حمد و ثنا اور لاکھوں کروڑوں درود و سلام کے بعد، ملک کے مختلف حصوں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں رہنے والے قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ پروردگارِ عالم کا بے پناہ احسان ہے جس نے ہمیں ایک بار پھر رمضان کے مقدس مہینے کو دیکھنے اور اس کا استقبال کرنے کا موقع بخشا۔ گزشتہ رمضان میں بہت سے احباب اور اعزّہ موجود تھے جو آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ دنیا کی یہی بے ثباتی ہے جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔
میں اپنے قارئین پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ رمضان المبارک کے مقدس ایام کے ساتھ میرا سلوک نہایت ادب و احترام والا ہو گا۔ میں ہر روزے کو جھک کر اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کروں گا۔ رمضان کی راتیں بہت قیمتی ہیں۔ پوری کوشش ہو گی کہ یہ راتیں عبادت میں اور تلاوت میں اور تفکر میں گزاری جائیں۔ جیسا کہ حکم دیا گیا ہے، کا ئنات کے وجود پر اور رات دن کے آنے جانے پر اور چاند سورج کے طلوع و غروب پر خوب غور کرنا چاہیے۔ قارئین کو یہ یقین دلانا بھی از حد لازم ہے کہ میں عبادات کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھوں گا۔ پانچ نمازیں با جماعت ادا کرنے کا ارادہ بفضلہٖ تعالیٰ بہت پختہ ہے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد مسجد ہی میں بیٹھ کر اشراق کا انتظار ہو گا۔ اس کے بعد چاشت کی نماز ادا کی جائے گی اور پھر گھر کو روانگی ہو گی۔ عشا کے ساتھ تراویح کی نماز نہ پڑھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہی تو رمضان کی وہ خاص نماز ہے جو دوسرے مہینوں میں میسر نہیں ہوتی۔ یہ گنہگار پوری کوشش کرے گا اور ارادہ بھی پکّا ہے کہ رات کے پچھلے پہر تہجد کی نماز ادا کرے اور اس کے بعد وطن عزیز کی سلامتی اور مسلمانانِ عالم کی فلاح کے لیے گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرے۔ ہر روز تلاوتِ کلام پاک اور چھ تسبیحات پڑھنے کا بھی پروگرام ہے۔ عزم صمیم یہ بھی ہے کہ مسجد میں جب تراویح کے حوالے سے ختم کلام پاک ہو تو مٹھائی کے لیے مسجد کمیٹی کو مبلغ پانچ ہزار روپے چندہ دوں۔ امام صاحب کو ایک اعلیٰ کوالٹی کا شلوار قمیص سوٹ پیش کرنے کا بھی پلان ہے۔ ان سب عبادات میں اور انفاق فی سبیل اللہ میں حاشا و کلّا کسی ریا کاری یا نمود و نمائش کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ ہاں دوسرے لوگوں کو ترغیب دینے کی خاطر اگر میرے پانچ ہزار روپے کے چندے کا اور امام صاحب کو سوٹ دینے کا ذکر خطیب صاحب جمعہ کے خطبے میں کر دیں تو چنداں مضائقہ نہ ہو گا۔ اگر یہ بھی کہہ دیں کہ میں نماز با جماعت اور نماز تہجد پابندی سے ادا کرتا رہا تو یقینا اس کا مثبت اثر اُن لوگوں پر ضرور پڑے گا جو عبادات سے غافل ہیں۔ اگر میری وجہ سے ان میں نماز کا شوق پیدا ہو جائے تو اس عاصی اور ننگِ اسلاف کے لیے باعث ثواب و برکت ہو گا۔
ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی طرح بات صاف کرتا ہوں اور کسی ابہام یا شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، جان بھی حاضر ہے۔ اگر روزے کے دوران بھوک پیاس سے یہ جانِ ناتواں اس ناکارہ جسم کو چھوڑ بھی جائے تو غم نہیں۔ مگر معاملات کا مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔ انسان بنیادی طور پر کمزور ہے۔ اس لیے معاملات کے ضمن میں مجھ سے کوئی خاص توقع نہ رکھی جائے۔ بہت سے افراد خاندان کے اور چند احباب بھی مجھ سے نالاں ہیں اور تعلقات منقطع ہیں۔ صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر اس حکم پر رمضان کے دوران عمل کیا جائے تو کیا ہی بات ہے‘ مگر میرے لیے یہ کام بہت مشکل ہے۔ میری انا اجازت نہیں دیتی کہ ان کے پاس جا کر اپنی غلطی کی معذرت کروں۔ ہاں اس کے عوض ایک سو رکعات نفل پڑھنے کے لیے تیار ہوں۔ اس لیے کہ اس میں انا کی قربانی نہیں دینا پڑتی۔ تجارت کا جو ہمارا انداز ہے اس میں بھی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ جعلی ادویات، ملاوٹ والا آٹا، مضرِ صحت گھی اور دیگر نا خالص اشیائے خور و نوش کی فروخت تجارتی مجبوری ہے۔ پچھلے سال مکئی کا آٹا بیسن میں مکس کرنے سے منافع کثیر ہوا۔ اس سال بھی یہی کرنا ہو گا۔ ماہِ مقدس میں اگر مال میں اضافہ کر لیا جائے تو برکت کا باعث ہو گا۔ پلاؤ اور زردے کی دیگیں مدرسے میں بھیج کر اس گناہ کی تلافی کروں گا۔ یہ جو ملازم گھر پر کام کرتا ہے اس کے دونوں بچے بیمار ہیں۔ علاج کے لیے مدد مانگ رہا تھا۔ صاف کہہ دیا کہ میاں! کام کی تنخواہ لیتے ہو اب اور مدد کاہے کی! پورے بیس ہزار ہر ماہ دیتا ہوں۔ ان میں سے اگر تیس چالیس ہزار سرجری پر نہیں لگا سکتا تو اس میں میرا قصور تو نہیں۔ یوں بھی بیماری اور صحت قدرت کی طرف سے ہے۔ کتنی بار سمجھایا ہے کہ داتا صاحب جا کر دیگ کا نذرانہ پیش کرو۔ مگر گھروں میں کام کرنے والے ان ملازموں کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہوتا ہے۔ ڈھنگ کی بات ان کے پلّے پڑتی ہی نہیں۔
بڑا بیٹا سرکاری دفتر میں ملازم ہے۔ دس بجے تک تو گھر ہی بیٹھا رہتا ہے۔ جن لوگوں کے کام کی فائلیں اس نے اوپر بڑے افسروں کو بھیجنا ہوتی ہیں وہ لوگ شام کو گھر پر آتے ہیں اور معاملات طے کرتے ہیں۔ یہ دفتری امور ہیں۔ میں ان میں دخل نہیں دیتا؛ تاہم اس بیٹے کو میں نماز روزے کی تلقین کرتا رہتا ہوں۔ اسے کچھ وظائف بھی بتائے ہیں جو وہ پابندی سے پڑھتا ہے۔ ایک شریف آدمی اپنی فائل نکلوانے کے لیے ایک بہت بڑا جدید ٹیکنالوجی والا ٹیلی ویژن سیٹ اسے دے گیا۔ سعادت مند اتنا ہے کہ اسے میرے کمرے میں رکھوا دیا۔ میں مذہبی پروگرام اب اسی نئے ٹی وی پر دیکھتا ہوں اور صاحبزادے کی ترقی کے لیے دعائیں کرتا ہوں۔
اس عید پر بیوی بچوں کو نئی گاڑی کا تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے پرانی گاڑی فروخت کرنا پڑی۔ ایک لاکھ کلومیٹر سے زیادہ چل چکی تھی۔ ایک ماہر اور قابلِ اعتبار، خرانٹ، مستری نے میٹر کو پیچھے کر دیا گویا صرف پچاس ہزار کلومیٹر چلی ہے۔ گاہک ذرا بے وقوف سا تھا۔ اسے نہیں بتایا کہ گاڑی کے ساتھ حادثہ ہوا تھا جس کے بعد ٹھیک کرائی تھی۔ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ شے بیچتے وقت نقص نہ بتانا سخت گناہ ہے۔ میں نے کہا کہ مولوی صاحب! آپ کا کام ہے نماز پڑھانا اور بچوں کو کلام پاک ناظرہ پڑھانا۔ ہمارا کام ہے کاروبار کرنا اور دنیا کے معاملات چلانا! ہم آپ کے کام میں دخل نہیں دیتے۔ بہتر ہے آپ ہمارے کام میں دخل نہ دیجیے۔ مولوی صاحب استغفراللہ کہتے ہوئے اپنے حجرے میں چلے گئے۔ بے چارے دنیا کی پیچیدگیاں کیا جانیں اور کیا سمجھیں! نئی گاڑی آئی تو ختم قرآنِ پاک کرایا اور مدرسے میں کھانا بھجوایا۔ گاڑیوں پر ٹیکس بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ کوشش کی کہ کچھ دے دلا کر ٹیکس کم کراؤں مگر بے وقوف کارندہ حلال حرام کے چکر میں پڑا ہوا تھا۔
میں نے آپ حضرات سے کوئی بات نہیں چھپائی۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ سب دوستوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ میرے لیے دعا کریں۔ اللہ کرے میری با جماعت نمازیں، میری اشراق اور چاشت، میری تہجد، میری تلاوت، میری تسبیحات، میری خیرات اس ماہِ مقدّس کے صدقے قبول ہوں! معاف کیجیے گا! اذان ہو رہی ہے۔ مجھے مسجد پہنچنا ہے۔