اس نے اعلان کیا کہ وہ فلاں تاریخ کو فلاں وقت پر ہوا میں اُڑ کر دکھائے گا۔
جس دن سے وہ بستی میں آیا تھا اس نے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ نوجوان اور خواتین خاص طور پر اس کے حلقۂ ارادت میں کثیر تعداد میں شامل ہونے لگیں۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ گفتگو اچھی کرتا تھا۔ لچھے دار اور دلچسپ۔ دوسرے‘ وعدے اور دعوے بہت کرتا تھا۔ اس نے لوگوں کو یقین دلایا کہ بستی کی حالت بدل دے گا۔ اس نے کہاکہ اس کی زنبیل میں کئی عجائبات ہیں۔ دعویٰ کیا کہ جب چاہے گدڑی میں سے حیران کُن چیزیں نکال کر دکھا سکتا ہے۔ بستی میں ایک درجن کے قریب دکانیں تھیں۔اس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی آمدنی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ دُگنی تو ضرور ہو جائے گی۔گلیاں پکی ہو جائیں گی۔ چوراہوں پر سگنل لگائے جائیں گے۔ تعلیمی ادارے مفت کام کریں گے۔ برقی روشنی عام ہو گی۔ وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ایک پُر اسرار فضا بھی اس کے ارد گرد موجود تھی۔ اس نے اپنا ڈیرہ بستی سے ہٹ کر کھیتوں کے درمیان بنایا۔ باہر سے یہ ایک جھونپڑی لگتی تھی۔ کسی کو اس کے اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ جب وہ بستی میں نکلتا ہے تو اس دوران جس نے بھی کوئی بات کرنی ہو‘ اس سے کر سکتا ہے۔
ایک دن بستی میں آیا تو اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ اسے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔اس کا نام ماہر بتایا گیا۔ اس نے بستی والوں کو بتایا کہ ماہر کو وہ کسی دوسرے ملک سے صرف بستی کے فائدے کے لیے لایا ہے۔ اب دکانداروں کے معاملات ماہر کے اختیار میں ہوں گے۔ بستی کا واحد بینک بھی ماہر کے سپرد کر دیا گیا۔ بستی کے کچھ لوگوں نے ماہر کی تنخواہ کا پتا کیا تو حیرت سے ان کے منہ کھل گئے۔ یہ بہت زیادہ تھی؛ تاہم بستی کے مکینوں کی اکثریت نے اس پہلو کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس نے ماہر کے لیے ایک شاندار گھر بنوایا جہاں ماہر اور اس کے اہلِ خانہ بہت ٹھاٹھ سے رہنے لگے۔ کچھ لوگوں نے سرگوشیوں میں ایک دوسرے کو بتایا کہ یہ ماہر پہلے کسی اور بستی میں اسی قسم کے کام پر مامور کیا گیا تھا۔ اُس بستی کے حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ بہت سے لوگ اس خرابی کا ذمہ دار ماہر کو گردانتے تھے۔ تاہم ماہر ایک بھاری تنخواہ پر ایک عالی شان گھر میں رہتا رہا۔
آہستہ آہستہ بستی کے معاملات بگڑنا شروع ہو گئے۔ دکانداروں کے مالی حالات تشویشناک ہو گئے۔ انہوں نے اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھا دیں۔آٹا‘ چینی‘ دالیں‘ گھی‘ گوشت سبزیاں سب مہنگی ہو گئیں۔ بستی کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں۔ پکی گلیاں جگہ جگہ سے اُکھڑنے لگیں۔ پانی کا نکاس نہ ہونے کے برابر ہو گیا۔ اس اثنا میں اس نے ایک اور کام کیا۔ اس نے عجیب و غریب قسم کے کچھ افراد کو اپنا ترجمان مقرر کیا اور بستی والوں کو ہدایت کی کہ جو کچھ یہ ترجمان کہیں‘ اس پر یقین لانا ہو گا۔ ترجمانوں نے ایک تواتر کے ساتھ‘ رات دن‘ صبح شام‘ بستی کے باشندوں کو یقین دلانا شروع کر دیا کہ بستی کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ ترقی ہو رہی ہے۔ ایسے بے مثال کام جو اس بستی کے لیے کیے جارہے ہیں‘ کہیں اور نہیں ہو رہے۔ جب لوگ آگے سے مہنگائی کا رونا روتے اور پٹرول کی قیمت کا بتاتے تو یہ ترجمان انہیں یقین دلاتے کہ دوسری بستیوں میں مہنگائی اس سے بھی زیادہ ہے اور یہ کہ اس بستی میں تو گرانی نہیں بلکہ ارزانی ہے۔
بستی کے کچھ جہاندیدہ‘ باراں دیدہ‘ تجربہ کار لوگ جان چکے تھے کہ بستی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہو رہا۔انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ مالی معاملات جس ماہر کے سپرد کئے گئے ہیں وہ بستی کا نہیں کسی اور کا وفا دار ہے اور بستی ایک خوفناک مالی بحران کی چادر میں لپیٹی جا رہی ہے۔ ان تجربہ کار لوگوں نے بستی کے مکینوں کو بتانا شروع کر دیا کہ اس نام نہاد فقیر کے ساتھ جو لوگ ہیں ان کے دامن ہر گز اجلے نہیں۔ یہ مال اکٹھا کر رہے ہیں۔ ایک عجیب بات یہ بھی تھی کہ جن لوگوں کو یہ فقیر بد عنوان کہتا تھا اب ان کے ساتھ اس کا گہرا یارانہ تھا اور یہی اس کے مشیر تھے۔ ان تجربہ کار لوگوں کے شور مچانے پر بستی کے کچھ لوگ تو بات سمجھ گئے مگر‘ جیساکہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے‘ لوگ تقسیم ہو گئے۔ کچھ فقیر کے خلاف ہو گئے تو کچھ اس کے حق میں ! یوں بستی کے بیچوں بیچ دراڑ پڑ گئی۔ فقیر کے حامیوں کی دلیل عجیب و غریب تھی کہ وہ خود تو اچھا انسان ہے‘ صاف شفاف اور دیانت دار‘ بس اس کے مشیر اور مددگار خراب ہیں۔ جب ان سے پوچھا جاتا کہ مشیر اور مددگارکچھ تو اس کے پرانے دوست ہیں اور کچھ اس کا اپنا انتخاب ! آخر ان کی ذمہ داری اسی پر تو ہے۔ اس کا کوئی جواب اس کے حمایتیوں کے پاس نہیں تھا۔ اس کے اکثر حمایتی دلیل سے زیادہ شور و غوغا اور طعن و تشنیع کو بروئے کار لاتے تھے۔ کچھ تو باقاعدہ دشنام طرازی پر اتر آتے۔
ایک کام فقیر نے کمال کاکیا۔ اسے معلوم تھا کہ بستی کے لوگ مذہب سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ اس نے مذہب کا خوب خوب استعمال کیا۔ اسلامی تاریخ سے واقعات سناتا۔ اسلامی اصطلاحات کا اطلاق اپنے سیٹ اپ پر کھلم کھلا کرتا۔ یوں مذہبی لوگوں کی اچھی خاصی تعداد کو اپنے پیچھے لگانے میں وہ کامیاب ہو گیا۔ اسے لوگوں کی نفسیات کا بخوبی علم تھا اور ان کی اس نفسیاتی کمزوری سے اچھی طرح واقف تھا؛ چنانچہ اپنی ہر تقریر میں وہ اسلامی تعلیمات پر زور دیتا اور اسلامی اصطلاحات کو بہت چابکدستی کے ساتھ استعمال کرتا۔
مگر ہر ملمع آخر میں بے نقاب ہو کر رہتا ہے۔ برگشتہ ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو تا گیا۔ اب اس نے ترپ کا آخری پتہ کھیلا اور اعلان کیا کہ فلاں دن وہ سب لوگوں کو ہوا میں اُڑ کر دکھائے گا۔ یوں وہ انہیں یقین دلائے گا کہ وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہے اور یہ کہ وہی ان کی بستی کے حق میں سب سے زیادہ اچھا ہے۔ اس کے حامیوں نے وسیع پیمانے پر تشہیر کی اور لوگوں کو اس دن زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہونے کے لیے قائل کیا۔ اخباروں میں اشتہار چھپوائے گئے۔ اس دن کو مذہبی حوالے سے خوب خوب اجاگر کیا گیا۔ اس دن واقعی اس کے حامیوں کی کثیر تعداد جمع تھی۔ یہ بلا مبالغہ ایک جم غفیر تھا۔ وہ ایک مشینی گھوڑے پر سوار ہو کر آیا۔حاضرین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ فلک شگاف نعروں نے اس کا استقبال کیا۔ پُر جوش نغموں کی لے نے عوام کو سرور میں مبتلا کر دیا۔ وہ قریبی بلڈنگ کی پر چڑھا۔ اس نے کندھوں پر خوبصورت پر باندھے ہوئے تھے جو بہت مضبوط دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اس نے ہوا میں زقند بھری۔ دیکھنے والوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ دھڑام سے نیچے زمین پر گر پڑا۔ پر ٹوٹ چکے تھے۔ پھر شور مچ گیا۔ افرا تفری کا عالم تھا۔ ترجمان اپنے اپنے بریف کیس اٹھائے ہوائی اڈے کی طرف بھاگ رہے تھے۔ ماہر سب سے آگے تھا۔