ممتا بینر جی بنگالی برہمن ہیں۔ کلکتہ یونیورسٹی سے تاریخِ اسلام میں ایم اے کیا۔ پھر ایجوکیشن میں ڈگری لی۔ وکالت کا امتحان پاس کیا۔ مرکز میں وزیر رہیں۔ دس سال سے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ جب سے وزیر اعلیٰ بنی ہیں، تنخواہ نہیں لی۔ اپنی پینٹنگز بیچ کر اور اپنی تصانیف اور میوزک کی رائلٹی پر گزارہ کر رہی ہیں۔ سرکاری گاڑی نہیں استعمال کرتیں۔ آبائی گھر میں رہتی ہیں جو چھوٹا ہے، پرانا ہے اور گنجان آبادی میں واقع ہے۔ مرمت کے دوران بھی اسی گھر میں رہتی ہیں۔ بارش کے دوران اینٹوں پر پاؤں رکھ کر گھر میں داخل ہوتی ہیں۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ میں ممتا بینر جی ریلوے کی وزیر تھیں۔ واجپائی ان کے گھر گئے تو گھر کی حالت دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئے۔ سلیپر پہنتی ہیں۔گاؤں گاؤں پیدل دورہ کرتی ہیں۔ مگر مجھے ممتا بینرجی بالکل پسند نہیں۔
مشرقی جرمنی میں پیدا ہونے والی اینجلا مرکل سولہ سال جرمنی کی حکمران رہیں۔ ان کی نجی زندگی ان کی سرکاری زندگی سے بالکل الگ رہی۔ کبھی کوئی خبر ان کی نجی یا ازدواجی زندگی کے بارے میں باہر نہ آئی۔ ایک ہی رنگ اور ایک ہی سٹائل کا سادہ لباس پہنتی رہیں۔ کسی نے ان کے لباس کی سادگی پر کمنٹ کیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ لیڈر ہیں، ماڈل نہیں! ان کا میاں ان کے ساتھ سرکاری جہاز میں نہیں، الگ، اپنے بجٹ کے مطابق سفر کرتا تھا۔ مگر مجھے اینجلا مرکل بالکل پسند نہیں۔
مسلم لیگ نون کی نائب صدر ایک معروف سیاسی خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ مستقبل میں ان کے حکمران بننے کے امکانات ہیں۔ حال ہی میں ان کے صاحبزادے کی شادی خانہ آبادی ہوئی ہے۔ کئی دنوں اور کئی راتوں پر مشتمل اس شادی کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خوب تشہیر ہوئی۔ بیٹے کی مہندی پر میڈم نے بھارتی ڈیزائنر ابھی نائو مشرا کے بنے ہوئے شیشے کے کام والے نیلے رنگ کا لہنگا چولی زیب تن کیا۔ مشہور ڈیزائنر بنتو کاظمی کے تیار کردہ ملبوسات نے مہندی کو چار چاند لگائے۔ دلہن نے آٹھ کلیوں والی قمیص اور کمخواب کا غرارہ پہنا اور ساتھ ٹشو کا دوپٹہ اوڑھا۔ قوالی والی رات دلہن نے لمبی پشواز اور لہنگا پہنا۔ ایچ ایس وائی بھی ٹاپ کلاس ڈیزائنروں میں شمار ہوتا ہے۔ دلہا نے انہی کی سلی ہوئی سفید رنگ کی شیروانی پہنی۔ اس کے بٹن پیتل کے تھے۔ ولیمے کی رات دلہا نے جس ڈیزائنر کا لباس پہنا وہ بھی کوئی عام ملبوس ساز نہ تھا۔ یہ فراز منان تھا۔ شیروانی کے بٹن سنہری تھے۔ ہر بٹن پر شیر کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ مناہل اینڈ مہرین بھی ایک ہائی کلاس ڈیزائنر ہے۔ دلہن نے ولیمے کی تقریب میں ان کا ملبوس پہن کر گویا انہیں اعزاز بخشا۔ یہ بڑے گھیر والا، دہلی سٹائل، کمخواب کا فرشی غرارہ تھا۔ دلہن کے لباس پر چاندی کی زردوزی تھی جس میں سنہری جھلکیاں تھیں۔ دھاگے کا کام گلابی رنگ کا تھا۔ سوزن کاری کے لیے اطالوی کپڑا چنا گیا تھا۔ غور سے دیکھنے پر سوزن کاری کے جوہر کُھلتے تھے۔ سارس، مور، انار اور دیگر طیور اور پھل کاڑھے گئے تھے۔ دوپٹے پر بھی بہت کام کیا گیا تھا۔ اس پر ہاتھ سے بنا ہوا کامدانی جال تھا۔ دوپٹے کے کناروں پر زردوزی کا کام کیا گیا تھا۔ ایلان بھی مہنگا ڈیزائنر ہے جس کا عام پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا۔ مایُوں پر محترمہ نے ان کے تیار کردہ لباس کو اعزاز بخشا۔ کچھ ملبوسات سائرہ شاکرہ سے بنوائے گئے تھے۔ محترمہ کا انگرکھا ندا ازور نے بنایا تھا۔ ندا ازور بھی بہت بڑی اور خاص ڈیزائنر ہے۔ بیٹے کی برات پر محترمہ نے مخمل کا جو لہنگا چولی پہنا وہ مشہور ڈیزائنر نومی انصاری کا تیار کردہ تھا۔ اس پر سارا کام ہاتھ کا کیا ہوا تھا۔ یہ کام زردوزی، مکیش، نقشی، دبکہ اور موتی ستاروں پر مشتمل تھا اور سنہری شیڈ میں تھا۔ دوپٹے کے بارڈر پر گلاب کے چھوٹے چھوٹے پھول پرنٹ کیے گئے تھے۔ زیورات اور کھانوں کی تفصیل لکھی جائے تو اس سے بھی زیادہ طویل ہو گی۔ مسلم لیگ کی نائب صدر کا یہ شاہانہ معیار اور پھر میڈیا پر اس کی بھر پور کوریج مجھے بہت پسند آئی۔
