جب سے ہوش سنبھالا ہے ‘ ہم اور آپ سن رہے ہیں‘ سنا رہے ہیں‘ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو حاضرین میں سے ایک نے اعتراض کیا کہ پہلے یہ بتائیے ایک چادر سے آپ کا کُرتا کیسے بن گیاکیونکہ حکومت کی طرف سے سب کو ایک ایک چادر ملی تھی اور ایک چادر میں تو آپ جیسے طویل القامت شخص کا کُرتا بن ہی نہیں سکتا! اس پر امیر المومنین کے بیٹے نے وضاحت پیش کی کہ انہوں نے والد گرامی کو اپنے حصے کی چادر دے دی تھی تا کہ ان کا کرتا بن جائے۔ اس وضاحت کے بعد ہی آپ خطبہ دے سکے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے ‘ ہم اور آپ سن رہے ہیں‘ سنا رہے ہیں‘ پڑھ رہے ہیں پڑھا رہے ہیں کہ امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی زرہ کھو گئی۔ آپ اُس وقت خلیفۂ وقت تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ نے دیکھا کہ آپ کی زرہ ایک یہودی پہنے ہوئے تھا۔ آپؓ نے اسے بتایا کہ یہ زرہ آپ کی ہے۔ اس نے اصرار کیا کہ اس کی اپنی ہے۔ معاملہ عدالت میں لے جایا گیا۔ آپؓ مسلمانوں کے حکمران تھے مگر ایک عام مدعی کی طرح عدالت میںپیش ہوئے۔ عدالت نے قانون کے مطابق دو گواہ طلب کئے۔ آپؓ نے اپنے غلام اور صاحبزادوں حسنین کریمین کو بطورِ گواہ پیش کیا۔ عدالت نے غلام کی گواہی تسلیم کی مگر کہا کہ بیٹے کی گواہی والد کے حق میں قبول نہیں کی جا سکتی۔ فیصلہ یہودی کے حق میں ہوا۔ امیر المومنین نے سربراہ مملکت ہونے کے باوجود اپنے خلاف عدالت کا فیصلہ قبول کیا۔
جب سے ہم نے اور آپ نے ہوش سنبھالا ہے کیا ایسا واقعہ دیکھا بھی ہے ؟ کیا پچپن مسلمان ملکوں میں ایسا واقعہ ہمارے زمانے میں بھی رونما ہوا ہے؟ کانوں نے تو بہت کچھ سنا ہے۔ کیا آنکھیں بھی کبھی فیض یاب ہوئیں ؟ چلئے‘ خلافتِ راشدہ کے خاتمے کے بعد تو بادشاہت نے ڈیرہ جما لیا۔ آمریت آگئی۔ حجاج بن یوسف کے سامنے جو سچ بولتا‘ اس کی گردن مار دی جاتی۔محمد بن قاسم کاکیا انجام ہوا ؟ اہل بیت کی کتنی ہی نسلیں سچ بولنے پر شہید کی جاتی رہیں۔ عباسی بادشاہوں نے امام ابو حنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے بلند مرتبت فقہا تک کو صدقِ مقال کے جرم میں خوفناک طریقوں سے اذیتیں دیں۔ سلاطینِ دہلی زندہ انسانوں کی کھالیں اترواتے رہے۔ قاضیٔ شہر کو سچ بولنے کے جرم میں مروا دیا گیا۔ مغل بادشاہ اونچائی سے گرا کر مروا دیتے۔ زبانیں کھینچ لی جاتیں۔ نسلیں ختم کر دی جاتیں۔ مگروہ زمانے جا چکے۔ اب تو جمہوریت کا زمانہ ہے۔ کیا آج کسی مسلمان ملک میں حکمران کے سامنے کھڑا ہو کر ‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی بات کر سکتا ہے؟ چلئے یہاں بھی ہم بادشاہت زدہ ملکوں کی بات نہیں کرتے۔ جمال خاشقجی کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے بھی چھوڑیے۔اُن مسلمان ملکوں کی بات کر لیتے ہیں جو جمہوری کہلاتے ہیں۔بھٹو صاحب کتنا سچ برداشت کرتے تھے؟ کتنوں کو تو مروا ہی دیا۔ دلائی کیمپ تاریخ کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ اور تحریک انصاف ‘ تین بڑی پارٹیوں کے اجلاسوں میں کتنے ارکان کھڑے ہو کر‘ لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بول سکتے ہیں ؟ پارٹیوں کے سربراہوں کو تو جانے دیجیے۔ان سربراہوں کے بیٹوں‘ بیٹیوں اور بیگمات کے حکم سے کون سرتابی کر سکتا ہے اور کون ان کی کہی ہوئی بات کو غلط قرار دے سکتا ہے؟ میڈیا آج کل جس آزادی سے لطف اندوز رہا ہے ‘ کھلا راز ہے۔ کل کی خبر ہے کہ ترکی میں ایک صحافی گونگر ارسلان کو گولی مار کر ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا کیونکہ وہ سرکاری کرپشن کی تفتیش کر رہا تھا۔پریس کی آزادی کے عالمی انڈیکس میں پہلی دس پوزیشنوں پر ناروے‘فن لینڈ‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ کوسٹا ریکا‘ نیدرلینڈز‘ جمیکا‘نیوزی لینڈ‘ پرتگال اور سوئٹزر لینڈ فائز ہیں۔ کویت کا نمبر ایک سو پانچ ‘ انڈونیشیا کا ایک سو تیرہ‘ مراکش کا ایک سو چھتیس‘ پاکستان کا ایک سو پینتالیس ‘ ترکی کا ایک سو تریپن‘ مصر کا ایک سو چھیاسٹھ‘ سعودی عرب کا ایک سو ستر ‘ اور ایران کا ایک سو چوہتر ہے!
