آج یوکرین میں ماتم کی ایک نہیں، دو صفیں بچھی ہیں۔ ایک صف موجودہ جنگ اور اس کی لائی ہوئی تباہی کی اور دوسری اُس پچھتاوے کی جو ایٹمی ہتھیار روس کو دے دینے کے نتیجے میں اس ملک کے ہر باشندے کو اندر سے کھائے جا رہا ہے۔ یوکرین کفِ افسوس مل رہا ہے۔ اس لیے کہ اس نے امریکہ اور برطانیہ کی گارنٹی پر یقین کیا اور ایٹمی ہتھیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یوکرین کے سابق وزیر دفاع، اینڈری ظہورُد نیوک نے جو کچھ کہا، بہت سے ملکوں کے لیے عبرت کا سبق ہے۔ ہم نے اپنی قابلیت خود ضائع کر دی‘ اب جب بھی ہمیں کوئی کہے گا کہ اس کاغذ پر دستخط کرو، ہم کہیں گے بہت شکریہ! ہم بھگت چکے ہیں۔ چھوٹے ملکوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایٹمی حملے کی روک تھام (Detterrent) سے محروم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی موت کے پروانے پر خود دستخط کر دیے جائیں۔
لیبیا ایک اور مثال ہے کہ مغربی ممالک کس طرح جھوٹ بولتے ہیں اور کس بے حیائی اور بے شرمی سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ 2003 میں معمر قذافی نے یک طرفہ اعلان کیا کہ لیبیا اپنا ایٹمی پروگرام اور کیمیائی ہتھیاروں کا سلسلہ ختم کر رہا ہے تاکہ مغرب سے تعلقات نارمل ہو جائیں۔
مغرب نے بظاہر اسے خوش آمدید کہا اور تعلقات بڑھائے‘ مگر 2011 میں عرب بہار آ گئی۔ قذافی نے دیکھا کہ اسے خوش آمدید کہنے والے اس کے مخالفین کو مسلح کر رہے ہیں۔ قذافی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار چکا تھا۔ اس کی موت پر اسی مغرب نے خوشیاں منائیں۔ سب سے زیادہ قابلِ غور بیان شمالی کوریا نے اس موقع پر دیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ شمالی کوریا نے مغربی ملکوں کی ہزار کوششوں کے باوجود اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم نہیں کیا۔ جب لیبیا پر بمباری ہو رہی تھی، عین اس وقت شمالی کوریا نے کہا کہ لیبیا کا بحران بین الاقوامی برادری کو ایک سنگین سبق دے رہا ہے‘ ہتھیاروں سے ہاتھ دھونے والے معاہدے کا مطلب ہے کہ آپ کو غیرمسلح کیا جا رہا ہے تاکہ آپ پر حملہ کیا جائے۔ گویا تباہی کے تین مرحلے ہیں۔ تین یقینی مرحلے! پہلا مرحلہ یہ ہے کہ حفاظت کی گارنٹی دے کر ہتھیار لے لو۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وعدہ توڑ دو۔ تیسرا اور آخری مرحلہ یہ ہے کہ حملہ کر دو اور اس بے وقوف ملک کو اپنا باجگزار بنا لو!
2015 میں پوتن نے پہلی بار سابق سوویت یونین کی حدود سے باہر اپنی جارحیت دکھائی۔ شام کے آمر بشارالاسد کی مدد کو آکر اس نے اپنے ہتھیار اور اپنی عسکری قابلیت آزمائی۔ روسی جہازوں نے شام کے ہسپتالوں، سکولوں اور بازاروں پر اندھا دھند بمباری کی۔ گزشتہ سات سال سے شام عملاً روس کی ذیلی ریاست بنا ہوا ہے۔ پہلے جارجیا، پھر کریمیا، اور پھر شام میں کامیاب مداخلت کے بعد روس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ روس جانتا ہے کہ امریکہ ابھی اُن زخموں کو چاٹ رہا ہے جو اس نے افغانستان میں کھائے۔ یورپ اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ چین کے ساتھ روس کا براہ راست مقابلہ نہیں۔ یوں اس کے لیے میدان کھلا ہے۔ یوکرین کے معاملے میں امریکہ نے جس طرح بزدلی ( یا منافقت) دکھائی اس کے بعد روس کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔ دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ یوکرین پر فوج کشی، روس کی آخری فوج کشی نہیں۔ الزام تو اردوان پر لگتا ہے کہ وہ عہدِ عثمانیہ واپس لانا چاہتا ہے مگر مغرب کو یہ نہیں نظر آرہا کہ پوتن کا روس ایک بار پھر سوویت یونین کا ماڈل اپنانے کی تیاری میں ہے۔
