ہم پاکستانی اس خبر کو شاید ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کر سکیں۔ اسرائیل کے صدر نے یو اے ای کاپہلا سرکاری دورہ کیا ہے۔ اس موقع پر اسرائیلی صدر نے متحدہ عرب امارات کی '' سکیورٹی‘‘ کی اہمیت پر زور دیا اور اس سلسلے میں اسرائیلی تائید کا بھی ذکر کیا۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے ہی یمن کے حوثی قبائل نے ابو ظہبی پر ڈرون حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ ایک گنجلک مسئلہ ہے۔ یمن‘ فی الحال‘ اس مسئلے کا گرم ترین نقطہ ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای ایک طرف اور ایران دوسری طرف ہے۔ اگر حوثی قبائل کے حملے یو اے ای پر جاری رہے تو یو اے ای کے مستقبل کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یو اے ای کا سب سے بڑا مثبت پہلو اس کا امن و امان ہی تو ہے۔ جبھی دنیا بھر کے ذہین اور محنتی لوگ یو اے ای کا رُخ کرتے ہیں۔ دبئی کی بے مثال ترقی کا راز ہی یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کی افرادی قوت یہاں آکر اس کی ترقی میں کردار ادا کر تی ہے۔ فرض کیجیے خدا نخواستہ ایسے حملے تواتر سے ہوتے ہیں اور زور پکڑتے ہیں‘ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ورکر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو یہ یو اے ای کے لیے بہت بڑا المیہ ہو گا۔ ایک بار ایسا ہو گیا تو اس کے مضر اثرات ایک طویل عرصہ تک یو اے ای کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بنے رہیں گے۔ یہ اس کے مستقبل کے لیے ایک بہت بڑی بد شگونی ہو گی۔
بقول فانی بدایونی ؎
دل کا اُجڑنا سہل سہی‘ بسنا سہل نہیں ظالم!
بستی بسنا کھیل نہیں‘ بستے بستے بستی ہے
مگر عرب ایران نزاع اور خطے کی صورت حال آج کا موضوع نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعہ سے ہم اپنے لیے کیا نتائج اخذ کر سکتے ہیں ؟
کوئی مانے یا نہ مانے‘ حقیقت یہ ہے کہ ہم پاکستانی بین الاقوامی تعلقات کو مذہب اور صرف مذہب کی عینک سے دیکھتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ان تعلقات کوملکی مفاد کی عینک سے دیکھا جاتا ہے! صرف اور صرف ملکی مفاد کی عینک سے! ہم ابھی تک اس خوش فہمی‘ یا غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ فلاں فلاں ملک سے ہمارا رشتہ اسلام کے مضبوط بندھن سے بندھا ہے اور فلاں سے ہمیں مذہبی بنیاد پر ہمیشہ کے لیے دور رہنا ہے۔ ہم ایسا پورے خلوص اور بے غرضی سے کرتے ہیں مگر یہ معیار باقی دنیا کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ جب یہ دونوں معیار باہم متصادم ہوتے ہیں تو ہم شدید ذہنی صدمے سے دوچار ہوتے ہیں۔ کرب کی یہ صورت حال قدرتی ہے۔ جب امیدوں کو آسمان تک لے جایا جائے تو ان کا زمین پر آگرنا اسی تناسب سے المناک ہوتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کو جب مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں بہت زیادہ پذیرائی ملتی ہے‘ ان ملکوں میں جب حکومتوں کی اشیر باد سے مندر تعمیر ہوتے ہیں‘ جب بھارتیوں کو تمغوں اور اعزازات سے نوازا جاتا ہے تو یہ سب کچھ ہمارے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے۔فرض کیجیے ہم ان ملکوں کے کسی شہری سے اس بات کا گلہ کریں تو اس کا رد عمل کیا ہو گا ؟ وہ لامحالہ ایک ہی سوال پوچھے گا کہ آپ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ ہم زمینی حقائق کو بھول جاتے ہیں اس لیے کہ جو اسباب و عوامل ہم اپنے ذہن میں لیے پھرتے ہیں‘ حقائق کی دنیا میں ان اسباب و عوامل کا وجود ہی کوئی نہیں! اول تو اسلام اتنا کمزور نہیں کہ ایک مندر کی تعمیر سے یا ایک بھارتی حکمران کو کوئی اعزاز دینے سے اسے نقصان پہنچ جائے۔ رہا یہ پہلو کہ وہ ہمارا دشمن ہے تو آپ اس کے ساتھ تعلقات کیوں بڑھا رہے ہیں تو یہ دلیل ہماری برادریوں اور خاندانوں میں تو چل سکتی ہے‘ بین الاقوامی امور میں نہیں چل سکتی! ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے۔ اس کی معیشت کا پھیلاؤ بڑا بھی ہے اور اس کی بنیادیں زیادہ گہری بھی ہیں۔اقتصادی حوالے سے مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو جو فائدہ بھارت پہنچا سکتا ہے پاکستان نہیں پہنچا سکتا! بھارت کا ان ملکوں کے ساتھ دو طرفہ بھاری سرمایہ کاری کا تعلق ہے جبکہ ہم اپنے غیر ترقیاتی اخراجات بھی مانگے تانگے سے پورے کر رہے ہیں! سائز میں چھوٹا تو ہمیں قدرت نے بنایا ہے مگر یہ بھی دیکھیے کہ ہم سے بھی زیادہ چھوٹے ملک ہم سے صدیوں آگے نکل گئے ہیں ! ہم جب اپنا ایئر پورٹ گیارہ بارہ سال میں بنائیں گے‘ ہم سے جب کسی ایک شہرمیں بھی انڈر گراؤنڈ ریلوے نہیں بن سکی‘ ہم جب اپنی ٹریفک کو راہ راست پر نہیں لا سکے تو دوسرے ملکوں کے لیے ہم کس طرح مفید ثابت ہو سکتے ہیں ؟
بین الاقوامی تعلقات میں مذہب کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ ترکی ایئر لائن کی ہر ہفتے درجنوں پروازیں تل ابیب آجا رہی ہیں۔وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اسرائیل اور بھارت کے سینکڑوں معاہدے تجارتی اور اقتصادی میدانوں میں بروئے کار آ رہے ہیں۔ یو اے ای کے علاوہ‘ بحرین‘ سوڈان اور مراکش بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں! آذربائیجان میں اکثریت شیعہ مکتب فکر کی پیرو کار ہے مگر آرمینیا کے ساتھ اس کی جنگ کے دوران ایران کی ہمدردیاں نصرانی آرمینیا کے ساتھ تھیں! سعودی عرب نے ہمیں جو حالیہ مدد دی ہے اس کی شرائط روح فرسا ہیں اور ان سے اجنبیت پوری پوری جھلک رہی ہے۔ ہم فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں مگر جس ملک میں حرمین شریفین واقع ہیں وہاں حال ہی میں فرانسیسی صدر کو بھرپور سرکاری پروٹو کول دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے کہ دونوں ملک‘ کسی تیسرے ملک کو سامانِ تجارت بھیجنے کے لیے ایک دوسرے کے زمینی اور سمندری راستے استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی معاہدے کی رُو سے بھارت میانمار (برما ) کو بنگلہ دیش کے راستے تجارتی مال بھیج سکتا ہے اور بھیج رہا ہے! ان ملکوں میں کوئی فتویٰ لگا نہ ان معاہدوں اور دوروں کے خلاف کسی مسلمان ملک میں کوئی احتجاج ہوا‘نہ کہیں گولی چلی جبکہ ہماری خارجہ پالیسی کے خدو خال کا فیصلہ سڑکوں پر نکلا ہوا ہجوم کرتا ہے یا خارجہ پالیسی کے خطوط اس ہجوم کے ڈر سے طے کیے جاتے ہیں!
معیشت اور سکیورٹی‘ یہ دو بنیادی عوامل ہیں جو آج کی دنیا میں کسی ملک کی خارجہ پالیسی کو طے کرتے ہیں۔مذہب‘ زبان‘ نسل‘ ثقافت‘ ہمسائیگی‘ مشترکہ تاریخ‘ سب ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہمارے سامنے قطر اور دوسرے عرب ملکوں کے درمیان دوریاں پروان چڑھیں اور ترکی قطر کے نزدیک ہوا۔ایرانیوں اور عربوں کا خدا ایک ہے‘ قران ایک ہے اور رسول ؐایک۔ قرأت کی بڑی بڑی کانفرنسیں ایران میں بھی منعقد ہوتی ہیں جن میں عرب قاری اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ عظیم الشان بندھن ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اس قابلِ فخر اشتراک کے باوجود خارجہ پالیسیوں اور تعلقات میں ان بندھنوں کا کوئی کردار نہیں۔ اسرائیلی صدر کے دورے پر اس کالم نگار سمیت ہم سب کو دھچکا لگا ہے؛ تاہم حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مزید دھچکوں کے لیے تیار رکھیں کہ بقول ظفر اقبال ؎
ہم اُس کے‘ وہ اور کسی کا‘ پکی پختہ ڈوری
اپنا دل‘ اپنا مذہب‘ کیا جھگڑا چوں چناں کا