تزک و احتشام اس قدر تھا اور شان و شوکت اتنی تھی کہ اہلِ مدینہ کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں! بنو غسّان کا بادشاہ جبلہ بن ایہم مدینہ میں داخل ہوا تو اس کے ہمراہ پانچ سو سوار تھے۔ لباس ان کے ریشمی تھے۔ گَلوں میں سونے کے ہار تھے۔ جبلہ کے سر پر شاہانہ تاج تھا۔ گھوڑے بہترین نسل کے تھے۔ ایسا طمطراق شہر میں کبھی کسی نے دیکھا نہیں تھا!
مسلمانوں نے دمشق کے گرد و نواح پر قبضہ کیا تو جبلہ کے محلات اور جاگیریں اسے داغ مفارقت دے گئیں۔ وہ اس علاقے میں ہرقل کا دست راست تھا مگر وقت اپنا رنگ بدل رہا تھا۔ تاریخ نیا صفحہ الٹ رہی تھی۔ جبلہ کی دُور رس نگاہوں نے دیکھ لیا کہ رومن ایمپائر مسلمانوں کے سامنے ٹھہر نہیں پائے گی؛ چنانچہ اس نے اپنے قبیلے کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا۔ پھر اس کے بعد دربارِ خلافت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور یوں مدینہ منورہ میں وارد ہوا۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ اس سے شفقت سے پیش آئے۔ کچھ دن کے بعد امیرالمومنین اور مسلمانوں کی حج کے لیے روانگی تھی۔ جبلہ بھی ساتھ تھا۔ طواف کے دوران اس کے تہمد پر ایک بَدّو کا پاؤں آ گیا۔ جبلہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ اس نے پلٹ کر بدو کو مُکا مارا۔ ایک روایت کے مطابق بدو کے دانت ٹوٹ گئے۔ دوسری روایت کی رُو سے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مدعی دربارِ خلافت میں پہنچا اور شکایت کر دی۔ امیرالمومنین نے جبلہ کو بلا کر جواب طلبی کی۔ اس نے کِبر و غرور کے ساتھ تصدیق کی۔ امیرالمومنین نے فرمایا کہ تم اپنا جرم تسلیم کر رہے ہو‘ اب مظلوم کو مناؤ ورنہ سزا کے لیے تیار ہو جاؤ۔ جبلہ نے تفاخر سے جواب دیا کہ میں بادشاہ ہوں اور وہ ایک عام، گمنام شخص! اس کا اور میرا کیا مقابلہ؟ آپؓ نے فرمایا: اسلام میں سب برابر ہیں سوائے تقویٰ کے کوئی اور وجۂ امتیاز نہیں ! اس نے کہا: امیرالمومنین! میں سمجھتا تھا کہ اسلام قبول کر کے مجھے پہلے سے بھی زیادہ عزت ملے گی! آپؓ نے فرمایا: یہ خیال دل سے نکال دو‘ اگر مدعی تمہیں معاف نہیں کرے گا تو سزا ضرور دی جائے گی۔ اس نے کہا: تو ٹھیک ہے میں نصرانی بن جاتا ہوں۔ آپؓ نے کہا: اس صورت میں ارتداد کی سزا موت ہے۔ اس نے مہلت مانگی جو آپؓ نے دے دی۔ کچھ لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ اتنی شدت نہیں کرنی چاہیے‘ شروع کے دن ہیں‘ اسلام پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ مگر یہ ریاستِ مدینہ تھی۔ بادشاہ ہو یا وزیر، اور حالات جیسے بھی ہوں، قانون کے سامنے سب برابر تھے۔ جبلہ رات کی تاریکی میں فرار ہو گیا۔
وزیر اعظم نے ریاست مدینہ کے حوالے سے مضمون تحریر کیا ہے جو پرنٹ میڈیا میں شائع ہوا۔ یہ اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ کم از کم تھیوری کے حوالے سے تو معلوم ہو کہ روڈ میپ کیا ہے؟ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم سنجیدگی سے اُس راستے پر چل رہے ہیں جو ریاستِ مدینہ کی طرف جاتا ہے؟ یا ابھی راستے کی سمت کا تعین ہی نہیں ہو رہا؟ یہ سوال ایک مثال سے واضح ہو گا۔ جب تحریک انصاف کے وابستگان سے پوچھا جاتا ہے کہ جن سیاست دانوں کی ماضی میں کھلم کھلا مذمت کی گئی اور دیانت و امانت کے حوالے سے انہیں واضح طور پر ناپسندیدہ قرار دیا گیا بلکہ ایسے القاب بھی دیئے گئے جو زبان زدِ خاص و عام ہیں تو پھر حکومت تشکیل کرتے وقت انہیں ممتاز مناصب سے کیوں نوازا گیا؟ جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ایسا نہ کرتے تو ہماری حکومت نہ بن سکتی! اب یہاں منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست مدینہ میں، کسوٹی پر پورا نہ اترنے والوں کو صرف اس لیے ساتھ ملایا جاتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح حکومت بن جائے؟ اور کیا ایسے لوگوں کو اس لیے نہیں ہٹایا جاتا تھا کہ حکومت ٹوٹ نہ جائے؟ چوراسی‘ چوراسی کروڑ کے قرضے معاف کرانے والے اونچی کرسیوں پر متمکن ہیں! چینی، رنگ روڈ، ادویات، اور کئی دیگر حوالوں سے جن ناموں کے آگے سوالیہ نشان لگے ہیں وہ اقتدار کی پہلی صف میں نظر آتے ہیں!
