اقتصادیات کے پروفیسر نے سبق دیا تھا کہ ایک تو ماں بننے والی خاتون خوشخبری کو زیادہ دیر نہیں چھپا سکتی دوسرے، افراط زر نہیں چھپ سکتا‘ مگر تیسری بات بتانا پروفیسر صاحب بھول گئے۔ مالِ حرام نہیں چھپ سکتا۔ قدرت اس طرح اسے سامنے لاتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ہر تدبیر ناکام ہو جاتی ہے۔ ہر پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ جو طاقت زمین کے نیچے، بیج کو پھاڑ کر پودے کی صورت باہر نکال سکتی ہے اور ایک بیج کے بدلے اس پر سینکڑوں پھل لگا سکتی ہے وہ طاقت مالِ حرام کے اوپر پڑے ہوئے پردے کیوں نہیں تار تار کر سکتی؟
کیسے کیسے لوگ ہم پر مسلط کیے گئے! پھر ان کے جانے کے بعد ان کی ذریت!! کیسے کیسے خطاب دیے گئے۔ کیسے کیسے افراد کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا! ایک پوری نسل بھینٹ چڑھا دی گئی۔ سادہ لوح لوگوں کے جذباتی بچوں کو قربان کیا جاتا رہا۔ دوسری طرف اپنے بچوں کو سونے میں تولا جاتا رہا۔ کوئی بزنس میں پھلتا پھولتا رہا۔ کوئی بحر اوقیانوس کے اُس پار ڈگریاں لیتا رہا۔ ڈگریاں جن کا عام شہری کا بچہ خواب ہی دیکھ سکتا ہے! سرکاری ملازم تو بہت تھے‘ مگر چند تھے جو ملازمت ملازمت کھیلتے، خزانوں کے مالک بن گئے۔ پھر ملازمت کے بیج سے حکمرانی کا شجر پھوٹا۔ گھنا سایہ دار شجر! میووں سے لدا پھندا شجر! مگر قدرت کا ہاتھ نمودار ہوتا ہے اور ایک ہی وار سے شجر اکھڑ جاتا ہے! تنے سے نہیں! جڑوں سے!! خوش بخت اس سے عبرت پکڑتے ہیں! تائب ہوتے ہیں۔ جن کے دلوں پر پردے پڑے ہوتے ہیں وہ اپنی ڈگر پر ہی رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھڑکی سے موت کا پرندہ داخل ہوتا ہے اور جسم لے کر، دروازے سے باہر نکل جاتا ہے!
کون سا دھوکہ ہے جو اس سادہ دل، مفلوک الحال، قلاش قوم نے نہیں کھایا۔ بھٹو صاحب جیسا شخص سب کچھ کر سکتا تھا۔ جینئس! اعلیٰ تعلیم یافتہ! تقریر اور تحریر پر کمال کی قدرت رکھنے والا! چاہتا تو اس ملک کو سنگا پور بنا دیتا! مگر قوم کی تیرہ بختی کہ آخر کار فیوڈل ثابت ہوئے۔ بادشاہ بن گئے۔ پھر مرد مومن مرد حق نے اسلام کا نعرہ لگایا۔ پلٹ کر دیکھتے ہیں تو سب کچھ تھا، صرف اسلام ہی نہیں تھا۔ وہی عہدِ ہمایونی تھا جس میں ثروت مندوں کی ایک نئی نسل قوم کو تحفے میں دی گئی۔ آج، اتنے برسوں بعد، زمین راز اگل رہی ہے۔ مالک الملک اس بات پر قادر ہے کہ قیامت سے پہلے بھی قیامت کی جھلک دکھا دے۔ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَـہَا - وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَـہَا- یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا-بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَـہَا۔ ''اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہو گیا۔ اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔ اس لیے کہ آپ کا رب اسے حکم دے گا!‘‘
ایک بات طے ہے۔ پتھر پر لکیر کی طرح! جو اس ملک کو دھوکا دے گا آخر کار خائب و خاسر ہو گا۔ جلد یا بدیر، اس کا چہرہ بے نقاب ہو کر رہے گا۔ مگر اصل سوال اور ہے۔ اور وہ یہ کہ کوئی عبرت پکڑتا ہے یا نہیں! بد بختی کا یہ عالم ہے کہ کوئی عبرت پکڑنے کو تیار نہیں۔ شہزادی کو دیکھیے! دعوے غریبوں کی محبت کے! مگر رعونت کا یہ عالم کہ ایک عام خاتون کا ساتھ چلنا بھی گوارا نہیں۔ ہاتھ سے اسے اس طرح رد کرتی ہے جیسے وہ انسان نہ ہو کیڑا ہو! اور یہ تو شیدائی عورت تھی! کیا ہوتا اگر ایک لمحہ رک کر اس کے ساتھ تصویر بنوا لی جاتی؟ دوسری طرف دیکھیے! اِسی زمانے میں، اِسی دنیا میں ایسے ملک بھی ہیں جہاں کے صدر عام کنبوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ کہیں ملکہ خود بازار سے سبزی خریدتی ہے۔ کہیں ملک کا سربراہ برگر خریدنے کے لیے قطار میں کھڑا ہے۔ کہیں وزیر اعظم ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کر رہا ہے۔ کہیں کوئی حکمران اپنی بیوی کے لیے سیکنڈ ہینڈ کار خرید رہا ہے اور پھر اس کار کا ٹیکس ادا کرنے کے لیے کھڑکی کے سامنے کھڑا ہے۔ ہمارے یہاں حکمران خاندانوں کی نئی نسل، جو پیدائشی ارب پتی ہے، عام انسان کو آج کے دور میں بھی کمتر اور اچھوت گردانتی ہے۔ یہ سب آخر میں شکست کھائیں گے۔ بے نقاب ہو کر رہیں گے۔ قدرت کی بے آواز لاٹھی اپنا کام کرتی رہے گی۔ پردے اٹھتے رہیں گے۔ لُوٹ کھسوٹ کا مال ظاہر ہوتا رہے گا۔ نام نہاد عزتیں تار تار ہوتی رہیں گی۔ سوشل میڈیا بھی خدا کی لاٹھی ہی ہے۔ قدرت جیسے راز افشا کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے زمانے کا انتظار ہی تو کر رہی تھی۔ خلق خدا پھَٹ پڑی ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کو زبان دے دی ہے۔ جن تخت نشینوں کے بارے میں لوگ بات کرتے ہوئے خوف سے کانپتے تھے، آج عوام کے نشانوں کی زد پر ہیں۔ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ! ''اور ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے ہیں‘‘۔ عزتِ نفس کی کوئی رمق باقی ہو تو زندگی بھر منہ چھپاتے پھریں!
نام اہل علم و دانش ہی کا احترام سے لیا جاتا رہے گا۔ حسنی مبارک، چاؤ شیسکو، رضا شاہ پہلوی، اور ہر زمانے کے فراعنہ اور نماردہ! کون ان کا نام عزت سے لیتا ہے؟ عید کے دن نانِ شعیر کھانے والے امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ اربوں دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر تناول کرنے والے صوفیا کے مرقد، جن کا ترکہ مٹی کے برتنوں اور چٹائی کے سوا کچھ نہ تھا، زائرین کی دعاؤں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ اقبال کی زندگی میں جھانکنا ہو تو ان کے خطوط پڑھیے۔ صوفوں کا کپڑا بدلنے کی مالی استطاعت نہ تھی مگر مسجدوں کے اماموں سے لے کر ہَیٹ پوشوں اور سگار نوشوں تک سب انہیں پڑھتے ہیں۔ کروڑوں ہیں جنہیں ان کا کلام ازبر ہے۔ دعا مانگی: 'مرقدی در سایۂ دیوار بخش‘ کہ دیوار کے سائے میں مرقد ہو۔ دعا قبول ہوئی۔ ذرا سے فاصلے پر ایک گردن بلند جاہ طلب حکمران کی قبر ہے۔ کتنے لوگ وہاں جاتے ہیں؟ اللہ کے بندو! یہی تو نشانیاں ہیں جو قدرت دکھاتی ہے! دیکھو اور سمجھنے کی کوشش کرو! قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے غالب کا دیوان آج ایک سو ترپن سال بعد بھی بیسٹ سیلر ہے! زندگی بھر حرام کے لقمے سے بچنے والے قائد اعظم آج دنیا بھر میں مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ آج تک کوئی خفیہ اکاؤنٹ ظاہر نہیں ہوا۔ کیا عزت اور کیا مقام ہے جو اللہ نے دلوں میں دیا اور تاریخ میں بھی۔ دشمن بھی کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ سر سید احمد خان کو دیکھیے۔ زندگی بھر روکھی سوکھی کھائی۔ گھر کا اثاثہ بیچ کر ولایت گئے۔ اپنے مقدس نانا پر لگے ہوئے الزامات کا جواب دیا۔ زندگی مسلمانوں کی خدمت میں گزار دی۔ ایک ہی دُھن کہ ہندوؤں سے پیچھے رہ کر ان کے غلام نہ بن جائیں! انتقال کو ایک سو چوبیس سال ہو رہے ہیں! کوئی خفیہ اثاثہ آج تک نہیں ظاہر ہوا! دادا کے بعد پوتے کو خدا نے کیا مقام دیا۔ سید راس مسعود کی زندگی بھر اقبال سے دوستی رہی۔ اقبال اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان، وہاں کی حکومت کی دعوت پر گئے اور ماہر تعلیم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا۔
صدیوں کا آزمودہ مقولہ ہے۔ ہر کرا این دہند آن نہ دہند۔ دونوں میں سے ایک ہی شے ملتی ہے۔ عزت یا مال و دولت۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ دونوں نصیب ہوں!!