یہ امتیازصرف غیر مسلم ملکوں کو حاصل ہے کہ کوئی بھی شخص حکمران کے سامنے بے دھڑک بات کر سکتا ہے۔ بقول فراق ؎
ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اٹھتا تھا
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں کے اوّلین دور میں کوئی بھی کر سکتا تھا۔ یہ تو کئی سال پہلے کا واقعہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون ہسپتال میں ایک مریض کی عیادت کو گیا۔ وہاں جو ڈاکٹر انچارج تھا‘ اس نے وزیر اعظم کو ڈانٹا اور قواعد پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے باہر نکال دیا۔ صدر کلنٹن کو کٹہرے میں کھڑا کر دینے والا مقدمہ بھی ماضی بعید کا حصہ بن چکا۔ ماضی قریب کا واقعہ سُن لیجیے۔ آسٹریلیا کا وزیر اعظم‘ سکاٹ ماریسن‘ دارالحکومت کی ایک نواحی بستی کا دورہ کر رہا تھا۔ ایک لان پر کھڑے ہو کر اس نے پریس کانفرنس شروع کی۔ رفقائے کار اور رپورٹر وغیرہ بھی ساتھ تھے۔ ایک دروازہ کھلا‘ایک شخص باہر نکلا اور چیخا ''Can everyone get off the grass, please? Come on- Hey guys, I've just reseeded that‘‘۔کیا تم لوگ گھاس کے اوپر سے ہٹوگے ؟ ارے بھئی! میں نے ابھی ابھی نئی گھاس لگائی ہے! وزیراعظم فوراً گھاس سے ہٹ گیا۔ دوسرے لوگوں کو بھی ہٹنے کا کہا۔ لان کے مالک نے کہا:Sorry! Mate!؛ یعنی سوری یار! اور پھر گھر کے اندر چلا گیا۔ یہ ذہن میں رکھئے کہ آسٹریلیا میں میٹ کا لفظ اسی طرح استعمال ہوتا ہے جس طرح ہم کسی کو یار یا بھئی کہہ دیں !
کوئی ایف آئی اے اس شخص کے پیچھے نہیں لگی۔ کسی نے اسے ہراساں نہیں کیا۔ کوئی جھوٹا مقدمہ اسے سبق سکھانے کے لیے نہیں بنایا گیا۔ برطانیہ اور آسٹریلیا کے وزرائے اعظم‘ خلفائے راشدین کے قدموں کی دھول بھی نہیں مگر سچ یہ ہے کہ واقعاتی مماثلت موجود ہے۔ بالکل موجود ہے۔ کُرتے پر اعتراض کرنے والے پر مقدمہ چلایا گیا نہ اسے ہراساں کیا گیا۔ سیدنا علیؓ نے ریاست کی طاقت استعمال کر کے زرہ واپس نہیں لی۔ وہ ایسا کرتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ سب جانتے تھے کہ امیر المومنین غلط دعویٰ نہیں کر سکتے‘ مگر آپ عدالت گئے‘ قانون کی راہ پر چلے۔ جج نے ان کے خلاف فیصلہ کیا تو جج کے خلاف ریفرنس کرنے کا سوچا تک نہیں ! اپنے ارد گرد دیکھئے ! غور سے دیکھئے! تحقیق کر لیجئے۔ ایسا مسلمان ملکوں میں نہیں ‘ دوسرے ملکوں میں ہورہا ہے۔ اور جو کچھ مسلمان ملکوں میں ہو رہا ہے اس سے بھی آپ بخوبی آگاہ ہیں !
لیکن اصل المیہ یہ نہیں کہ ایسا ہمارے ہاں نہیں ہو رہا۔ اصل المیہ یہ ہے کہ جب ہم فخر سے کُرتے اور زرہ والے واقعات سنتے اور سناتے ہیں تو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ آج کل حکمرانوں سے اس انداز کے سوال جواب کہاں ہو رہے ہیں ؟ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ حکمران کی جوابدہی کی یہ میراث اب ہمارے پاس نہیں ‘ کہیں اور ہے ! اور جہاں ہے وہاں مسلمان‘ گروہ در گروہ‘ انبوہ در انبوہ ہجرت کر کے جا رہے ہیں! یہ میراث کسی مسلمان ملک کے پاس ہوتی تو لوگ برطانیہ‘ امریکہ آسٹریلیا جانے کے بجائے اُدھر کا رُخ کرتے !