آسٹریلیا سے بھارت جانا ہو تو بھارتی ایئر لائن کا ہوائی جہاز، براہ راست، کہیں رُکے بغیر، آسٹریلیا سے بھارت جاتا ہے۔ یہ بارہ تیرہ گھنٹے کی مسافت ہے۔ اگر آسٹریلیا سے پاکستان جانا ہو تو مزے ہی مزے ہیں۔ آپ ہوائی اڈے پر جا کر، اطلاعات والوں سے پوچھتے ہیں کہ پاکستان ایئر لائن کا جہاز پاکستان کے لیے کس وقت اُڑتا ہے؟ اطلاعات والا آپ کو غور سے دیکھتا ہے‘ پھر مسکراتا ہے‘ پھر اچانک اس کے چہرے پر کرب کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے‘ وہ رو پڑے گا۔ پھر وہ اپنے آپ کو مجتمع کرتا ہے‘ اور جوابی سوال داغتا ہے کہ کیا پاکستان کی کوئی ایئر لائن ہے؟ آپ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہے! بالکل ہے! یہ پاکستانی ایئر لائن ہی تو تھی جس نے فلاں‘ فلاں اور فلاں ایئر لائنوں کو اُڑنا سکھایا۔ یہ ایئر لائنیں آج دنیا کی چوٹی کی ایئر لائنوں میں شمار ہوتی ہیں۔ اب کے اطلاعات والے کے چہرے پر آپ کے لیے رحم کے جذبات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ کہتا ہے: یہ بات مجھے ہر پاکستانی بتاتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ پاکستان کی ایئر لائن، ان بڑی بڑی ایئر لائنوں کو اُڑنا سکھانے کے بعد خود اُڑنا کیوں بھول گئی ہے؟
غیرتِ ملّی کی یہ مناسب خوراک کھانے کے بعد اب آپ کے پاس پاکستان جانے کے لیے آپشن کیا کیا ہیں؟ آپ کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ مشرق وسطیٰ کی تین ایئر لائنوں میں سے کسی ایک پر سفر کریں۔ یہ پندرہ گھنٹے کی نان سٹاپ پرواز ہو گی! پندرہ گھنٹوں کے بعد جہاز آپ کو دبئی یا قطر کے ہوائی اڈے پر اُگل دے گا جہاں، اکثر و بیشتر حالات میں، پاکستان روانہ ہونے سے پہلے آپ کو بارہ سے پندرہ گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ ایئر لائنیں اتنے طویل انتظار کے لیے آپ کو ہوٹل میں ایک کمرہ دیتی ہیں۔ دبئی میں یہ ہوٹل ایئر پورٹ کی حدود سے باہر ہوتا ہے اس لیے ٹرانزٹ ویزہ کی ضرورت پڑتی ہے، اگر آپ پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کے ہیں تو پاسپورٹ، ٹکٹ اور ہوٹل کی بُکنگ دیکھ کر فوراً ویزہ دے دیا جاتا ہے۔ اگر آپ کا پاسپورٹ پاکستان کا ہے تو ایک بار پھر آپ کے مزے ہی مزے ہیں۔ ٹرانزٹ ویزہ نہیں ملے گا۔ قسمت اچھی ہے تو ہوٹل تبدیل کر کے، ہوائی اڈے کی حدود کے اندر کمرے کا بندوبست کر دیا جائے گا‘ ورنہ یہ بارہ پندرہ گھنٹے آپ ایئر پورٹ پر چلتے پھرتے گزاریں گے۔ خوب خوار ہوں گے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ اس طویل درماندگی، بیچارگی اور خستگی سے آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ دل میں پلنے والے حب الوطنی کے پودے کو نمکین پانی ملے گا۔ چونتیس پینتیس گھنٹوں کے بعد آپ پاکستان پہنچیں گے تو جو حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ سننے اور برتنے میں بہت فرق ہے۔ دوسری طرف وہ بھارتی جو آپ کے ساتھ ہی آسٹریلیا سے چلا تھا، آپ سے اٹھارہ بیس گھنٹے پہلے گھر پہنچ چکا ہے۔
کورونا کے حملہ آور ہونے سے پہلے پاکستانیوں کو آسٹریلیا جانے کے لیے تھائی ایئر لائن زیادہ راس آتی تھی۔ کم وقت میں پہنچا دیتی تھی۔ مگر وبا کی وجہ سے اس کا کاروبار متاثر ہوا ہے اور اب کم از کم پاکستان کا پھیرا نہیں لگا رہی۔ جن دنوں تھائی ایئر لائن سے سفر کرتے تھے، تو بنکاک کا ایئر پورٹ دیکھ کر پیٹ میں مروڑ اٹھتے تھے کہ چھوٹے چھوٹے دو دو بالشت کے تھائی کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم کہاں ہیں! ہر پانچ منٹ کے بعد جہاز اتر رہا ہوتا یا روانہ ہو رہا ہوتا۔ ہوٹلوں سے لے کر بازاروں تک ہر شے ایئر پورٹ کے اندر! ہزاروں مسافر آ رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ کروڑوں کی روزانہ آمدنی! جہازوں سے بھی اور بازاروں سے بھی! سنگا پور اور ملائیشیا‘ دونوں پاکستان سے پیچھے تھے مگر کوالالمپور اور سنگا پور کے ہوائی اڈے حیران اور پریشان کرتے ہیں! اب آمد و رفت دبئی کے راستے ہے تو دبئی کا ایئر پورٹ ہم پاکستانیوں کو بے بسی اور شکست خوردگی کا احساس دلاتا ہے! پانچ سے زیادہ تو صرف ایمیریٹس ایئر لائن کے اپنے فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس لاؤنج یعنی مہمان خانے ہیں۔ دوسری ایئر لائنوں کے اس کے علاوہ ہیں۔ عام مسافروں کو سہولت بہم پہنچانے والے لاؤنج الگ موجود ہیں۔ ایئر پورٹ کے اندر بازار ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ریستورانوں کا جال بچھا ہے۔ ایئر پورٹ کی حدود کے اندر میٹرو ٹرینیں چل رہی ہیں۔ سارا نظام خود کار ہے۔ لفٹیں جدید ترین ہیں۔ کورونا کی وبا سے پہلے ایمیریٹس کی فی ہفتہ پروازیں تین ہزار تھیں۔ اس کا مطلب ہے ہر چوبیس گھنٹوں میں چار سو اٹھائیس پروازیں‘ یعنی ایک گھنٹے میں اٹھارہ جہازوں کا آنا جانا۔ گویا ہر تین اعشاریہ تین منٹ کے بعد ایک پرواز آرہی ہے یا جا رہی ہے۔ تراسی ملکوں کے ایک سو ستاون شہروں میں اس کے جہازوں کا آنا جانا تھا۔ اب کورونا کا زور کم ہوا ہے تو یہ انتہائی تیز رفتاری سے دوبارہ اپنے اہداف پورے کر رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی دو دوسری معروف ایئر لائنیں اتحاد اور قطر ایئر لائنیں بھی ایمیریٹس کے مقابلے کی ہیں۔
ان ملکوں کے لوگ، سب کے سب، ہمارے جیسے ہیں۔ وہی دو کان! دو آنکھیں اور ایک سر! یہ سفید فام یعنی مغرب سے بھی نہیں ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ قیام پاکستان سے پہلے کے ترقی یافتہ ہیں۔ یہ سب ہم سے پیچھے تھے۔ جس زمانے میں ہماری قومی ایئر لائن کا پرچم دنیا بھر کی فضاؤں پر ہر طرف لہرا رہا تھا، یہ ممالک زمین پر رینگ رہے تھے۔ پھر ہمیں کیا مار پڑی؟ اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔ نااہلی، نالائقی، بددیانتی، سفارش، اقربا پروری اور سب سے بڑھ کر سیاسی مداخلت! معاملے کا عبرت ناک پہلو یہ ہے کہ یہ سارے اسباب آج بھی موجود ہیں۔ کوئی سبق سیکھنے کے لیے ہم تیار نہیں! قواعد و ضوابط کی دھجیاں ہر لمحے اڑائی جا رہی ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کی تعیناتی میں جو کچھ ہوا وہ ہماری تیرہ بختی کی زندہ اور تازہ ترین مثال ہے!
اور کہتے ہم کیا ہیں؟ یہ کہ فلاں ملک نے ہمارے خلاف سازش کی تا کہ کراچی دنیا بھر کی پروازوں کا مرکز (HUB) نہ بن سکے۔ سازشی تھیوری ہمیں بہت راس آتی ہے! اس لیے کہ اس تھیوری میں آئینہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ یہ تو دیکھنا ہی نہیں‘ نہ سوچنا ہے کہ سنگا پور، ملائیشیا، قطر، یو اے ای، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ نے محنت کس قدر کی! سسٹم بنائے! پھر سسٹم نافذ کیے اور نفاذ کے راستے میں نااہلی، نالائقی، کرپشن، سفارش ، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کی ہر دیوار کو گرا دیا! ان ایئر لائنوں کا کوئی جہاز کسی وزیر، بادشاہ یا سپیکر کے لیے اپنی پرواز ایک سیکنڈ بھی مؤخّر نہیں کرتا۔ ملازمتیں میرٹ اور صرف میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ اتنے افسر، بشمول سربراہ، فلاں ادارے سے لے لو‘ اور اتنے فلاں ادارے سے لے لو! ان ایئر لائنوں کو کوئی ادارہ، خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اپنی چراگاہ نہیں بنا سکتا۔ کوئی سیاسی جماعت ان ایئر لائنوں پر اپنی زین نہیں لاد سکتی! بقول عباس تابش
مجھے بھی اوروں کی طرح کاغذ ملا تھا لیکن
میں اس سے کشتی نہیں، سمندر بنا رہا تھا
دوسروں نے سمندر بنا ڈالے! ہم نے بنی ہوئی کشتی بھی توڑ ڈالی!