سلہٹ سے شنکیاری تک

پروفیسر اظہر وحید کے ہاں کھانا مزے کا ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے تک یہ حال تھا کہ اچھا بھلا باعزت کھانا کھاکر چائے سیاہ رنگ کی پیالیوں میں پینا پڑتی تھی۔پروفیسر اپنے اصولوں کا سخت پابند ہے۔ ہفتے میں سات دن سیر کرتا ہے۔ چھ دن ورزش! ہر کام مقررہ وقت پر۔ مشکل ہی سے کسی دعوت میں جاتا ہے۔ خوشحالی اور مالی آسودگی کے باوجود‘ اپنا لباس خود استری کرتا ہے۔ اپنے کمرے کی صفائی خود کرتا ہے۔ اسےAbnormalityہی کہیے‘ کہ تیس سال سے زائد تعلیمی کیریئر میں شاید ہی کوئی پیریڈ اس نے چھوڑا ہو۔ہمارے ہاں شرفا ایسا نہیں کرتے۔ ایک پروفیسر صاحب تو شاگردوں کو مہینوں شکل نہیں دکھاتے تھے۔ پروفیسر اظہر اس لحا ظ سے انگریز واقع ہوا ہے۔ یہ اور بات کہ یہ انگریز‘ انگریزوں کے جانے کے بعد‘ چونیاں میں پیدا ہوا۔ ایک روایت کی رُو سے راجہ ٹوڈرمل بھی چونیاں ہی سے تھا۔
ایک بہت اچھے ظہرانے کے بعد‘ کالے رنگ کی پیالی میں چائے پینا ناقابلِ برداشت تھا۔ ایک دن میں نے اپنے گھر سے دو سفید رنگ کی پیالیاں اٹھائیں اور اس کے پاس لے گیا۔ شکریہ تو وہ خیر کیا ادا کرتا‘ اس نے عجیب نکتہ نکالا کہ دو پیالیوں کے بجائے پورا سَیٹ ہی لے آتے۔ اس نکتے کا میرے پاس‘ ظاہر ہے‘ کوئی جواب نہ تھا۔ مگر پروفیسر کا ذکر ضمنی طور پر آگیا ہے۔ اصل مسئلہ جو شیئر کرنا ہے اُس زیادتی کے بارے میں ہے جو چائے نوشی کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ کالے یا گیروے رنگ کی پرچ پیالی میں چائے پینا پھر بھی معاف کیا جا سکتا ہے مگر کوپ میں‘ جسے آج کل مَگ کہا جاتا ہے‘ کھردراپن نہیں تو بے دردی ضرور ہے۔ کچھ حضرات مَگ کی حمایت میں یہ دلیل لاتے ہیں کہ اس میں چائے ٹھنڈی نہیں ہوتی۔ کچھ کا خیال ہے کہ پیالی میں چائے کی مقدار کم ہوتی ہے اس لیے مَگ کو ترجیح دی جاتی ہے مگر دونوں دلائل کمزور ہیں۔ اگر گرم چائے کا اتنا ہی شوق ہے تو پتیلے کو یا چینک ہی کو منہ لگا لیا کیجیے۔ رہا معاملہ مقدار کا تو آپ کو دوسری پیالی پینے سے کس نے منع کیا ہے؟ آخر ذوق بھی ایک شے ہے۔ قسم قسم کی خوبصورت پرچ پیالیاں ہی تو چائے پینے کے عمل کو رنگین بناتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دیدہ زیب لباس انسان کی توقیر بڑھاتا ہے اور پہننے والے کے ذہنی رجحان کا پتا دیتا ہے۔ آپ ایک شخص کا لباس دیکھ کر اس کی ذہنیت‘ اس کی تعلیم اور اس کے مزاج کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ کا میزبان جس طرح کے برتنوں میں آپ کو چائے پیش کرتا ہے‘ اس سے اُس کے ذوق اور مائنڈ سیٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ چائے کے برتن قیمتی ہوں۔ اگر آپ خوش ذوق ہیں اور نفیس طبع تو خوبصورت پرچ پیالیاں ارزاں بھی تلاش کر سکتے ہیں۔ مکان کے باہر بہت سا سنگ مرمر تھوپنے سے یا گیٹ میں سنہری تاریں لگوانے سے دولت کا سراغ ملتا ہے اور ساتھ ہی بد ذوقی اور پھوہڑپن کا! ایک آرٹسٹ‘ ٹوٹے ہوئے گھڑے کو‘ پھلوں کے خالی کریٹ کو‘ شکستہ فرنیچر کو اور بیکارٹائر کو بھی آرائشی سامان ( ڈیکو ریشن پیس ) میں تبدیل کر سکتا ہے !
مَگ میں چائے پینے کے خلاف جو زہر میں نے اُگلا ہے‘ اگر آپ کا پس منظر دیہی ہے تو اس کے جواب میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پچاس سال پہلے تو گاؤں کے لوگ باگ مٹی کے پیالے میں بھی چائے پی لیتے تھے‘ تو پھر مَگ میں کیوں نہیں پی جا سکتی! مگر یہ دلیل بھی ضعیف ہے۔ مٹی کا پیالہ تو ہمارے کلچر اور ثقافتی میراث کا دلکش حصہ ہے۔ ہم فتح جنگ کے لوگ مٹی کے پیالے کو بَٹھل کہتے ہیں۔ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ اور چکوال میں اسے ٹاس کہا جاتا ہے۔ چکوال کے علاقے کو دھَنی کہتے ہیں۔ وہاں کے گھڑے مشہور ہیں۔ اسی سے یہ لوک گیت بنا کہ
دھَنی نا گھڑا‘ مینڈا ماہی‘ تلہ گنگے نی ٹاس ہووے!
مٹی کے اس پیالے میں جو چائے پی جاتی تھی وہ بھی خاص تھی۔ اس میں گڑ ڈالتے تھے اور تھوڑا سا نمک۔ذرا اُس دودھ کا تصور کیجیے جو اُس زمانے میں میسر تھا۔بھینس یا گائے کا خالص تازہ دودھ! جبکہ تب ان معصوم جانوروں کو خاص قسم کے ٹیکے بھی نہیں لگتے تھے جو آج کل چالاک گوالے لگاتے ہیں۔ اب تو گاؤں میں بھی ویسا دودھ کم ہی ملتا ہے! تو جناب ! مٹی کے پیالے کا تو کیا ہی کہنا ! غالب نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچھا ہے
مٹی کے کورے پیالے سے جو خوشبو آتی ہے اس کا مقابلہ عود اور عنبر بھی نہیں کر سکتے۔یہ خوشبو ہمارے خون میں رچی بسی ہے! بالکل اسی طرح جیسے ہم گاؤں کے لوگ دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں‘ اُس کمرے کی خوشبو کو کبھی نہیں بھول سکتے جس میں ہمارے مویشی بندھے ہوتے تھے۔اور اُس خوشبو کو کبھی نہیں بھول سکتے جو بھوسہ ملے ہوئے گارے کی ہوتی تھی اور پسینے کی اُس خوشبو کو جو ہماری قمیص کو پیٹھ سے چپکا دیتی تھی اور اُس خوشبو کو جو پوچہ مِلے ہوئی گندے پانی سے تختی دھوتے ہوئے آتی تھی اور بکرے کے میمنے کی خوشبو کو جو اُسے چومتے وقت محسوس ہوتی تھی اور گھاس کی خوشبو کو جو شام کے وقت قبرستان سے گزرتے ہوئے آتی تھی اور باپ کی خوشبو کو جو اُس کی موت کے بعد ہمیں راتوں کو سوتے وقت اور صبحوں کوجاگتے وقت آتی ہے !
بر صغیر میں چائے انگریزوں کی باقیات میں سے ہے۔ شروع میں چائے فروخت کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں نے عوام کو چائے مفت مہیا کی تا کہ انہیں عادت پڑے۔ لاہور‘ انگریزوں کے زمانے ہی میں چائے کا مرکز بن گیا تھا۔سہ پہر ( آفٹر نون) کی چائے برطانوی کلچر کا خاص حصہ ہے۔ انگریز افسروں کی بیگمات سہ پہر کے وقت ٹی پارٹی منعقد کیا کرتیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ دودھ والی چائے کا رواج‘ زیادہ تر‘ وہاں ہے جہاں انگریزوں کی حکومت رہی۔ جیسے پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ہانگ کانگ‘ سنگاپور‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ مصر وغیرہ۔ اس کے علاوہ افغانستان ہے یا ایران‘ ترکی ہے یا عرب دنیا‘ وسطی ایشیا ہے یا یورپ مین لینڈ‘ بغیر دودھ کی چائے پیتے ہیں۔ کچھ ملکوں میں لیموں والی چائے پی جاتی ہے۔ مراکشی چائے میں پودینہ ڈالتے ہیں۔ ترکی کی طرح مراکش میں بھی شیشے کے خوبصورت چھوٹے گلاس میں چائے پی جاتی ہے‘ رہا چینی کا پیالہ‘ تو وہ وسط ایشیائی ملکوں اور افغانستان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پشاوری قہوہ بھی اسی قسم کے پیالے میں پیتے ہیں۔ بھارت میں چائے اُگانے کے تین مراکز ہیں۔ آسام‘ نیلگری اور دارجیلنگ۔ نیلگری کا علاقہ انتہائی جنوب میں‘ تامل ناڈو کا حصہ ہے۔ دارجیلنگ بنگلہ دیش کے عین شمال میں‘ یعنی نیپال کے مشرق میں اور سکم کے جنوب میں واقع ہے یہاں کی چائے خاص اور خوشبو کے لیے مشہور ہے۔ آسام کا شہر سلہٹ سابق مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش میں ہے۔ یہاں بھی چائے کے باغات ہیں جو میں نے دیکھے ہیں اور یہیں پر چائے کے پودوں سے اوپر کی نرم پتیاں چننے والے اُن خاندانوں کو بھی دیکھا ہے جو نسل در نسل یہی کام کرتے آئے ہیں۔ پاکستان کے علاقے شنکیاری میں چائے اُگانے کی کوشش ہوئی مگر کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ معلوم نہیں کہ قصور زمین کا ہے یا اُس نااہلی کا جوہمارے ہاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں