے کہ آپ یہ سامان افغانستان کے راستے کیوں نہیں بھیجتے؟ آپ تو افغانستان کے نفسِ ناطقہ بنے ہوئے ہیں‘ پوری دنیا کی منتیں کر رہے ہیں کہ افغانستان کو تنہائی سے نکالیں، امداد دیں، تسلیم کریں۔ وزیر اعظم سے لے کر وزیروں، معاونین اور بیوروکریسی تک سب پاکستان کے نہیں افغانستان کے مفادات کے پہریدار بنے ہوئے ہیں۔ امداد دے بھی رہے ہیں۔ دلوا بھی رہے ہیں۔ افغانستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اگر افغان حکومت، ریاست پاکستان اور ایک کالعدم گروہ کو ایک دوسرے کے برابر سمجھتی ہے تو کوئی چوں کرتا ہے نہ چرا! سر جھکا کر آمنا و صدقنا کہا جا رہا ہے۔ تو اس قدر صدقے قربان ہونے کے باوجود اور مکمل طور پر تھلّے لگنے کے باوجود، اگر آپ افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ممالک سے تجارت تک نہیں کر سکتے تو پھر تو آفرین ہے آپ پر اور آپ کی افغان پالیسی پر!!
وزارت تجارت کے حکام نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کو یہ اطلاع بھی دی کہ بہت سے سعودی شہریوں نے بھارت میں ملز خرید لی ہیں! تو سوال یہ ہے کہ سعودیوں نے آپ کے ہاں آ کر کیوں نہیں خریدیں؟ آپ کی مارکیٹنگ کی مہارت کیا گھاس چرنے گئی ہوئی تھی؟ ظاہر ہے ان خریداروں پر بھارت نے کام کیا ہو گا؟ آپ نے کیوں انہیں ٹارگٹ نہیں کیا؟ فارن آفس کیا کر رہا تھا؟ زراعت اور تجارت کے وزیر کیا کر رہے تھے؟ کیا آپ کی اس ضمن میں کوئی پالیسی نہیں؟ کیا آپ کا سارا زور اس بات پر ہے کہ غیر ملکی حکمران آپ کی بستیوں اور زمینوں اور عزتوں کو تاراج کرتے ہوئے اُن از حد قیمتی پرندوں کا کُھلے عام شکار کریں جن کی نسل تیزی سے معدوم ہو رہی ہے؟ ملز بے شک بھارت میں خریدیں!