ہم پاکستانی، مزاجاً، بادشاہوں کو پسند کرتے ہیں
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
ہم ہر اُس انداز پر فریفتہ ہیں جس سے بادشاہت کی یاد تازہ ہو۔ آپ اسلام آباد میں بنا ہوا وزیر اعظم کا دفتر ملاحظہ کر لیجیے۔ طرز تعمیر مغل دور کی یاد دلاتا ہے۔ ہم میں سے بہت لوگ بھٹو صاحب کے اس لیے شیدا تھے کہ وہ نفیس سوٹ پہنتے تھے اور انگریزی خوب بولتے تھے۔ جب وہ دلائی کیمپ بنانے لگ گئے تو ہم نے کندھے اچک کر کہا کہ بادشاہ ایسا کیا ہی کرتے ہیں۔ ضیا صاحب اور پرویز مشرف صاحب کے ادوار میں عوام اور خواص دونوں کی بھاری تعداد نے، ردِ عمل تو دور کی بات ہے، کسی ناپسندیدگی تک کا اظہار نہیں کیا۔ ضیا صاحب کے دور کی شوریٰ پر نظر دوڑائیے اور پرویز مشرف صاحب کے دائیں بائیں چلنے والے شہسواروں کو یاد کیجیے، جیالے اور متوالے سب دکھائی دیں گے۔ ہمیں بادشاہت کا کتنا ناسٹلجیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جنرل ایوب خان کو امیرالمومنین بنانے کی تجویز ایک سیاستدان سے منسوب ہے اور وردی میں دس بار منتخب کرانے کی بات تو ماضی قریب کی ہے۔ اگر جہاز کریش نہ ہوتا تو کون جانتا ہے ضیا صاحب کب تک حکمرانی کرتے رہتے۔ پرویز مشرف صاحب کو بھی مزید دس سال کے لیے پیٹریاٹس اور کوئی قاف لیگ ضرور مل جاتی۔ یہ تو ان کی اپنی غلطیاں تھیں جو ان کے اقتدار کے درپے ہوئیں۔ عوامی لہر تو کوئی نہ اٹھی۔ رہیں سیاسی جماعتیں تو وہ خاندانی جماعتیں ہیں۔ نوجوان اکبر اعظم کے سامنے جو حیثیت عمر رسیدہ عمائدین کی تھی، بالکل وہی حیثیت بلاول، مریم، حمزہ شہباز، مونس الٰہی اور مولانا اسعد محمود کے سامنے پارٹیوں کے معمر رہنماؤں کی ہے۔
عمران خان صاحب کے آنے پر ہم پریشان تھے کہ کہیں سچ مچ کا جمہوری کلچر نہ آ جائے۔ جو وعدے انہوں نے کیے تھے وہ بہت خطرناک تھے۔ یہ تو ان کا بھلا ہو کہ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر ہیلی کاپٹر پر آ جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کو میاں نواز شریف ہی کی طرح اپنی حاضری سے محروم رکھا ہوا ہے۔ سب سے بڑے صوبے کی حکمرانی ایک غیر مستحق کو اسی طرح بخشی جیسے بادشاہ صرف اور صرف اپنی مرضی سے بخشا کرتے تھے۔ ہم ان سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ان کا طرزِ زندگی، طرزِ رہائش اور طرز حکومت شاہانہ ہے۔
شہزادوں اور شہزادیوں کی شادیوں پر پندرہ پندرہ دن سلطنت بھر میں جشن برپا کیے جاتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے رہنماؤں کے بچوں کی شادیوں پر اسی طرح ملک گیر جشن منائے جائیں۔ عام تعطیل ہو۔ رعایا پر سکے پھینکے جائیں۔ قیدیوں کو آزاد کیا جائے۔ ڈاک کے خصوصی ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ شہروں کے نام بدل کر دلہا اور دلہن کے ناموں پر رکھے جائیں۔ مسلم لیگ کی رہنما کے صاحبزادے کی شادی کی جو تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں، ان سے ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک عوام میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو غریبوں سے محبت ہے۔ ان لیڈروں نے پوری پوری زندگیاں غریب عوام کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔ تو عوام کیوں نہ ان کی تقاریب پر خوش ہوں!