ایک سو بتیس برسوں پر پھیلی ہوئی کہانی …(2)

فتح دین کا بیٹا عبد المجید واپس پرتھ پہنچ گیا۔اب وہ بیس سال کا تھا۔ آتے ہی اس کے اپنے والد سے اختلافات پیدا ہو گئے۔قصور باپ کا تھا‘ نہ بیٹے کا! فتح دین اس اثنا میں ایک سفید فام عورت سے شادی کر چکا تھا۔ اُس وقت کے قوانین کی رُو سے دوسری شادی کی آسٹریلیا میں اجازت تھی بشرطیکہ پہلی بیوی اجازت دے دے۔فاطمہ بی بی کو تا دمِ مرگ میاں کے عقدِ ثانی کا علم ہی نہ تھا۔عبد المجید جو پہلے ہی ماں کی جدائی سے غمزدہ تھا‘ سوتیلی ماں کے ساتھ نہ نبھا سکا۔ روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آکر اس نے مغربی آسٹریلیا کو خیر باد کہا اور جنوب کا رُخ کیا۔ ایڈیلیڈ سے ہوتا ہوا میلبورن پہنچا۔ یہ صوبہ وکٹوریہ کہلاتا ہے۔ اسی میں ایک خوبصورت علاقہ وادیٔ لاٹروب ہے۔ عبد المجید نے اس وادی کو مسکن بنایا اور بہت سے دوسرے پردیسیوں کی طرح پھیری کا کام شروع کر دیا۔ گھوڑا گاڑی اور ایک وفادار کتا اس کی کل متاع تھی۔ اس کام میں سرمائے کی ضرورت نہ تھی۔ آج کی طرح اُس زمانے کا آسٹریلیا بھی منتشر آبادیوں پر مشتمل تھا۔ سپر سٹوروں کا رواج نہ تھا۔ بڑی بڑی کمپنیاں تھوک فروشوں کو مال ادھار پر دیتیں۔ یہ تھوک فروش چینی ‘ لبنانی اور ہندوستانی ہوتے۔ یہ آگے پھیری والوں کو ادھار پر مال دیتے۔ دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار تھا۔پھیری والے نگر نگر ‘ گاؤں گاؤں‘ پھرتے۔ گھر گھر جاتے۔ زرعی فارموں کے چکر لگاتے۔ یہاں بھی ادھار چلتا۔ قمیصیں‘ پتلونیں‘ جوتے‘ سوئیاں ‘ بکسوئے‘ بچوں کے لیے مٹھائیاں ‘ سب کچھ ادھار پر ہوتا۔ چھ شلنگ کی ادائیگی بھی مہینوں بعد ہوتی۔ جو پھیری والے اَن پڑھ تھے وہ گاہک ہی سے اپنی کاپی پر حساب لکھاتے۔ کبھی کبھی کوئی گاہک بے ایمانی سے غلط اندراج بھی کر دیتا۔مختلف لوگ پھیری والوں سے مختلف سلوک کرتے۔کوئی مسکرا کر بٹھا لیتا اور چائے پلاتا۔ کوئی کالا سمجھ کر منہ دوسری طرف کر لیتا۔ رمضان کے دوران یہ پھیری والے چھٹی کرتے تا کہ روزے رکھ سکیں۔ اس وقت مسجدیں نہیں تھیں۔ یہ لوگ اپنی اپنی جائے نمازوں پر نماز ادا کرتے۔
جس زمانے میں فتح دین آسٹریلیا پہنچا‘ یعنی انیسویں صدی کے آخری عشرے میں‘ ٹھیک اسی زمانے میں ایک کشمیری نوجوان گلاب دین بھی قسمت آزمانے پہنچا تھا۔کچھ عرصہ بعد گلاب دین کی ملاقات ایک سفید فام بیوہ سے ہوئی جس کے نو بچے تھے۔ گلاب دین نے اس سے شادی کر لی۔ وہ اس عورت کا تیسرا میاں تھا۔ پہلا آئرش تھااور دوسرا چینی! گلاب دین سے اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام زیب النسا رکھا گیا۔ ایک عید پر جب مسلمان خاندان اکٹھے تھے‘ عبدالمجید زیب النسا کو دل دے بیٹھا۔ان کی شادی ہو گئی۔ یہ خبر گاؤں پہنچی تو ہنگامہ برپا ہو گیاکیونکہ وہاں بھی ایک منگیتر منتظر تھی۔ پھر وہی ہوا جو ہماری ثقافت میں ہوتا آیا ہے۔ گھر کی ''عزت‘‘ بچانے کے لیے عبدالمجید کے چھوٹے بھائی مرزا انور کی شادی اس لڑکی سے کر دی گئی۔
عبدالمجید جڑی بوٹیوں کے ماہر کے طور پر بزنس کرتا رہا۔ اس نے پرتھ میں حلال گوشت کا کاروباربھی کیا۔ فتح دین قیام پاکستان سے آٹھ سال پہلے پرتھ ہی میں دنیا سے رخصت ہوا۔ آخر وقت تک باپ بیٹا نزدیک نہ ہو سکے۔ فتح دین کے کفن دفن کا بندو بست اس کی سفید فام بیوی نے کیا۔ عبد المجید نے بعد میں جب والد کی قبر پر لگا ہوا کتبہ پڑھا تو اس کے دُکھ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لکھا تھا ''ڈوروتھی کا محبوب شوہر اور مینا اور زہرا کا پیارا والد مرزا فتح دین ‘‘۔عبدالمجید اس کا بیٹا تھا مگر اس کا نام کتبے سے غائب تھا۔ عبدالمجید پاکستان بننے کے بعد کئی بار اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آبائی گاؤں آیا۔
اس کہانی کا سب سے زیادہ اہم اور قابلِ توجہ کردار حنیفہ دین ہیں۔ حنیفہ دین فتح دین کی پوتی‘ گلاب دین کی نواسی اور عبدالمجید کی صاحبزادی ہیں۔اس وقت وہ ستر سے اوپر کی ہوں گی۔میری ان سے ملاقات یونیورسٹی آف میلبورن میں ہوئی۔ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور بلند پایہ ریسرچ سکالر ہیں۔ ان کا اصل کارنامہ جس کے لیے وہ آسٹریلیا کے ادبی‘ ثقافتی اور تحقیقی حلقوں میں جانی جاتی ہیں‘ ان کی وہ بے پناہ محنت ہے جو انہوں نے انیسویں صدی میں لائے گئے شتربانوں (Cameleers) کے حوالے سے کی ہے۔آسٹریلیا کے قومی آرکائیوز میں سالہا سال بیٹھ کر انہوں نے ایک ایک شتربان کے خاندان ڈھونڈے۔ کون کب آیا‘ کب واپس گیا‘ کب ایک بار پھر آسٹریلیا لوٹا‘ کون کس ریاست یا صوبے میں اقامت پذیر ہوا‘ کس کے ویزے پر کیا اعتراض ہوا‘ کس کی اگلی نسل آج کہاں ہے؟ یہ اور بے شمار دوسرے سوالوں کے جواب حنیفہ دین نے تلاش کیے۔ حنیفہ کی پہلی تصنیف ''کارواں سرائے‘‘ آسٹریلیا کے مسلمانوں کی تاریخی اور تہذیبی داستان ہے۔ ''علی ‘ عبدل اور بادشاہ‘‘ ان مسلمان خاندانوں کی سرگزشت ہے جن کے بزرگ ڈیڑھ صدی پہلے آسٹریلیا کے ساحلوں پر اترے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ ان کے علاوہ بھی حنیفہ کی متعدد تصانیف ہیں۔ انہیں وفاقی اور صوبائی سطح کے کئی انعامات اور ایوارڈ دیے گئے ہیں۔ شوہر جرمنی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کے بارے میں وہ کچھ نہیں بتاتیں۔ کچھ سال میلبورن رہنے کے بعد اب پرتھ منتقل ہو رہی ہیں۔ کئی بار پاکستان آئیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت بھی جاتی رہتی ہیں۔ ایک کتاب بنگلہ دیش کی تہذیبی زندگی پر بھی لکھی۔ ان کے مضامین آسٹریلیا کے صفِ اول کے اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے ہیں۔ ٹیلی وژن پروگرام بھی کرتی ہیں۔
ہم کھاریاں ڈنگہ روڈ پر چلتے گئے یہاں تک کہ انیس کلو میٹر کے بعد وہ بستی آگئی جہاں سے 1890ء میں مرزا فتح دین چلا اور سمندروں کو عبور کرتا ہزاروں میل دور ایک اجنبی‘ نو دریافت شدہ جزیرے میں جا اترا اور پھر اسی جزیرے کی مٹی میں دفن ہوا۔ حنیفہ دین نے بتایا تھا کہ گاؤں کا نام چنن ہے جہاں وہ کئی بار آئیں۔ ہم نے ایک معمر کسان سے پوچھا کہ جو بابا آسٹریلیا گیا تھا‘ اس کا گھر کہاں ہے؟ ایک ثانیے کے تذبذب کے بغیر اس نے ہماری رہنمائی کی۔ہماری ملاقات فتح دین کے تیسرے بیٹے مرزا انور کی اولاد سے ہوئی۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ یہ دو بھائی ‘ عبد العزیز اور عبدالغفور ‘ امریکہ سے آئے ہوئے تھے اور ایک دو دن میں واپس جانے والے تھے۔ یوں لگتا تھا یہ جڑواں بھائی ہیں۔ کم گو‘ شرمیلے‘ ستر پچھتر کے پیٹے میں‘ یہ دونوں‘ اپنے سگے تایا کی اس اولاد کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے جو آسٹریلیا میں رہتی ہے۔ خاندانوں کے انتشار کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ کسی بھی خاندان کی تاریخ تلاش کی جائے تو حیرت کے کئی باب وا ہوتے ہیں۔ کہاں کا پھول کس زمین میں جا کھِلتا ہے۔ خانوادے کیسے ضم ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ کچھ خوش قسمت اپنے اصل سے جُڑے رہتے ہیں۔بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو زبان اور ثقافت کھو بیٹھتے ہیں مگر اتنا جانتے ہیں کہ آبا ئو اجداد کہاں سے آئے تھے۔ کچھ حنیفہ دین کی طرح دوسروں پر احسان کرنے والے ہوتے ہیں کہ اپنے علاوہ دوسروں کی اصل بھی تلاش کر دیتے ہیں۔ انگریزوں کو یہ داد ضرور دینی چاہیے کہ کئی سو سال پہلے بھی وہ ہر شے کا ریکارڈ رکھتے تھے۔ سلاطینِ دہلی اور مغلوں کے زمانے کا ریکارڈ ہوتا تو بر صغیر کے مسلم خاندانوں کی جڑیں بھی وسط ایشیا اور ایران و عرب تک تلاش کی جا سکتی تھیں!(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں