ہم پانی بلو رہے ہیں!
جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے ہم پانی میں مدھانی ڈالتے ہیں اور بلونا شروع کر دیتے ہیں۔ مکھن تو خیر کیا نکلنا ہے‘ کثافت کا ایک گولہ پانی کے اوپر تیرنے لگتا ہے۔کس کا قصور تھا؟ ہمارا نہیں تھا‘ اُن کا تھا۔ اُن کا نہیں‘ ہمارا تھا۔ نہیں‘ دونوں کا تھا۔ آدھا اُن کا‘ آدھاہمارا! ہم نے سبق کچھ نہیں سیکھا! ہم نے سبق سیکھا ہے! ہم نے سبق سیکھا ہے مگر پورا نہیں سیکھا۔ ایک گروہ کہتا ہے: ہم نے سبق سیکھا اور ایٹمی طاقت بن گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے: اگراُس وقت آپ ایٹمی طاقت ہوتے بھی تو کیا کر لیتے؟ مقامی آبادی مخالف ہو تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک گروہ کہتا ہے :ہم نے سبق سیکھا اور اس کے بعد آئین کی حفاظت کی! دوسرا گروہ کہتا ہے: اگر ہم سبق سیکھتے تو مشرقی پاکستان کھونے کے بعد مارشل لا نہ لگنے دیتے! یہ کیسا سبق ہے کہ جس مارشل لا کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا‘ وہی مارشل لا بعد میں بھی لگتا رہا۔ اگر پہلے تئیس سالوں میں تیرہ سال مارشل لا رہا تو بعد کے پچاس برسوں کے دوران بھی بیس بائیس سال آمریت میں گزار دیے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اردو پورے بر صغیر میں سمجھی جاتی تھی اور بنگالی علاقائی زبان تھی۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ باریسال‘ راجشاہی‘ نواکھلی‘ کھُلنا‘ بوگرہ‘ سلہٹ‘ کمیلا اور میمن سنگھ جا کر دیکھ لیجیے کہ اردو کہاں سمجھی جاتی ہے ؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ فلاں ڈاکٹر صاحب کی کتاب لاکھوں میں چھپی ہے اور انہوں نے بڑے بڑے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لیکچر دیے ہیں۔ دوسرا گروہ پوچھتا ہے کہ اگر یہ کتاب غیر جانبدار ہے تو بنگلہ دیش میں بھی بکی ہے یا نہیں اور کیا لیکچر ڈھاکہ اور چٹا گانگ کی یونیورسٹیوں میں بھی دیے جائیں گے یا نہیں ؟
یہ سب پانی بلونے والی بحث ہے۔ حاصل صرف یہ ہے کہ منہ کا ذائقہ خراب ہوتا ہے۔ یہ ویسی ہی بحث ہے جس کے بارے میں اکبر الہ آبادی نے کہا تھا ؎
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
پچاس سال سے یہ بحث ہو رہی ہے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ لاہور کی ایک کمیونٹی کی خواتین سارا دن جھگڑتی ہیں۔ رات کو سیز فائر ہو جاتا ہے۔ صبح ناشتے کے بعد ایک دوسرے کو بلاتی ہیں کہ آ ؤ بہنو! جھگڑا کریں! ہمارا بھی یہی حال ہے۔
اصل مسئلے کی طرف ہم آتے نہیں! جو ہوا سو ہوا! اب حال اور مستقبل کو دیکھنا چاہیے! کاش ہمارا حال ایسا ہو تا کہ بنگلہ دیش ہماری ترقی دیکھ کر ہاتھ مل رہا ہوتا کہ کیوں الگ ہوا؟ آج بنگلہ دیش کے معاشی اشاریے ہمارے اشاریوں کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ علیحدگی کے وقت ان کی آبادی زیادہ تھی‘ ہماری کم۔ آج صورت حال اُلٹ ہے۔ کپاس ہم پیدا کرتے ہیں‘ ملبوسات ان کے بنے ہوئے دنیا بھر میں فروخت ہو رہے ہیں۔سوچنے کی بات ہے کہ آخر اس طرح کیوں ہوا؟ بنگلہ دیش‘ بچے کھچے پاکستان سے کیوں آگے نکل گیا ؟ تجزیہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل اسباب دکھائی دیتے ہیں :
اوّل: بنگلہ دیش لسانی اور نسلی اعتبار سے ایک وحدت ہے۔ بہت سے مسائل‘ اس حوالے سے‘ جو ہمیں درپیش رہے ہیں اور آج بھی درپیش ہیں‘ بنگلہ دیش ان سے بچا ہوا ہے۔ معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے یہ ایک بہت بڑا عامل ہے۔ دوم:ہم نے دو طویل مارشل لا بھگتے۔ مارشل لا کے اصل نقصانات‘ مارشل لا کے دوران نہیں‘ مارشل لا کے بعد نظر آتے ہیں۔ دس گیارہ سال جنرل ضیا الحق اور دس گیارہ سال جنرل پرویز مشرف کا اقتدار رہا۔ پاکستانی طویل عرصے کے لیے جمہویت سے محروم رہے۔ مائنڈ سیٹ متاثر ہوئے۔ جمہوری پراسیس جاری رہے تو عوام اپنے مسائل اور ضروریات کے بارے میں حساس رہتے ہیں۔ مگر مارشل لا انہیں تھپکی دے کر سلا دیتا ہے یا دھونس سے چُپ کرا دیتا ہے۔ سیاست دانوں کوساتھ ملا لیا جاتا ہے یا رسوا کیا جاتا ہے۔ اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا۔ آمر کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک بار تخت سے اترا تو تختہ تو مل سکتا ہے‘ دوبارہ تخت پر بیٹھنا نصیب نہیں ہو گا‘ اس لیے وہ ہر قیمت پر اپنے اقتدار کو طول دیتا ہے۔ اقتصادی ترقی اس کے نزدیک ضروری نہیں ہوتی! یوں ملک کئی اعتبار سے رجعت ِقہقہری کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی کچھ‘ دونوں دفعہ‘ ہمارے ساتھ ہوا۔ سوم: بنگلہ دیش کی قسمت اچھی ہے کہ اس کا بارڈر کسی افغانستان کے ساتھ نہیں ملتا۔ پاکستان چار دہائیوں سے اس دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور تاحدِ نظر اس دلدل کے خاتمے کے آثار نہیں دکھائی دے رہے۔ پاکستان کی یہ بد قسمتی 1979ء میں شروع ہوئی۔ اُس وقت ملک میں آمریت تھی۔ فردِ واحد نے اپنی مرضی سے فیصلے کیے۔افغانوں کی مدد کرنا ایک اور بات تھی مگر آمرِ وقت نے پاکستانی سرحدوں کو عملاً کالعدم قرار دے دیا۔ لاکھوں مہاجرین آموجود ہوئے۔ ان پر کسی قانون یا کسی پابندی کا اطلاق نہ ہوا۔ انہوں نے معیشت پر ایک لحاظ سے دھاوا بول دیا۔پھر دنیا بھر کے جنگجوؤں کو پاکستان میں لا بسایا گیا‘ دہشت گردی نے ہماری معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسی صورتحال بنگلہ دیش کے ساتھ پیش آتی تو اس کا حال شاید پاکستان سے زیادہ بُراہوتا! ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بڑوں کو پاکستان سے زیادہ افغانستان کی فکر ہے۔ چہارم: بھارت کے ساتھ جس قسم کا معاندانہ سلسلہ چل رہا ہے اور کشمیر کا ایشو جس طرح ہمارے لیے اہم ہے اس کے پیش نظر دفاعی ضروریات‘ اقتصادی تقاضوں پر فوقیت رکھتی ہیں۔یہ ایک بہت بڑا عامل ہے جس سے بنگلہ دیش کو پالا نہیں پڑا۔پنجم: ایک طویل عرصہ سے ہم نے دو بیانیوں پر زور رکھا ہوا ہے۔ ایک یہ کہ اسلام خطرے میں ہے۔دوسرا یہ کہ پاکستان خطرے میں ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کچھ ہو جائے تو ہم ایک عجیب‘ خود اذیتی سے بھر پور‘ رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی املاک تباہ کرتے ہیں۔ اپنے راستے بند کرتے ہیں۔ ایسے ایسے مطالبات کر تے ہیں جو باقی چوّن مسلمان ملکوں میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ ہم اپنی معیشت کو خود نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہم یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ دوسروں سے بہتر مسلمان ہیں۔ کسی بھی ملک کے مسلمان ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یہ مائنڈ سیٹ ہماری معاشی ترقی کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ششم:تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اقتصادی احتیاج کا ایک بڑا سبب ہے۔ بنگلہ دیش نے آبادی میں اضافے کی شرح کو کامیابی سے کنٹرول کیا ہے۔ ہماری آبادی سرکاری اعداد و شمار کے حساب سے بائیس کروڑ ہے مگر اصل میں اس سے زیادہ ہے۔ ایسے علاقے بہت سے ہیں جن کا مخصوص سماجی ماحول درست مردم شماری کے راستے میں حائل ہے۔ ہفتم: بنگلہ دیش جاگیرداری اور سرداری نظام سے پاک ہے۔ یہ ایک بڑا سبب تھا دونوں ملکوں کی عدم موافقت کا! جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے لاکھوں کروڑوں ہاری غربت کے شکنجے میں کسے ہوئے ہیں۔ کوئی گرامین بینک ان کا سیاہ بخت روشن نہیں کر سکتا۔ حالت یہ ہے کہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ افراد سرداری نظام کو روایت اور کلچر کہہ کر اس کا دفاع کرتے دیکھے گئے ہیں۔ مائکرو فنانس سسٹم اور گارمنٹ انڈسٹری نے بنگلہ دیش کے عام شہری کے وارے نیارے کر دیے جبکہ ہمارا عام آدمی ابھی تک کوئلوں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کر رہا ہے۔
کچھ اسباب نا گفتنی بھی ہیں۔ ان کا اندازہ آپ خود لگا ئیے۔