ملک اکرم اور چوہدری نصیر کی تیس سالہ دوستی ختم ہو چکی ہے !
کوئی جائداد کا جھگڑا نہیں تھا۔ کھیتوں کے درمیان کوئی مشترکہ پگڈنڈی نہیں تھی۔ ایک کے صحن میں دوسرے کی چھت کا پرنالہ پانی نہیں گراتا تھا۔ کوئی رشتہ مانگنے یا انکار کرنے کا مسئلہ نہیں تھا۔ کوئی افسر ماتحت یا کرایہ دار اور مالک مکان کا قصہ نہیں تھا۔ پلاٹ پر راتوں رات قبضہ کرنے کا ایشو بھی نہیں تھا۔ ہوا یہ تھا کہ تیس سالہ پرانے دوست آپس میں سیاسی بحث کر رہے تھے‘ایک مسلم لیگ نون کا حامی تھا‘ دوسرا تحریک انصاف کا ! بحث بڑھتے بڑھتے جھگڑے میں تبدیل ہونے لگی۔ ایک للکارا کہ تم نے میاں صاحب کے بارے میں اس طرح کی بات کیوں کی؟ دوسرا چیخا کہ خان صاحب کے متعلق ایسی ویسی غلط بات کی تو چھوڑوں گا نہیں۔ مناظرہ مجادلے کی صورت اختیار کر گیا۔ معاملہ گالی گلوچ تک پہنچ گیا۔ قریب تھا کہ دونوں ایک دوسرے کا گریبان پکڑتے ‘ محفل میں موجود ایک صاحب نے دونوں کو بٹھا یا مگر ملک اکرم اٹھ کر چلا گیا۔ جاتے ہوئے کہہ گیا کہ اس شخص سے کبھی بات نہیں کرے گا۔ وہ دن اور آج کا دن ‘ دونوں میں قطع کلامی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھگڑے کا علم میاں صاحب کو ہے نہ خان صاحب کو۔ جس نے میاں صاحب کی محبت میں تیس سالہ دوستی کا گلا گھونٹ دیا وہ میاں صاحب سے ملاقات تو کیا‘ بات تک نہیں کر سکتا۔ میاں صاحب کی قیام گاہ کے نزدیک بھی اسے کوئی پھٹکنے نہ دے! جو خان صاحب کی حمایت میں تیس سالہ پرانے دوست کو چھوڑ رہا تھا اسے خان صاحب جانتے تک نہیں! امکان کم ہی ہے کہ وہ انہیں مل بھی پائے یا ہاتھ ملا سکے۔
یہ کسی گاؤں کی بات نہیں۔ گاؤں میں تو خیر ‘ پوری برادری ہی سے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں ! یہ حکایت تو شہر کی ہے۔ اور یہ ایک گھر کی نہیں ‘ کئی گھروں کی سرگزشت ہے۔ ہم لوگوں میں دو بیماریاں عام ہیں‘ ایک تو سیاست پر گفتگو ضرور کرنی ہے۔ ہر شخص تجزیہ کار ہے ‘ اپنے خیال میں اتھارٹی ہے اور اس کاکہا حرفِ آخر ہے۔ کسی رشتہ دار کے ہاں جائیں یا کسی دوست کے ساتھ کسی ریستوران میں چائے کی پیالی پینے بیٹھ جائیں ‘ شادی کی کوئی تقریب ہو یا کہیں کوئی دعوت ہو‘ سیاست پر گفتگو ضرور ہو گی۔ یہ گفتگو کچھ ہی دیر میں دھواں دھار بحث میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آوازیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ منہ سے جھاگ نکلنے لگتی ہے‘ گلے کی رگیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ایسی بحثوں کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔کوئی فریق بھی اپنا موقف تبدیل نہیں کرتا۔موقف‘ دلیل کی بنیاد پر ‘ وہاں تبدیل ہوتے ہیں جہاں شخصیات پر نہیں‘ نظریات پر گفتگو ہو۔ جہاں ذاتی وفاداریوں کا معاملہ ہو‘وہاں کوئی دلیل کام نہیں کرتی۔
چند روز پہلے پوری دنیا نے وہ وڈیو کلپ دیکھا ہے جس میں مریم نواز اپنی ایک پرستار خاتون سے بیزاری کا اظہار کر رہی ہیں اور اشارہ کر رہی ہیں کہ اسے پرے کیا جائے۔ اس پرستار خاتون نے بھی نہ جانے کتنے لوگوں سے مریم نواز کی خاطر بحث کی ہو گی‘ جھگڑا کیا ہو گا اور اپنے احباب اور رشتہ داروں کو ناراض کیا ہو گا۔ لوگ فیس بک پر ایک دوسرے کو بلاک کر دیتے ہیں یعنی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں رہتے۔کن کی خاطر ؟ جو انہیں اپنے ساتھ چلنے تک نہیں دیتے۔جو نزدیک تک نہیں آنے دیتے۔جنہیں ذاتی پہریدار پیٹ ڈالتے ہیں
تم بھلا کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
وجہ اس اندھی وابستگی کی شاید یہ ہے کہ غلامی ہماری سرشت میں اس طرح داخل ہو چکی ہے کہ نکلنے کا نام نہیں لے رہی۔ آٹھ سو سال بادشاہوں اور شہزادوں کی خاطر جانیں قربان کرتے رہے۔تغلقوں‘ خلجیوں ‘ لودھیوں‘ سوریوں اور مغلوں کے لیے جنگیں لڑتے رہے‘ خون بہاتے رہے‘ ہاتھ باندھ کر درباروں میں کھڑے رہے ‘ فرش چومتے رہے‘ سجدے تک کیے۔ دوسروں کا تخت و تاج بچانے کے لیے خاندان تک لٹاتے رہے۔رہی سہی کسر انگریزوں نے پوری کرا دی۔ یس سر کا کلچر ایسا ہماری رگوں میں اترا کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہا۔ ہم نے دستاریں اور اچکنیں پہنیں اور ان کے چوبدار ‘ بٹلر اور ویٹر بن گئے۔ بادشاہ جیسے بھی تھے ‘۔ رنگ‘ نسل اور زبان ان کی وہی تھی جو ہماری تھی۔ انگریز تو ہمارے رنگ اور ہماری نسل تک سے نفرت کرتے تھے۔مگر ان کے لیے ہم اپنے لوگوں کی بٹالینوں کی بٹالینیں موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔ اپنوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر تمغے‘ خطابات اور جائدادیں انعام میں حاصل کرتے رہے۔ یہ بادشاہ پرستی اور انگریز پرستی ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیّت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
اب ہمارے بادشاہ اور ہمارے صاحب بہادر کون ہیں ؟ زرداری‘ شریف‘ چوہدری اور خان! اب ہم ان کے لیے قتل نہیں کرتے نہ ہوتے ہیں مگر ان کی خاطر اپنے احباب‘ اعزّہ و اقارب یہاں تک کہ خونی رشتہ داروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ تعلق تک توڑ دیتے ہیں۔ اکبر بچہ تھا۔ بیرم خان جیسا مدبر‘ منتظم اور سپہ سالار اور کئی دوسرے سفید ریش عمائدین اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے۔ آج بھی وہی حال ہے۔ جن سیاست دانوں کی ساری عمریں سیاست کے خارزاروں میں ننگے پاؤں چلتے گزریں اور جن کے سر اور بھویں سفید ہیں ‘ وہ کل کے بچوں کی موروثی امارت کے ماتحت ہیں۔
سیاست کے بعد جس موضوع پر سب سے زیادہ بحثیں ہوتی ہیں‘ وہ مذہب بلکہ مسلک ہے۔ ادائیں ہماری ان بحثوں میں بھی وہی ہیں‘ پہلے گفتگو‘ پھر بحث‘ پھر مجادلہ! آخر میں تلخی‘ رنجیدگی اور تعلقات کی کشیدگی !
ان کج بحثیوں کی ایک بڑی وجہ وہ حشر ہے جو یوٹیوب پر برپا ہے۔ یوں لگتا ہے کفار کی اس ایجاد کو مالِ غنیمت کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔اختلافی مسائل جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں‘ انہی کو موضوع بنا یا جاتا ہے۔ اشتعال پھیلایا جاتا ہے۔ چیلنج دیے جاتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ تمام مسالک کے ثقہ علما فرقہ واریت کے خلاف ہیں اور ہمیشہ اتحاد و اتفاق کی تلقین کرتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ یہاں نیم عالم بہت ہیں۔ پھر‘ عوام کا ایک اچھا خاصا حصہ چسکے لینے کی خاطر فرقہ وارانہ تقریریں سننا پسند کرتا ہے اور اسے تفریح سمجھ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر تو کھلی چھٹی ہے ہی‘ الیکٹرانک میڈیا پر بھی کچھ حضرات ایسی بحثیں کراتے پھرتے ہیں جو ازحد افسوسناک ہے۔ اس سے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ متعلقہ اداروں کو فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز مواد پر گرفت کرنی چاہیے اور ایسا مواد پھیلانے والوں کا محاسبہ کر نا چاہیے مگر لگتا ہے متعلقہ اداروں کی ترجیحات اور ہیں۔ سوشل میڈیا پر آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ لاحاصل مسائل پھیلا کر ملکی اتحاد میں شگاف ڈالے جائیں۔
آخر ایسا کون سا طریقہ ہے کہ ہم بحث کرتے وقت تہذیب کے دائرے میں رہیں۔ آواز اونچی نہ کریں‘ ذاتی حملے نہ کریں ‘ بحث کو جھگڑے تک نہ لے جائیں اور سماجی تعلقات کو متاثر نہ ہونے دیں۔ آخر مہذب قوموں میں بھی تو بحث کرنے کا رواج ہے۔ مذہب یوں بھی مخلوق اور خالق کے درمیان رشتہ قائم کرتا ہے۔ کیا اس پر بحث ضروری ہے ؟