آگے بڑھنے سے پہلے دو وضاحتیں۔ عمران خان پر تنقید کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ تنقید کرنے والا زرداری یا مولانا یا شریف برادران کا حامی ہے۔ یہ ایک بے تکی بات ہے۔ ارے بھائی! ہم نے ان حضرات سے جان چھڑانے کے لیے ہی تو عمران خان کا ساتھ دیا تھا۔ دوسرے یہ کہ کالم کے عنوان سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ کالم نگار اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے‘ اور اس زعم میں ہے کہ اس نے حمایت چھوڑی تو عمران خان یا اس کی پارٹی یا حکومت کو نقصان ہوا۔ نہیں! ایسا ہرگز نہیں! ہم تو ان بے بضاعت افراد میں سے ہیں جو کسی مجلس میں موجود ہوں تو ان کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اور اگر نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی کو کوئی نوٹ نہیں کرتا۔ ہماری حمایت سے خان صاحب کو کیا فائدہ ہونا تھا‘ اور حمایت ترک کرنے سے ان کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ کالم اس لیے لکھنا پڑا کہ جو قارئین سالہا سال سے کالم نگار کو پڑھ رہے ہیں، وہ پوچھتے ہیں کہ مایوسی کی وجوہ کیا ہیں۔
یہ عمران خان صاحب کی مخالفت ہے نہ ان پر تنقید۔ یہ تو امیدوں اور خوابوں کا نوحہ ہے۔ کابینہ بنی تو تبدیلی کا منہ چڑا رہی تھی۔ وہی عمر ایوب، وہی فہمیدہ مرزا، وہی شیخ صاحب، وہی فردوس عاشق اعوان‘ وہی زبیدہ جلال، وہی سومرو صاحب‘ وہی سواتی صاحب‘ وہی سرور خان‘ وہی عشرت حسین‘ وہی رزاق داؤد‘ وہی حفیظ شیخ‘ وہی الیکٹ ایبلز! ڈاکٹر عشرت حسین کو سول سروس اصلاحات کا چارج دیا گیا۔ یہ صاحب جنرل مشرف کے عہد میں بھی یہی چورن بیچ چکے تھے۔ تبخیرِ معدہ کی شکایت کو تب بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا۔ خان صاحب نے پھر اسی سوراخ سے ڈسے جانے کا اعلان کیا تو میڈیا نے شور مچایا مگر شنوائی نہ ہوئی۔ اڑھائی تین سال کے بعد عشرت صاحب چلے گئے۔ آج تک معلوم نہیں ہوا کہ کون سی اصلاحات ہوئیں!
جو ان کے بقول سب سے بڑا ڈاکو تھا، اسے صوبے کے دوسرے بڑے منصب پر فائز کیا گیا تو امیدوں کا محل سارے کا سارا دھڑام سے نیچے آ رہا۔ ایک اینکر نے جب اس کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ اسے چھوڑیں آگے چلیں۔ نیب میں معاملات تو ان صاحبان کے بھی اٹکے ہوئے تھے۔ یہ وہ مکھی ہے جسے نگلنا نا ممکن تھا۔ آپ جنہیں خود چور اور ڈاکو کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں‘ ان میں سے ایک کو پکڑتے ہیں، دوسرے کو تخت پر بٹھا دیتے ہیں۔ کیوں؟ جواب ملتا ہے کہ حکومت تو بنانی تھی۔ مطلب یہ ہوا کہ مقصد محض حکومت کا حصول تھا۔ آج خان صاحب کہتے ہیں کہ غلطی ہوئی‘ اتحادیوں کو ساتھ ملانا پڑا۔ اُس وقت بچے بچے کو معلوم تھا کہ غلط ہو رہا ہے۔
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
جو بقول ان کے چپڑاسی بننے کے قابل نہ تھا اسے پہلے اہم پھر اہم ترین وزارت سونپی گئی! تبدیلی کے گال پر اس سے زیادہ زناٹے دار تھپڑ نہیں پڑ سکتا! بائیس سال کی جدوجہد! اس کا ثمر شیخ صاحب اور چوہدری صاحب! اللہ اللہ! شخصیت پرستی اس المیے کو ہضم کر سکتی ہے‘ مگر جو نظریات کی بنیاد پر ساتھ تھے وہ کیسے سمجھوتہ کرتے اور کیا تاویل کرتے؟
وعدہ تھا کہ کابینہ سترہ افراد پر مشتمل ہو گی۔ نیک بخت پچاس سے تجاوز کر گئی۔ دوست نوازی خوب خوب ہوئی۔ کوئی لندن سے آیا اور اسے سیاحت کا قلم دان سونپا گیا۔ کوئی عرب سے آیا اور بہت بڑی کارپوریشن اس کے حوالے کر دی گئی۔ ہر منتخب وزیر کے ساتھ ایک غیر منتخب مشیر فکس کیا گیا۔ مشیروں پر الزام لگے تو ہٹائے گئے مگر کسی کی تفتیش ہوئی نہ کسی کو سزا دی گئی۔ دوائیوں کا سکینڈل آج تک انصاف کا انتظار کر رہا ہے۔ چینی کا سکینڈل سب کے علم میں ہے۔
بیوروکریسی میں وہی کچھ ہوتا رہا جو ہوتا آیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں ایک شاندار منصب خالی ہوا۔ اسلام آباد میں ایک صاحب کو ایک سال پہلے ریٹائر کیا گیا۔ پھر اس منصب پر فائز کیا گیا۔ یہ سارا کام ایک ہی دن میں ہوا۔ سول ایوی ایشن کی سربراہی کے لیے اشتہار دیا گیا۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ شارٹ لسٹ کئے گئے اٹھارہ نے انٹرویو دیا۔ تعیناتی ایک گورنر صاحب کے سیکرٹری کی ہوئی جو امیدوار تھے نہ ہی ان کا انٹرویو ہوا تھا۔ پریس میں سب کچھ چھپا۔ کیا ایکشن ہوا؟ یہ میرٹ کی صرف چند مثالیں ہیں۔
خان صاحب وزیر اعظم بننے کے بعد بھی جیسے اپوزیشن ہی میں رہے۔ شاید ہی کوئی تقریر، بیان یا انٹرویو ہو جس میں شریف برادران کا نام نہ لیا ہو۔ یہاں تک کہ لوگ سوچنے لگے کہ معاملہ ذاتی رنجش کا لگتا ہے۔ ترین صاحب سمیت بیسیوں پاکستانیوں کی برطانیہ میں جائیدادیں ہیں۔ شریف برادران سمیت ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے تھا۔ پیسہ شریف برادران سے ایک بھی نہ وصول ہوا۔ زبانی مذمت اس تواتر کے ساتھ کی گئی کہ رد عمل کے طور پر لوگوں کے دلوں میں ان کی ہمدردیاں پیدا ہونے لگیں۔ چاہیے یہ تھا کہ متعلقہ ادارے کرپٹ افراد کا تعاقب کرتے! سخت اور مسلسل تعاقب! قید کرتے! سزا دیتے! مگر وزیر اعظم خود ان کا نام ہی نہ لیتے۔ انہیں در خور اعتنا ہی نہ گردانتے۔ ان کی سطح پر نہ اترتے۔
اس عرصے میں کیا خارجہ پالیسی خود مختار تھی؟ اردوان اور مہاتیر کے ساتھ مل کر جو بلاک بننا تھا‘ اس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ ایک طاقت کے کہنے پر ملائیشیا نہ گئے۔ پھر اس طاقت کا نام بھی بتا دیا۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے خود کشی کا دعویٰ تو چھوڑ ہی دیجیے۔ آئی ایم ایف کے سکہ بند ملازم کو سٹیٹ بینک کا گورنر بنانا کتنا بڑا ظلم ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا۔ اس گورنر کی تنخواہ اور مراعات دل دہلا دینے والی ہیں۔ امریکی انتخابات کے بعد رحمان ملک نے الزام لگایا تھا کہ پاکستانی سفارت خانہ ٹرمپ کے الیکشن آفس کے طور پر استعمال ہوا۔ یہ خبر معاصر اخبارات میں چھپی۔ اس کی تردید کی گئی نہ تفتیش۔ اس پر کارروائی ہونی چاہیے تھی تا کہ معاملہ شفاف ہو کر سامنے آتا۔
خان صاحب کی حکومت میں یقینا اچھے کام بھی ہوئے ( ان کا ذکر الگ کالم میں کیا جائے گا انشا اللہ ) تاہم جو امیدیں تبدیلی کی تھیں وہ بر نہ آئیں۔ کاش کوئی انہیں سمجھائے کہ مغرب کو اور ہندوستان کو ان سے بہتر جاننے اور سمجھنے والے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ضرور ہوں گے۔ پیغمبرِ خدا تو کفار سے بھی بات کر لیتے تھے۔ اپنے ملک کی اپوزیشن سے بات تک نہ کرنا اور ہاتھ نہ ملانا کہاں کی جہانبانی(statesmanship) ہے جب کہ عین اسی قبیل کے دوسرے لوگوں کو آپ اعلیٰ مناصب بھی دے رہے ہوں۔ کتنی بڑی ٹریجڈی ہوئی کہ جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے متین افراد منظر سے ہٹا دیے گئے اور جو لوگ پیش منظر پر چھائے ان کے طرز تکلم پر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے رہے۔
اگر مشیتِ ایزدی خان صاحب کو دوبارہ موقع دے تو کاش مشیت انہیں تبدیل بھی کر دے۔ غصہ اور بلا کی منتقم مزاجی ان میں نہ رہے۔ استکبار ختم ہو جائے۔ ایسی ٹیم چنیں جس پر وہ بھی فخر کریں اور قوم بھی۔ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ پر عمل کریں۔ کاش ان میں تھوڑا سا انکسار بھی پیدا ہو جائے۔ اللہ اور اس کے حبیب کو عاجزی پسند ہے نہ یہ کہ منہ پر ہاتھ پھیر کر کہنا کہ چھوڑوں گا نہیں۔ (ختم)