خواب چکنا چور ہوگئے۔ امیدیں سراب نکلیں۔ بقول شہزاد احمد:
چوم لیں دیدۂ حیراں کو کہ آنکھیں پھوڑیں
چاند سمجھے تھے جسے، ابر کا ٹکڑا نکلا
پاکستان کشکول اٹھائے پوری دنیا سے بھیک مانگ رہا ہے؟ اپنے لیے؟ نہیں! افغانستان کے لیے! حالانکہ خود پاکستانی عوام مہنگائی اور بھوک تلے پِس رہے ہیں۔ کراہ رہے ہیں۔ کون سا افغانستان؟ وہی جہاں اب پاکستان کے دوست حکمران ہیں؟ ہاں وہی! جہاں سے پاکستان کی سرزمین پر اب بھی حملے ہورہے ہیں اور برابر ہورہے ہیں۔ مشیر قومی سلامتی نے قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سامنے 27 جنوری کو بیان دیا کہ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے۔ اسی روز وزیر داخلہ نے کہا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ کارروائیوں سے باز رہیں اور یہ کہ ان کی ہمارے ساتھ کمٹمنٹ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی‘ مگر چھ فروری کو پھر افغانستان سے حملہ ہوا۔ کرم کے علاقے میں پاک فوج کے پانچ جوان شہید ہوگئے۔ پاکستان نے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے پر شدید احتجاج کیا۔
اصل حقیقت (Bottom Line) کیا ہے؟ بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان ایک عجیب و غریب صورت حال سے دوچار ہے۔ پائے رفتن نہ جائے ماندن! توقع تھی کہ اشرف غنی کی بھارت نواز حکومت ختم ہوگی تو مغربی سرحد محفوظ ہوجائے گی‘ مگر حملے افغانستان سے پھر بھی ہورہے ہیں۔ پاکستانی جوانوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمارے عساکر شہید ہورہے ہیں‘ اور مسلسل شہید ہو رہے ہیں۔ وزیر داخلہ جب کہتے ہیں کہ 'افغان طالبان ٹی ٹی پی کو سمجھا رہے ہیں کہ وہ کارروائیوں سے باز رہیں‘ تو بیک وقت حیرت ہوتی ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے معاشرے میں، خاص طور پر دیہات میں، مرد بیوی کو زدوکوب کرتا تھا۔ بیوی کے میکے والے گلہ کرتے تھے تو مرد کے ماں باپ ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ کہہ دیتے تھے کہ سمجھا رہے ہیں بیٹے کو! اور سب کو معلوم ہوتا تھا کہ کوئی کسی کو نہیں سمجھا رہا! جن ماں باپ نے سمجھانا ہوتا ہے وہ سمجھا لیتے ہیں اور ایسا سمجھاتے ہیں کہ اس کے بعد لڑکے کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی! افغان طالبان کسی کو سمجھائیں اور وہ نہ سمجھے؟ ان کے سمجھانے کے بعد بھی حملے جاری رکھیں؟ ممکن ہی نہیں۔ کون کس کو بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے؟
پیچھے چلتے ہیں۔ تیس لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو تو چھوڑ ہی دیجیے۔ اب تو ان کی کئی نسلیں پاکستان کی چاندنی، دھوپ اور ہوا میں سرسبز و شاداب ہو چکی ہیں۔ صرف اُس جِدوجُہد کو دیکھیے جو طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان، افغانستان کے لیے کر رہا ہے۔ گزشتہ سال گیارہ نومبر کو پاکستان کی وفاقی کابینہ نے انتہائی فیاضانہ اقدامات کا اعلان کیا۔ افغانستان سے سیب کے سوا تمام درآمدات پر ٹیکس ختم کر دیے‘ چاول اور گندم کی امداد بھیجنے کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ افغانوں کی مدد کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تاکہ پاکستانی عوام براہ راست افغانستان کی مدد کر سکیں۔ صرف یہی نہیں، عالمی برادری سے بھی افغانستان کی مدد کے لیے اپیل کی۔ اس کے دو دن بعد، تیرہ نومبر کو، پاکستان نے سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے گندم، چاول سمیت دیگر غذائی اشیا، ہنگامی طبی سامان اور پناہ گاہ کی اشیا بھیجنے کا اعلان کیا۔ ٹرائیکا پلس کے خصوصی نمائندگان برائے افغانستان سے ملاقات میں پاکستانی وزیر اعظم نے افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی پر زور دیا۔ اس سے پہلے گیارہ ستمبر کو پاکستان نے روس، چین، ایران، ازبکستان، قازقستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے انٹیلی جنس کے سربراہوں کی میزبانی کی۔ یہ بے مثال کانفرنس صرف اور صرف افغانستان کی خاطر بلائی گئی۔ اس میں پاکستان کا موقف تھا کہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور اسے معاشی دیوالیہ پن سے بچایا جائے۔ پاکستان نے دواؤں کے لیے بھی ایک خطیر رقم بھجوائی۔
ان کوششوں اور قربانیوں کی تہہ میں پاکستان کا کوئی منفی مفاد نہیں تھا۔ نہ ہی صلے میں کچھ چاہیے تھا۔ یہ بے لوث خدمت تھی جو افغان بھائیوں کے لیے اس ملک نے کی اور اپنے غریب عوام کا پیٹ کاٹ کر کی۔ ہاں! قدرتی توقع تھی کہ پاکستان دشمن عناصر اب افغانستان کی کمین گاہوں میں نہیں رہ سکیں گے اور نکال باہر کر دیے جائیں گے مگر افسوس! صد افسوس! اس حوالے سے نئی افغان حکومت نے جو موقف اپنایا اور ظاہر کیا وہ نہ صرف انتہائی مایوس کُن بلکہ حیران کُن بھی تھا۔ سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا طالبان حکومت ان عناصر کو افغانستان سے نکالے گی؟ اس بارے میں آج تک افغان حکومت نے کوئی واضح بات نہیں کی۔ 29 اگست کو ایک پاکستانی اینکر کے سوال کے جواب میں طالبان کے ترجمان نے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان کا مسئلہ ہی نہیں، پاکستان کا ہے (حالانکہ حملے افغانستان سے ہو رہے ہیں) ایک اور بیان میں اسی ترجمان نے کہا کہ ہم پاکستان سے درخواست کریں گے کہ وہ ٹی ٹی پی کے مطالبات پر غور کرے۔ یہ گزشتہ دسمبر کی بات ہے! ٹی ٹی پی کے ایک سرکردہ لیڈر نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے دورے کے دوران ایک وڈیو میں دعویٰ کیا کہ ان کی تنظیم امارت اسلامی افغانستان کی ایک برانچ ہے اور پاکستان میں امارت اسلامی افغانستان کی چھتری کے نیچے کام کر رہی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان نے اس کی تردید کی مگر ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستانی طالبان افغان طالبان کے سربراہ کو اپنا سربراہ مانتے ہیں تو انہیں ان کی بات بھی ماننا ہوگی۔ اس بیان کے اندر جھانکیے! یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ اس سیاق و سباق میں پاکستان کا عدم اطمینان پاکستان کے وزیر خارجہ کے اُس انٹرویو میں پوری طرح جھلکتا ہے جو انہوں نے گزشتہ ستمبر کی سولہ تاریخ کو برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ کو دیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو ان خبروں پر تشویش تھی کہ طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کو جیلوں سے رہا کیا جا رہا ہے۔ اشرف غنی کو ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان نے مسلسل نشان دہی کی لیکن انہوں نے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان طالبان اپنی یقین دہانیوں پر کام کرتے ہیں یا نہیں!
پاکستان اگر عدم اطمینان کا اظہار، زیرِ لب ہی سہی، کر رہا ہے تو حق بجانب ہے! دنیا نیوز کا پروگرام تھنک ٹینک ملک کے ٹاپ کے اہلِ دانش پر مشتمل ہے۔ تین دن پہلے جو آرا اس موضوع پر ان اہل دانش نے دیں وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا (1) افغانستان سے ہماری ٹینشن رہے گی۔ (2) ٹی ٹی پی اور افغانستان طالبان کی سوچ ایک ہے۔ افغان طالبان چاہیں تو ٹی ٹی پی پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتی۔ (3) افغان پالیسی پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے۔ (4) ہمیں افغان سے باقاعدہ احتجاج کرنا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ ہماری خود مختاری چیلنج ہو رہی ہے۔ (5) ہماری افواج مسلسل قربانیاں پیش کر رہی ہیں (6) افغانستان سے ہمیں کبھی محبت نہیں ملی۔ جب پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا تو افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