تو کیا ریاست مدینہ میں ایسا ہوتا تھا؟ کیا حکومت حاصل کرنے کے لیے، یا حکومت برقرار رکھنے کے لیے رطب و یابس میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا تھا؟ اس ضمن میں ریاست مدینہ کے حکمران امیرالمومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اپنے طرزِ عمل سے پتھر پر لکیر کھینچ دی اور بتا دیا کہ حکومت رہے یا نہ رہے، اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ اب جو بھی ریاست مدینہ کی اتباع کا دعویٰ کرے گا، اسے یہی طرزِ عمل اپنانا ہو گا۔ امیرالمومنین علی مرتضیٰؓ سے زیادہ مشکلات کا شکار کون ہوا ہو گا! ایک طرف امیر شام! دوسری طرف خوارج! تیسری طرف اپنے غیر مطمئن حمایتی! اپنے چچا زاد ابن عباسؓ کو آپؓ نے بصرہ کا گورنر مقرر فرمایا کہ فتنوں سے بھرے ہوئے ان نامساعد حالات میں بھروسے کے لوگ چند ہی رہ گئے تھے اور ابن عباسؓ ان میں سے ایک تھے۔ ابن عباسؓ نے بیت المال سے کچھ رقم اپنے استعمال کے لیے لی۔ صوبے کے مالیات کے سربراہ نے کچھ عرصہ بعد رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تو ابن عباسؓ نے سختی سے جواب دیا۔ افسر مالیات نے معاملہ امیرالمومنین کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ شدید مشکلات میں گھرے ہوئے امیرالمومنین کو چشم پوشی سے کام لینا چاہیے تھا؟ ان حالات میں ابن عباسؓ جیسی اہم شخصیت کو ناراض کرنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا۔ مگر امیرالمومنین کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ اپنے اقتدار کو استحکام بخشنے کے لیے ریاست مدینہ کے اصولوں کو پسِ پشت ڈالیں۔ آپؓ نے ابن عباسؓ کو لکھا: اما بعد‘ مجھے تمہارے بارے میں ایک بات کا پتا چلا ہے۔ اگر وہ سچ ہے تو تم نے اپنے رب کو خفا کیا، اپنی امانت برباد کی، اپنے امام کی نافرمانی کی اور مسلمانوں کے خائن بنے۔ مجھے معلوم ہوا کہ تم نے زمین کو بنجر کر دیا اور جو رقم تمہارے قبضے میں تھی وہ کھا گئے۔ پس میرے سامنے حساب پیش کرو اور جان لو کہ اللہ کا حساب لوگوں کے حساب سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابن عباسؓ رقم واپس کرنے کے بجائے معاملے کو ٹالتے رہے مگر امیرالمومنین کا احتساب سخت تھا! کسی قسم کی لچک کے بغیر! ابن عباسؓ نے مال سمیٹا۔ اپنے ماموئوں کو اپنی حفاظت کے لیے بلا لیا اور مکہ مکرمہ جا کر عیش و آرام کی زندگی گزارنے لگے۔ امیرالمومنین نے انہیں ایک طویل سرزنش نامہ لکھا جس کی آخری سطور یہ تھیں: کیا قیامت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ اور کیا بعد میں بری طرح حساب نہیں ہو گا؟ اور کیا تم جانتے نہیں کہ حرام کھاتے ہو اور حرام پیتے ہو؟ اللہ سے ڈرو۔ قوم کا مال واپس کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو بخدا اگر مجھے موقع ملا تو میں تمہارا انصاف کروں گا اور حق حق دار تک پہنچاؤں گا۔ ظالم کو ماروں گا اور مظلوم کا انصاف کروں گا۔ والسلام
یہ ہے ریاست مدینہ! صاف! آئینے کے مانند شفاف! سورج سے زیادہ روشن! چاند سے زیادہ چمک دار! یہ بہت ہی نامناسب بات ہے کہ ہم نام ریاست مدینہ کا لیں! صبح و شام لیں! مگر طرز عمل ہمارا مصلحتوں سے اور چشم پوشیوں سے بھرا ہوا ہو اور ہم اپنی حکومت بچانے کی فکر ہی میں رہیں۔