وقتِ دعا ہے!

پنجابی کا ایک محاورہ ہے‘ جس کا ترجمہ ہے: بھیڑیا چھوڑنا‘ یعنی ایک پُرامن جگہ کو تباہی سے دوچار کر دینا۔ پنجابی ایک پرانی، بڑی اور وسیع زبان ہے۔ عین ممکن ہے کوئی زیادہ پڑھا لکھا پنجابی اس محاورے کا مفہوم بہتر انداز میں سمجھا سکے۔ ہم ضلع اٹک کے لوگ یوں بھی کنارے پر رہتے ہیں۔ لاہور آئیں تو احباب استقبال کرتے ہوئے کہتے ہیں ''اچھا! پنجاب آئے او‘‘۔ جناب نجم حسین سید پنجابی زبان و ادب پر اتھارٹی ہیں۔ ان کی تصانیف بیرون ملک یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ معلوم نہیں اہل لاہور کو علم ہے یا نہیں کہ یہ فقیر منش عالم ان کے شہر میں رہتا ہے‘ اور اگر علم ہے تو ان کی قدر ہے یا نہیں۔ وہ سول سروس کی افسری چھوڑ کر کچھ عرصہ پنجاب یونیورسٹی کے پنجابی ادب کے شعبے میں پڑھاتے بھی رہے۔ نجم صاحب سول سروس میں جب بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے تو بس یا ویگن میں دفتر تشریف لاتے تھے یا پیدل! ایک بار انہیں زچ کرنے کے لیے ان کے حکام بالا نے انہیں اسلام آباد آنے پر مجبور کیا۔ وجہ اس غیر ضروری تبادلے کی یہ بتائی گئی کہ اگلے گریڈ میں ترقی ہو گی حالانکہ ان ظلم رساں (Sadist) حکام کو معلوم تھا کہ نجم صاحب ترقی قبول کریں گے‘ نہ ہی اسلام آباد رہنا۔ یہ لوگ چاہتے بھی یہی تھے کہ نجم صاحب قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لیں۔ یوں ایک اسامی خالی ہو جائے گی اور فلاں کو ترقی دے کر اُس خالی اسامی پر براجمان کر ا دیں گے۔ یہی ہوا۔ نجم صاحب استعفا دے کر لاہور واپس چلے گئے۔ یہ اور بات کہ جن صاحب نے یہ سارا جال بُنا تھا، اللہ ان کی مغفرت کرے کہ اب اس دنیا میں نہیں، کچھ عرصہ بعد ان کے ساتھ بالکل یہی کھیل کسی اور نے کھیلا۔ بیوروکریسی میں اس قسم کی کھینچا تانی چلتی رہتی ہے۔ آج نہیں ہمیشہ سے! آج کل تو ٹرانسفروں اور برطرفیوں پر بات ختم ہو جاتی ہے۔ پہلے زمانوں میں سر قلم کرا دیے جاتے تھے۔ شہنشاہ اکبر کا آڈیٹر جنرل بہت لائق تھا اور حساب کتاب میں تیز۔ مخالفین نے ایسی چال چلی کہ شہنشاہ کے حکم سے تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
ان چند دنوں کے دوران جب جناب نجم حسین سید کو جبراً، یا مجبوراً، اسلام آباد رہنا پڑا‘ ایک شام انہوں نے شفقت فرمائی اور اس طالب علم کے کلبۂ احزاں میں قدم رنجہ فرمایا۔ مجھے جب اپنے بچوں کے ساتھ ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کرتے دیکھا اور سنا تو مسرت کا اظہار کیا اور حوصلہ افزائی فرمائی! میں نے جھٹ طعنہ دیا کہ حضرت! آپ وسطی پنجاب کے لوگ ہماری ''لہندی‘‘ پنجابی کی، جو مغربی پٹی میں بولی جاتی ہے، کہاں توقیر کرتے ہیں! آپ تو پتا نہیں، اسے پنجابی قرار دیتے بھی ہیں یا نہیں! اس پر نجم صاحب نے کہا کہ اصل پنجابی یہی ہے جو تم لوگوں کی ہے۔ اس بات کو عرصہ بیت گیا۔ ایک دن اتفاقاً لاہور ہی کی ایک بُک شاپ میں مجھے امرتا پریتم کا شعری مجموعہ ''کاغذ تے کینوس‘‘ ہاتھ آ گیا جو ہمارے رسم الخط (شاہ مُکھی) میں تھا۔ امرتا پریتم کی نظمیں پڑھ کر معلوم ہوا کہ بے شمار الفاظ جو ہم لہندی پنجابی میں استعمال کرتے ہیں، انڈین پنجاب کی شاعری اور نثر میں کثرت سے برتے جا رہے ہیں۔
بات پنجابی کے اس محاورے سے شروع ہوئی تھی‘ بھیڑیا چھوڑنا۔ لگتا ہے‘ آج کل ہماری حکومت کا یہی شغل ہے۔ بیٹھے بٹھائے کسی پُرامن گوشے میں بھیڑیا چھوڑ دیتی ہے۔ نِت نئے ایشو! ایسے ایسے اقدامات کہ عقل دنگ رہ جائے۔
اسلام آباد کا ایک منتخب شدہ میئر تھا۔ اس کی مدت فروری میں ختم ہوئی۔ ایک سو بیس دنوں کے اندر اندر، یعنی چار ماہ میں، اگلے میئر کا انتخاب ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ چھ ماہ جون میں ختم ہو گئے۔ چار ماہ گزرنے کے بعد پانچ ماہ اور گزر چکے ہیں۔ مستقبل قریب میں لوکل گورنمنٹ یعنی میئر کے انتخابات کے کوئی آثار نہیں‘ مگر فیصلہ بزرجمہروں نے یہ کیا ہے کہ وفاقی ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کو میئر کے نیچے کر دیا جائے۔ یوں چار سو کے لگ بھگ پرائمری سکول بھی میئر کی تحویل میں آجائیں گے۔ میئر کہاں ہے؟ کون ہے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ میئر کا وجود ہی کوئی نہیں۔ حسب معمول یہ فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے نہیں کیا بلکہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہوا ہے‘ جیسے پارلیمنٹ میں وفاقی دارالحکومت کی نمائندگی ہی کوئی نہ ہو۔ ان چار سو کے لگ بھگ سکولوں کے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ منگل سے اس سلسلے میں کلاسوں کا بائیکاٹ شروع کیا جائے گا۔ رہے کالج تو وہ وفاقی وزارت تعلیم کے تحت رہیں گے۔ کچھ کالجوں میں سکول کے سیکشن بھی ہیں۔ یہ کس کے پاس ہوں گے؟ کچھ معلوم نہیں! سوال یہ ہے کہ اگر سکول میئر کی تحویل میں دئیے جا سکتے ہیں تو کالج کیوں نہیں؟ اور اگر کالجوں کو وزارتِ تعلیم سنبھال سکتی ہے تو سکولوں کو کیوں نہیں سنبھال سکتی؟ یہ دو عملی کیوں؟ اس کنفیوژن کا کیا فائدہ ہے؟ اٹھارہویں ترمیم کے ساتھ تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ صرف وفاقی دارالحکومت کا تعلیمی انتظام وفاق کے پاس بچا۔ اسے بھی نِت نئے تجربات کی نذر کیا جا رہا ہے۔ پھر ایک اور سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت کے تین منتخب نمائندے قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا ان کی رائے لی گئی؟ یہ جو بیٹھے بٹھائے بھیڑیا چھوڑا گیا ہے، تو ان نمائندوں کا اس حوالے سے کیا رد عمل ہے؟ مانا کہ کہیں آرڈیننسوں کی فیکٹری لگی ہوئی ہے جو رات دن کام کر رہی ہے مگر کیا وفاق کے تعلیمی بندوبست جیسا ''بے ضرر‘‘، غیر سیاسی کام بھی منتخب اسمبلی سے نہیں کرایا جا سکتا؟ معزز منتخب ایوان پر اتنی بے اعتباری؟ اگر ایک شہر کا تعلیمی در و بست بھی آرڈیننسوں کے بغیر نہیں چل سکتا تو پھر ہمارا مستقبل دیکھنے کے لیے کسی آنکھوں والے کی ضرورت نہیں، اندھا بھی یہ کام آسانی سے کر لے گا!
سٹیل ملز یا قومی ایئر لائن کو تو چھوڑیے۔ ریلوے کو بھی تقدیر کے حوالے کیجیے۔ معیشت کی زمام ہم نے پہلے ہی آئی ایم ایف کو سونپ دی ہے۔ ہم سے وفاقی دارالحکومت کا تعلیمی انتظام تک سنبھالا نہیں جا رہا۔ بائیکاٹ اور احتجاج ہو رہے ہیں۔ وزیر تعلیم کا پس منظر ضلعی انتظامیہ کا ہے! کیا کسی کو پروفیسر اشفاق علی خان یاد ہیں جو گورنمنٹ کالج اٹک، گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی اور گورنمنٹ کالج لاہورکے پرنسپل رہے؟ وہی جو الحمزہ کے قلمی نام سے انگریزی میں کالم لکھتے تھے؟ وہ یہ کہتے کہتے، روتے پیٹتے، دنیا سے گزر گئے کہ لگان جمع کرنے والوں سے لگان جمع کرنے ہی کا کام لو، پالیسیاں نہ بنواؤ! مگر تاریخ ہمارے ساتھ کتنا بے رحم مذاق کر رہی ہے۔ کبھی یہ لگان جمع کرنے والے، ضلعی انتظامیہ کے افسر کہلانے والے اہلکار، ہماری سروسز ریفارمز کے سربراہ بن جاتے ہیں اور کبھی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ہماری تعلیم کے مالک و مختار بن جاتے ہیں۔ تو پھر کسی پٹواری یا نائب تحصیل دار کو کیوں نہ یہ کام سونپ دیا جائے؟ یونی ورسٹیاں ہم نے پہلے ہی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو سونپ رکھی ہیں! یہ جماعتیں اپنی شاخوں کے ذریعے ان یونیورسٹیوں کو کنٹرول کر رہی ہیں! شاہراہیں دھرنوں کے لیے وقف ہو چکی ہیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے کسی کو یقین نہیں کہ وہ منزل تک پہنچ پائے گا! اے خاصۂ خاصانِ رسل! وقت دعا ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں