خارجہ محاذ پر کامیابیاں جاری ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع نے سانحۂ سیالکوٹ پر جو پُر مغز اور حکمت بھرا بیان دیا ہے، سری لنکا کے وزیر برائے پبلک سکیورٹی، جناب سارتھ ویرا سیکارا، نے اس پر ہمارے وزیر صاحب سے معذرت کا مطالبہ کیا ہے!
داخلی محاذ پر کامیابیاں اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کس کی تعریف کی جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔ سرکار کے تحت جو پرائمری اور ہائی سکول چل رہے ہیں، ان کا ذکر تو رہنے ہی دیجیے کہ دیواریں ہیں تو چھتیں نہیں اور چھتیں ہیں تو پڑھانے والے نہیں! اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں واقع بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے امور پر ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ رپورٹ کسی فرد یا کسی نجی ادارے یا کسی نیم سرکاری تنظیم کی طرف سے ہوتی تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا مگر یہ رپورٹ پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے (1) اس بات کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ ڈین اور صدر شعبہ کی کئی اسامیوں پر تعیناتیاں متعلقہ قوانین کو پامال کر کے کی گئی ہیں۔ (2) کئی تعیناتیاں تا حکم ثانی کی گئی ہیں حالانکہ مدت کا تعین لازمی ہوتا ہے۔ تا حکم ثانی کا مطلب ہے کہ جس کی تقرری کی جا رہی ہے اسے تقرری کرنے والے کا باجگزار ہو کر رہنا ہو گا ورنہ حکم ثانی کسی وقت بھی جاری کر کے تقرری ختم کی جا سکتی ہے۔ ایسے زنجیر نما احکامات سے جو تعلیمی اور علمی آزادی حاصل ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ (3) یونیورسٹی کے نائب صدور کی تعیناتیاں مکمل غیر شفاف انداز میں، من مانے طریقے سے کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکام کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ (4) کثیر تعداد میں ملازمتیں وقتی اور کنٹریکٹ کی بنیاد پر، بغیر کسی مقابلے کے، کی گئی ہیں۔ (5) اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ یونیورسٹی کے ریکٹر کو امام محمد بن سعود یونیورسٹی، ریاض، سے بھاری ادائیگیاں ہوتی رہی ہیں جن کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ادائیگیاں کنسلٹی فیس بھی قرار نہیں دی جا سکتیں کیونکہ موصول ہونے والی رقوم کا تواتر اور مقدار دونوں بتا رہی ہیں کہ یہ تنخواہ ہے۔ ڈبل تنخواہ وصول کرنا مالی بد معاملگی (مِس کنڈکٹ) میں شمار ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ ایف بی آر اور ایف آئی اے دونوں اس معاملے کو دیکھیں تاکہ تفتیش بھی ہو اور سزا بھی دی جائے۔ (6) ریکٹر کی دوسری ٹرم کے لیے جو تنخواہ فکس کی گئی ہے وہ بورڈ آف گورنرز نے مجاز اتھارٹی (چانسلر) کی منظوری کے بغیر کی ہے۔ (7) ریکٹر پر غیر قانونی ہاؤس رینٹ وصول کرنے کا بھی الزام ہے۔ (8) یونیورسٹی کے ایک نائب صدر پر الزام ہے کہ وہ نامناسب وڈیوز بنانے میں ملوث ہے۔ اس الزام کی صحیح انکوائری نہیں کرائی گئی۔ جس طرح تفتیش نچلی سطح پر اسی نائب صدر کے ماتحتوں سے کرائی گئی اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی تفتیش کے لیے اعلیٰ سطح پر کمیٹی بنائی جائے جس میں ایف آئی اے، آئی بی، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت تعلیم کے نمائندے شامل ہوں۔ مزید یہ کہ نائب صدر کو انتظامی عہدے سے ہٹایا جائے۔ (9) کلیدی نکتہ رپورٹ کا یہ ہے کہ یونیورسٹی شدید مالی اور انتظامی بدنظمی کا شکار ہے۔ ریکٹر اور یونیورسٹی کے صدر کے درمیان مسلسل کشمکش ہے۔ یونیورسٹی کے ضابطوں کو دیگر وفاقی یونیورسٹیوں کے برابر لانے کی ضرورت ہے۔
اسی قائمہ کمیٹی کے ایک رکن نے اسی یونیورسٹی کے حوالے سے بتایا کہ طالبات کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ پیش آیا جبکہ یونیورسٹی اس سانحہ کو دبانے کی کو شش کر رہی ہے۔ کمیٹی کے ایک اور رکن نے بہاولپور یونیورسٹی کے بارے میں بتایا کہ سات ارب کی بے ضابطگیوں کا معاملہ ہے۔ دس ہزار طلبہ کی گنجائش تھی مگر ساٹھ ہزار کو داخل کیا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے بارے میں بھی سن لیجیے۔ یہ تین دسمبر کا واقعہ ہے۔ طلبہ نے وائس چانسلر کے دفتر کا گھیراؤ کر لیا۔ پھر دفتر کے اندر گھس گئے۔ دفتر کے دروازے اور شیشے توڑ دیے۔ مختلف گروہوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور پتھراؤ بھی!
اگرچہ یونیورسٹی انتظامیہ اور طلبہ کی جانب سے رد عمل ظاہر کیا گیا ہے ‘ لیکن رپورٹ بہت کچھ بتا رہی ہے۔ یہ دور افتادہ قصبوں کے پرائمری سکولوں کا حال نہیں، یہ لاہور اور اسلام آباد کے شہروں میں واقع ملک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کا حال ہے۔ جب ریکٹر اور اساتذہ کی سطح پر اخلاق اور قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں گی تو طلبہ اور طالبات کیا سیکھیں گے اور مستقبل میں دوسروں کو کیا سکھائیں گے۔ یہ کیسی درس گاہیں ہیں جن میں دفتروں کا گھیراؤ کیا جاتا ہے، شیشے اور دروازے توڑے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر پتھر پھینکے جاتے ہیں۔ ہاتھا پائی ہوتی ہے۔ مگر اس میں تعجب بھی کیسا! یہی ہمارا وتیرہ ہے! یہی ہمارا شعار ہے! اسمبلیوں کے اجلاس ہوں یا ٹاک شو، بازار ہوں یا شاہراہیں، گلی محلے ہوں یا بسوں کے اڈے یا ریلوے سٹیشن، یہی مناظر نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری شناخت بن چکی ہے۔
کسی ملک کا تہذیبی گراف ماپنے کے لیے زیادہ افلاطون بننے کی ضرورت نہیں۔ صرف دو پہلو جانچ لیجیے۔ نمبر ایک ٹریفک۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس ہڑبونگ اور لاقانونیت کا مظاہرہ ہماری ٹریفک کر رہی ہے اس کی مثال کسی مہذب ملک میں شاید ہی ملے تو غلط نہ ہو گا۔ کروڑوں موٹر سائیکل کسی بھی قسم کے ضابطے اور ترتیب سے ماورا ہیں۔ ڈمپر اور ٹریکٹر ٹرالیاں ہزاروں شہریوں کو کچل چکی ہیں۔ پہلے موٹر وے کی ٹریفک کی مثال دی جاتی تھی۔ اب وہاں بھی قانون کی پاسداری پہلے جیسی نہیں رہی۔ ریلوے کا گلا ایک سازش کے تحت اس لیے گھونٹا گیا تھا کہ ٹرکوں کی بادشاہت ہو۔ اس سازش میں ایک حکمران اور اس کے حواری شریک تھے۔ اب پورے ملک کی ٹریفک ان ٹرکوں کے بے مہار لشکروں کو بھگت رہی ہے اور ریلوے کا شعبہ اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ ٹریفک پولیس پر ہر سال اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ بس یوں سمجھیے یہ اربوں روپے سو فیصد ضائع ہو رہے ہیں۔ نمبر دو‘ باتھ روم یعنی بیت الخلا۔ ہمارے گھر ہیں یا مسجدیں یا ریستوران، بیت الخلا اور واش روم چیخ چیخ کر ہمارے جنگلی پن کی گواہی دے رہے ہیں۔ کئی مسجدوں کے وضو خانوں میں مسواک رکھے ہیں جنہیں کوئی بھی استعمال کر کے واپس اسی جگہ رکھ دیتا ہے۔ سوائے فائیو سٹار ہوٹلوں اور غیر ملکی فاسٹ فوڈ کے ریستورانوں کے، کہیں بھی صاف بیت الخلا دیکھنے میں نہیں آتے۔ موٹر وے پر کچھ عرصہ سے الگ انتظام کیا گیا ہے۔ پچاس روپے دیجیے اور صفائی سے لطف اندوز ہوں۔ سب سے زیادہ اذیت جی ٹی روڈ پر سفر کے دوران پیش آتی ہے۔ تقریباً ہر پٹرول پمپ پر بیت الخلا موجود ہے مگر وہ گندگی کا بد ترین نمونہ ہوتا ہے۔ فلش کرنے والی ٹنکی کام نہیں کر رہی ہوتی۔ فرش، سیمنٹ کا ہونے کے باوجود کیچڑ سے لتھڑا ہوتا ہے۔ دروازے کی کنڈی کبھی لگتی ہے کبھی نہیں! یہ بیت الخلا ہمارے تہذیبی گراف کی ٹھیک ٹھیک نمائندگی کرتے ہیں۔
انفرادی اور اجتماعی، خاندانی اور قومی، ہر سطح پر ہم زبوں حالی کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ رہے ہمارے عزائم تو وہ خاصے بلند ہیں۔ وائٹ ہاؤس پر سبز پرچم لہرانا ہے۔ دنیا کی امامت کرنی ہے! ہماری کیا بات ہے!