پاکستان کے جو حلقے اس کے نیوکلیئر پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں اور اسکے ایٹمی پروگرام پر معترض رہتے ہیں، کیا یوکرین کا انجام دیکھ کر بھی اپنے موقف پر قائم رہیں گے؟ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا کوئی علاج نہیں۔ ورنہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کے دامن میں ایٹمی حملے کی روک تھام کے اسباب (detterrence) نہ ہوتے تو بھارت نے اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا تھا جو آج روس یوکرین سے کر رہا ہے۔ یہ جو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو تو اس سے یہی مراد ہے۔ جب معلوم ہو کہ مد مقابل کی تلوار اٹھے گی تو اپنی تلوار کو پھینک دینا خود کشی ہی نہیں، پرلے درجے کی حماقت بھی ہے۔ یوکرین کا حشر دیکھ کر چھوٹے ملک آئندہ اپنے پاؤں پر کم ہی کلہاڑی ماریں گے۔
یوکرین پر واضح جارحیت کے بعد دنیا میں یک قطبی (unipolar) نظام کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے پوری دنیا کی چوہدراہٹ کا تاج اپنے سر پر رکھ لیا تھا۔ اس کا کوئی مد مقابل نہیں رہا تھا۔ روس پر وہ وقت بہت برا تھا۔ اس کی حالت وہی ہو گئی تھی جو آج کل جنوبی افریقہ کی ہے۔ گلی کوچوں میں لوٹ مار ہونے لگی تھی۔ چھروں سے پیٹ پھاڑے جا رہے تھے۔ بدامنی کا دور دورہ تھا۔ پوتن آیا تو اس نے حالات کو بدلنے کی ٹھانی۔ آج روس ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ یوں کہ امریکہ سمیت کوئی بھی اس کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کررہا۔ دنیا پھر دو قطبی (Bipolar) نظام میں بٹ گئی ہے۔ امریکہ کی اجارہ داری شکست کھا چکی! کل کو اگر روس جارجیا پر یا قازقستان پر یا کسی اور ملک پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ کا رد عمل ویسا ہی بزدلانہ اور کھوکھلا ہو گا جو یوکرین نے آزمایا ہے۔ اب دوسرے ملکوں پر پوتن کو سوویت یونین جیسا قبضہ نہیں چاہیے، اسے صرف ذیلی ریاستیں در کار ہیں جو اس کے اشارۂ ابرو پر ناچیں۔ جیسے بیلاروس ناچا ہے۔ روس کی برّی فوج بیلا روس کے راستے یوکرین میں داخل ہوئی۔ بیلا روس انکار کرتا تو اس کا حشر وہی ہونا تھا جو یوکرین کا ہوا۔ سچ یہ ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں پر بھی روس کا اثر بہت زیادہ ہے۔ کسی میں ہمت نہیں کہ روس کی خواہشات کے آگے بند باندھے۔ امریکہ کی مونچھ جو سوا نو بجا رہی تھی‘ اب ساڑھے چھ بجا رہی ہے۔
اگر امریکہ اور برطانیہ یوکرین جیسے ملک کو دھوکہ دے سکتے ہیں تو ایشیائی اور افریقی ممالک کس کھیت کی مولی ہیں؟ یوکرین تو امریکہ اور برطانیہ کا ہم مذہب ہے! ہم رنگ بھی! طرز زندگی بھی ایک جیسا ہے۔ وہی تہذیب! وہی فلسفۂ زندگی ! زرد فام، سیاہ فام اور گندمی رنگ رکھنے والے، جو غیر عیسائی بھی ہیں، امریکہ پر کیسے اعتبار کر سکتے ہیں؟ کوئی مانے یا نہ مانے، پہلی بات اور آخری بات ایک ہی ہے! اپنا بازو مضبوط ہونا چاہیے! جو دوسروں پر تکیہ کرے گا، مارا جائے گا۔ امریکہ مشرق وسطیٰ کے کچھ ملکوں کا اگر سرپرست (بظاہر دوست) بنا ہوا ہے تو ان ملکوں کی خارجہ اور اقتصادی پالیسیاں بھی امریکہ کی مرضی سے تشکیل پاتی ہیں۔ ایک بار پھر شمالی کوریا یاد آرہا ہے۔ آمریت ہے یا وہاں فسطائیت، یہ ایک اور معاملہ ہے۔ ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام، اسے بچائے جا رہا ہے۔ ورنہ نقشہ دیکھیے تو اس کا سائز ذرا سا ہے! ایک چھوٹی سی مچھلی! اور ویل جتنا یوکرین خون میں لت پت پڑا سسک رہا ہے! کراہ رہا ہے! جرمِ ضعیفی کی سزا بھگت رہا ہے۔ اس میں عبرت کا سامان ہے مگر اُن کے لیے جو آنکھیں رکھتے ہیں! ہاں جو اندھے ہیں، انہیں سورج بھی کچھ نہیں دکھا سکتا! ہماری کیا حیثیت ہے! (ختم)