پہلی بات تو یہ ہے اگر نئے سال میں سب کچھ بدل جاتا ہے تو دنیا میں کئی نئے سال شروع ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے شروع ہونے کی تاریخ مختلف ہے۔ پنجابی سال وساکھ سے شروع ہوتا ہے۔ قمری سال محرم سے آغاز ہوتا ہے۔ ایرانی سال کی ابتدا فروردین سے ہوتی ہے۔ ہمارا مالی سال جولائی سے جون تک ہے۔ اسی طرح دنیا میں رائج کئی کیلنڈر اور بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھے دن سال میں کئی بار، کسی بھی ماہ شروع ہو سکتے ہیں۔
یہ جو ہم امیدیں لگا بیٹھتے ہیں کہ نئے سال کا سورج مسرتیں لائے گا تو یہ ایک عجیب سا غیر منطقی عمل ہے۔ آخر راتوں رات اتنی بڑی تبدیلی کیسے رونما ہو سکتی ہے؟ کون سا ایسا سم سم نئے سال میں کھل جائے گا جو جانے والے سال کے دوران بند تھا؟ ہم، بطور قوم ایسے نہیں ہیں جو راتوں رات سدھر جائیں۔ ارے بھائی! ہم تو صدیوں کا معاملہ ہیں! کیا نئے سال میں ہمارے صوبے کے وزیر اعلیٰ اس منصب کے اہل ہو جائیں گے؟ تحریک انصاف کی حکومت جو سالہا سال آزمائے ہوئے پرانے، زنگ آلود، چہرے لے کر آئی ہے، کیا نئے سال میں ہمیں اُن چہروں سے نجات مل جائے گی؟ ایک اتھارٹی کا سربراہ لگانے میں جو چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدواروں کے ساتھ ظلم کیا گیا، کیا نئے سال میں اس ظلم کو کالعدم کر دیا جائے گا؟ بیوروکریسی میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ ختم ہو جائے گا؟ اچھی پوسٹ خالی دیکھ کر پسندیدہ افسر کو ایک سال پہلے ریٹائر کیا جاتا ہے پھر اسے اُس خالی پوسٹ پر فٹ کیا جاتا ہے۔ کیا نئے سال میں اس انصاف کا ازالہ کر دیا جائے گا؟ کیا نئے سال کے دوران ہمارے اپنے سٹیٹ بینک کے اوپر ہمارا اپنا بندہ لگ جائے گا؟ کیا نئے سال میں بجلی کے ہر بل میں اُس پی ٹی وی کے نام پر جگا ٹیکس لینا چھوڑ دیا جائے گا جس کی ہم خبریں سنتے ہیں نہ پروگرام دیکھتے ہیں؟ کیا نئے سال میں ہم پر لگائے جانے والے بے تحاشا ٹیکسوں کے فیصلے ہمارے ملک کے اندر ہونے لگیں گے؟ کیا نئے سال میں ہمارے حکمران، پڑوسی ملکوں کے غم میں گُھلنا چھوڑ کر اپنے لوگوں کی فکر کرنے لگیں گے؟ کیا نئے سال میں یونیورسٹیاں طلبہ کے قبضہ گروپوں سے آزاد ہو جائیں گی اور وائس چانسلروں کے دفتروں کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ بند ہو جائے گا؟ کیا سرکاری سکولوں کو نئے سال میں چھتیں، در و دیوار، فرنیچر، اساتذہ اور صاف پانی مہیا کر دیا جائے گا؟ کیا نئے سال میں ہمارے عوام کا مائنڈ سیٹ بدل جائے گا اور سیالکوٹ جیسے سانحے ہونے کا اندیشہ ختم ہو جائے گا؟ اگر یہ سب کچھ، اور بہت کچھ اور بھی، اسی طرح ہوتا رہے گا تو پھر کون سا نیا سال اور کیسی امیدیں؟ نئے سال کے آنے سے فرق صرف یہ پڑتا ہے کہ دسمبر کے بعد جنوری آ جاتا ہے، دن زیادہ لمبے اور راتیں زیادہ چھوٹی ہونے لگتی ہیں! باقی سب کچھ وہی رہتا ہے! ایک دوسرے کو نیا سال مبارک اور ہیپی نیو ایئر کہنے کے بعد ہم سب اپنے اپنے غموں کی طرف لَوٹ آتے ہیں۔ وہی بے روزگاری !وہی گرانی! وہی ٹریفک کی قتل گاہ! وہی وحشی ٹرالیاں! وہی اندھے ڈمپر! وہی کنکشن کے لیے گیس کے دفتر کے چکر! وہی بجلی کے بل کا ہَول! وہی ایف آئی آر نہ کاٹنے کے بہانے! سڑکوں کے وہی گڑھے! وہی دھول اڑاتے کچے راستے! وہی ڈسپنسریوں کو ترستے گاؤں! وہی متمول خاندانوں کی حکمرانی! وہی پلوٹوکریسی! وہی سرداری نظام! جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کا وہی جاگیردارانہ سلسلہ! وہی حویلیوں میں کام کرتی، ہاریوں کی غیر محفوظ بہو بیٹیاں، بیویاں! وہی وڈیرے! وہی پاؤں دباتے مصلّی! وہی تھانے! وہی کچہریاں! وہی مزاروں کی مٹی پھانکتی عورتیں! ان میں سے کیا ہے جو نئے سال کے دوران نہیں ہو گا؟
ہاں! جانے والے سال میں جن کے مزے تھے، نئے سال میں بھی ان کے مزے جاری رہیں گے! ان کے لیے ہر سال خوشی کا سال ہوتا ہے۔ وہ اس سال بھی لندن کے عیش و عشرت میں زندگی کا لطف اٹھائیں گے۔ دبئی کی مال دار فضاؤں میں سانس لیں گے! اس سال بھی گھروں میں ہر شام روکڑا بھری تھیلیاں پہنچیں گی! کرنسی نوٹ گننے والی مشینیں اس سال بھی اُن گھروں میں چلتی رہیں گی جہاں پچھلے سال چلتی رہی تھیں! کوئی تغیر آئے گا نہ کوئی تبدیلی رونما ہو گی! بندہ کوچہ گرد ہی رہے گا! خواجہ بلند بام ہی ہو گا۔ فقیر حال مست رہیں گے! امیر مال مست رہیں گے! جو بَیل سینگوں کے بغیر بھی بیل ہی رہتے ہیں، وہ نئے سال کے دوران بھی بیل ہی رہیں گے! ان کے انسان بننے کا امکان اس سال بھی صفر رہے گا!
ہم وہ لوگ ہیں جن کی قسمت کوئی زائچہ، کوئی ستارہ، کوئی پامسٹری، کوئی پیش گوئی، کوئی نقش کوئی تعویذ نہیں بدل سکتا! کوئی فاختہ ہمارے شیشم پر نہیں بیٹھے گی! کوئی چشمہ ہماری پیاس نہیں بجھائے گا! شہد کا کوئی چھتہ ہماری پُھلاہی پر نہیں لگے گا! ہمارے سبزہ زار تتلیوں سے محروم رہیں گے! جگنو ہمارے باغیچوں سے کترا کر اڑیں گے۔ ہماری جھیلوں پر کُونجیں نہیں اتریں گی! ہمارے تلور ہمیشہ بدیسی شکاریوں کے نشانوں پر رہیں گے! ہمارے بھکاری گاڑیوں کے شیشے اور ہمارے کشکول بدست حکمران دوسرے ملکوں کے دروازے کھٹکھٹاتے رہیں گے! ہماری وزارتوں کے کچھ فلور عالمی اداروں کے لیے مخصوص رہیں گے! آزادی سے پہلے ہمارے وائسرائے وہ ہوتے تھے جو برطانیہ کی کریم شمار ہوتے تھے۔ اب عالمی اداروں کی نچلی سطح کے اہلکار ہمارے وائسرائے ہیں! یہ نچلی سطح کے غیر ملکی اہلکار ہمارے بجٹ کو منظور یا نامنظور کرتے رہیں گے! نیا سال بھی ہمیں آئی ایم ایف کا دست نگر ہی دیکھے گا!
نیا سال بالکل ایسا ہی ہو گا جیسا پرانا سال تھا! زرداری خاندان، شریف خاندان، چوہدری خاندان، مولانا خاندان ہی سیاسی جماعتوں کے مالک و مختار ہوں گے۔ حکمران پارٹی سے لے کر اپوزیشن جماعتوں تک کسی پارٹی کی قیادت نہیں بدلے گی! آسمان سے پتھر گر سکتے ہیں! زمین دھنس سکتی ہے! مرغی بچے اور بلی انڈے دے سکتی ہے! سب کچھ ہو سکتا ہے مگر ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادتیں نہیں بدل سکتیں! کہیں نصف صدی سے ایک خاندان تو کہیں ربع صدی سے ایک فرد پارٹی پر مسلط ہے! نئے سال میں، اور اس کے بعد والے سال میں بھی منظر نامہ ایسا ہی رہے گا! ہمیں پیش گوئی کرنے والے بزرگوں کی کیا ضرورت ہے! ہمارے عام آدمی کو بھی معلوم ہے کہ ہمارا نیا سال ایسا رہے گا جیسا پرانا سال تھا! ہم تو سب پہنچے ہوئے ہیں! ہم بے وفا نہیں کہ حال یا مستقبل بدل لیں! ہمارا حال ہمارے ماضی کی طرح ہے اور ہمارا مستقبل ہمارے حال جیسا ہو گا! غالب کو ایک برہمن ملا تھا جس نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہو گا! بس وہ برہمن ہم سے ناراض ہے! ہم لاکھ کہیں :
مرا ہاتھ دیکھ برہمنا مرا یار مجھ سے ملے گا کب
ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں
مگر برہمن کے منہ سے کچھ نہیں نکلے گا! ہمارا ہاتھ دیکھ کر جو کچھ اسے نظر آ رہا ہے وہ بتانے کے لیے اسے ہمت نہیں ہو رہی! اور جو کچھ ہم سننا چاہتے ہیں وہ اسے دکھائی نہیں دے رہا!