سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ میں شہر بھر میں جھاڑو دیتا پھرتا ہوں مگر اپنا گھر کوڑے کرکٹ سے بھرا ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ شہر بھر میں جھاڑو دوں گا تو ہیرو بن جاؤں گا۔ اخبارات میں تصویریں چھپیں گی۔ ٹیلیویژن چینلوں پر ستائش ہو گی۔ جدھر سے گزروں گا لوگ سلام کریں گے۔ نئی نسل آٹو گراف لے گی۔ کوئی ایوارڈ وغیرہ بھی مل جائے گا۔ اگر اپنے گھر اور اپنی گلی کو صاف کرتا رہوں گا تو پنجابی محاورے کی رُو سے موئے یعنی مُردے پوچھیں گے؟
میں معلّم بنا تو ساری دنیا میں علم کی روشنی پھیلاتا رہا۔ ملک ملک سے تشنگان علم کو اکٹھا کیا اور انہیں فیض سے سیراب کیا مگر اپنا گھر، اپنا محلہ، اپنا قریہ علم سے بے بہرہ ہی رہا۔ زرعی انقلاب کا پرچم لے کر نکلا تو ملک بھر میں ٹریکٹر پھیلا دیئے۔ تھریشر تقسیم کئے۔ بیج بانٹے۔ اپنی بستی کے کسان اسی طرح ہل چلاتے رہے جیسے سینکڑوں سال سے چلاتے آئے ہیں۔ اسی طرح چلچلاتی دھوپ میں درانتی سے گندم کاٹتے رہے جیسے ان کے اجداد کاٹتے تھے۔ ان کے لیے میرے پاس وقت ہی کہاں تھا۔ میں تو قومی سطح کا ہیرو بن رہا تھا۔ صنعت کار بنا تو بنگلہ دیش سے لے کر ویت نام تک کارخانے لگا دیے۔ جدہ میں، کبھی انگلستان میں، صنعتی یونٹوں کے معائنے کیے۔ ملائیشیا میں فیکٹریاں لگائیں۔ نہیں فائدہ ہوا تو میرے تجربے اور میری مہارت کا میرے اپنے علاقے کو نہیں فائدہ ہوا۔ صدی کا تین چوتھائی آزاد ہوئے گزر چکا۔ میں باجوڑ میں، مہمند میں، میرن شاہ میں، وزیرستان میں ایک کارخانہ نہ لگا سکا۔ بے بصیرت حکومتیں کوتاہ نظر پولیٹیکل ایجنٹوں کو پیسہ دیتی رہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ یہ پیسہ قبائلی ملک صاحبان اور خان صاحبان کو دیتے رہے۔ نوجوان کیا کرتے؟ زراعت نہ صنعت نہ تعلیم! بندوق اٹھائی اور دہشت گردوں سے جا ملے کہ ع
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!
میں مبلغ بنا تو ایک ایک ملک میں کئی بار گیا۔ چھ بر اعظموں میں تبلیغ کی۔ دنیا میری قوت تقریر پر اش اش کر اٹھی۔ بادشاہوں نے میری پذیرائیاں کیں۔ محلات میں ٹھہرایا۔ قومی ایوارڈ ملے۔ یو ٹیوب نے انعامات سے نوازا۔ چہار اطراف عالم میں میرا ڈنکا بجا‘ مگر میری عمر بھر کی ان کامرانیوں کا کیا فائدہ جب میری اپنی بستی سے چند فرسنگ کے فاصلے پر جہالت بال کھولے راج کرتی رہی‘ یہاں تک کہ لوگوں نے ایک ذہنی مریض کو درخت سے باندھ کر سنگسار کر دیا۔ پوری دنیا میں سلیبریٹی (Celebrity) بننے سے بہتر تھا کہ میں اپنے علاقے کے عوام پر محنت کرتا۔ انہیں وقت دیتا۔ ان پر اپنی صلاحیتیں خرچ کرتا تا کہ آج میری بستی کے لوگ، میرے اڑوس پڑوس کے مسلمان، مثالی مسلمان ہوتے اور وہ کچھ نہ کرتے جو ملک کے دوسرے حصوں میں ہوتا رہا ہے۔ کاش دنیا زیر کرنے کے بجائے میں اپنے علاقے میں صحیح معنوں میں ایک اسلامی معاشرہ قائم کرتا۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا اور اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہو گی کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکل سکا جو اس مظلوم کو بچانے کی کوشش کرتا جب کہ میں برداشت، رواداری، تحمل اور محبت کے وعظ نصف صدی سے کر رہا ہوں۔ میں یہ نہ جان سکا کہ اگر اپنے علاقے میں بیٹھ کر اپنے لوگوں پر کام کرتا، صحیح معنوں میں ایک مصلح اور ایک ریفارمر کا فرض ادا کرتا اور انہیں بدل کر رکھ دیتا، تب بھی، آخر کار، شہرت مل ہی جاتی اور ایوارڈ بھی! مگر آہ!
دامن خالی ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گرد طلب
عمرِ گریزاں! عمرِ گریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو
شہنشاہ اکبر کے لائق فائق مصاحب، ابوالفضل کے بھائی، فیضی، کو دکن میں سفیر مقرر کیا گیا۔ اس کی کامیابی کے جھنڈے گڑ گئے۔ فیضی شاعر، ادیب، محقق ہونے کے علاوہ نامور طبیب بھی تھا اور میڈیکل کالج کا پروفیسر بھی۔ دوران سفر پیچھے، گھر میں ماں کا انتقال ہو گیا۔ فیضی کی دنیا تاریک ہو گئی۔ اس نے ایک دلدوز مرثیہ لکھا جسے پڑھ کر دل لرز جاتا ہے اور کلیجہ پگھل جاتا ہے ''میں اپنے وقت کا بقراط اور جالینوس تھا مگر کیا فائدہ! ماں کا علاج تو کر نہ سکا۔ میرے نصیبوں کو آگ لگ جائے، ماں کے ایامِ مرض میں میں سفر میں رہا! کاش میں اپنے کاسۂ سر کو ماں کے لیے ہاون دستہ بنا لیتا، دل سے جڑی بوٹیاں نکال کر کھرل کرتا اور ماں کے لیے دوا تیار کرتا‘‘۔
کوئی ایک علاقہ، کوئی ایک ضلع، چلیے کوئی ایک تحصیل ہی ایسی ہوتی کہ ماڈل بن جاتی۔ وہاں کارخانے لگتے!! زراعت جدید ترین طریقوں سے کی جاتی ! خواندگی اور تعلیم کا معیار بلند ترین ہوتا! گھر، بازار، گلیاں، کوچے، سڑکیں صاف ستھری ہوتیں! روزگار کی شرح اطمینان بخش ہوتی! خوش حالی کا دور دورہ ہوتا! لوگوں میں دین اور دنیا‘ دونوں کی سمجھ ہوتی۔ کوئی کسی کو کنکر تک نہ مارتا! پھر اس مثالی تحصیل کے تجربے کو دوسری تحصیلوں، دوسرے اضلاع میں دہرایا جاتا! مگر افسوس! صد افسوس! ہم ایک چھوٹے سے گاؤں کو بھی مثالی نہ بنا سکے! اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان، جی ٹی روڈ کی بغل میں، ایک ماڈل ٹاؤن ''ہمک‘‘ کے نام سے بسایا گیا‘ جسے اسلام آباد کا حصہ قرار دیا گیا۔ اس ماڈل ٹاؤن کو کبھی جا کر دیکھیے۔ اگر ماڈل کا لفظ انسان ہوتا تو عدالت جا کر اپنی توہین کے خلاف مقدمہ دائر کر دیتا۔ ماڈل کے لفظ کی اتنی بے حرمتی کسی نے دیکھی ہو گی نہ کی ہو گی! صفائی عنقا ہے۔ کثافت کی حکمرانی جا بجا ہے۔ غیر قانونی دکانوں نے ماڈل ٹاؤن کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئیں۔ ٹرکوں کا غدر اس کے علاوہ! صنعتی زون اس ماڈل ٹاؤن کی پسلیوں میں گھسا ہوا ہے!
چلیے مان لیا۔ ایسی مثالی بستی یوٹوپیا ہے‘ مگر ہم کوشش تو کرتے۔ ہم تو دنیا اور دین دونوں لحاظ سے گھاٹے میں رہے۔ زراعت کا یہ حال ہے کہ چینی اور گندم درآمد کر رہے ہیں۔ خالص شہد اور دودھ نایاب ہے۔ صنعت میں بنگلہ دیش ہم سے کوسوں آگے نکل گیا۔ گورننس کا حال سب کے سامنے ہے‘ مگر سب سے زیادہ گھاٹا تو ہمیں دین کے معاملے میں ہوا۔ مدارس اور مساجد یہاں لا تعداد ہیں۔ حج کے بعد، مبینہ طور پر، سب سے بڑا اسلامی اجتماع، ہمارے ہاں منعقد ہوتا ہے۔ پیران عظام کے با برکت وجود بستی بستی موجود ہیں ‘ مگر سیالکوٹ کی فیکٹریوں سے لے کر خوبصورت خوشاب اور مشہورِ عالم تلمبہ تک خون کی ایک لکیر بہہ رہی ہے۔ سرخ سے سرخ تر ہوتی لکیر! کوئی غیر ملکی محفوظ ہے نہ ذہنی معذور! کبھی قتل کے بعد ہم روتے ہیں۔ آہ و بکا کرتے ہیں۔ کبھی قاتلوں کو ہیرو بناتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں‘ درست ہوا ہے۔ کبھی کہتے ہیں غلط ہوا ہے۔ بہنوں کے قاتل رہا ہو جاتے ہیں۔ بے گناہوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ کسی سے کوئی بات کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔ ماں باپ بچوں کی منت کرتے پھرتے ہیں کہ خدا کے لیے کالجوں، یونیورسٹیوں، دفتروں، محفلوں میں حساس موضوعات پر گفتگو نہ کرنا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں! ہمارا کیا ہو گا!!