آپ نے جنات کے بارے میں کئی ناقابلِ یقین واقعات سنے ہوں گے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی انسان‘ انسانی شکل ہی میں‘ جن کی طرح کام کرتا ہے! ناقابلِ یقین کام ! حسین مجروح ایک ایسا ہی انسان ہے۔ دیکھنے میں ہمارے جیسا! مگر جب کام کرتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ انسان ہے یا جن! اکبر الہ آبادی نے سرسید احمد خان کے بارے میں کہا تھا ؎
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سیّد کام کرتا ہے
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
ہم بھی باتیں کرتے رہے۔حسین مجروح نے ہمیشہ کچھ کر کے دکھا یا۔ ادبی دنیا پر اس کے بہت سے احسانات ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس نے یہ احسانات کبھی جتائے نہ ان کے بدلے میں کچھ چاہا۔ پیشے کے لحاظ سے بینکار اور بینکار بھی اعلیٰ مناصب والا۔ادب پر گفتگو کرنے پر آئے تو سننے والوں کو پتا چلتا ہے کہ اس کے پاس صرف فنِ گفتگونہیں‘ علم بھی ہے۔ نثر کمال کی لکھتا ہے اور شاعری ؟ شاعری تو اس کا اصل میدان ہے۔ کیسے کیسے اشعار کہے ہیں مجروح نے ؎
وہ ماشکی ہوں کہ میلے سے ایک شب پہلے
کتر دیا ہو گلہری نے جس کا مشکیزہ
وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے
غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے
میں سینت سینت کے رکھتا ہوں اپنی گمنامی
کہ کھو گئی تو دوبارہ نہیں ملے گی مجھے
کس طرح گھر کو پلٹ جائیں سرِ شام حضور
عشق میں دفتری اوقات نہیں ہوتے ہیں
حلقہ اربابِ ذوق لاہور سے مجروح کی وابستگی پرانی ہے۔ دو بار اس کا معتمد رہا۔ دونوں بار حلقے کی سرگرمیوں کو عروج پر لے گیا۔جب حلقہ دو لخت ہوا اور کھینچا تانی انتہا کو پہنچ گئی تو مجروح نے حکمت عملی اور محنت شاقہ سے دونوں متحارب گروہوں کو پھر سے یکجا کر دیا۔ ماضی قریب میں تاریخی ادبی مجلے ''ادبِ لطیف‘‘ کا مدیراعلیٰ بنا۔ جو چند پرچے نکالے‘ کمال معیار کے تھے، مگر ہم جو اس کے دوست تھے‘ جانتے تھے کہ یہ کمپنی زیادہ دیر نہیں چلنے کی۔ معیار پر سمجھوتا اس نے نہیں کرنا تھا؛ چنانچہ یہی ہوا۔ کچھ عرصہ بعد وہ علیحدہ ہو گیا۔
گزشتہ سال کے اوائل کی بات ہے۔مجروح لاہور سے اسلام آباد تشریف لایا اور ایک بہت ہی شاندار اورAmbitious ادبی منصوبے کے خدوخال بیان کیے۔عمر ِعزیز مختلف احباب اور عزیزوں سے اس قسم کے بلند بانگ منصوبوں کا ذکر سنتے اور پھر انہیں بِن کھِلے مرجھاتے دیکھتے گزری ہے اس لیے سن کر فقط سکوت اختیار کیا کہ یہ منصوبہ بھی محض منصوبہ بندی ہی کی حد تک زندہ رہے گا۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ حضرتِ مجروح کراچی پہنچے ہوئے ہیں اور ادیبوں اور شاعروں کو اپنے منصوبے سے آگاہ کر رہے ہیں۔پھر پے در پے ایسی خبریں ملیں جن سے واضح ہو گیا کہ مجروح دھن کا پکا ہے۔ جو چاہتا ہے کر کے دکھاتا ہے۔ کئی سنگ ہائے میل اس قلیل مدت میں اس نے پار بھی کر دکھائے !
مجروح کے اس ادبی منصوبے کا نام ''سائبان تحریک‘‘ ہے۔ یہ تحریک ادیبوں اور ادبی جرائد و کتب کے مسائل اور مشکلات کی داد رسی کرے گی۔ اس کے بنیادی اوصاف مندرجہ ذیل ہیں۔
٭ کتاب اور جریدہ کلچر کے فروغ کے لیے مفت خوری کی حوصلہ شکنی اور خرید کر پڑھنے کی عادت کو راسخ کرنا۔
٭ادبی کتابوں کی اشاعت و فروخت کیلئے ایک مربوط نظام کی تشکیل۔
٭ادیبوں اور جریدوں کے استحصال کی مختلف صورتوں کی بیخ کَنی۔ اس ضمن میں عملی اقدامات کرنے کا عزم۔
٭ادبی جریدوں کو قاری تک پہنچانے کے لیے عملی تعاون۔
٭جو ناانصافیاں ادیبوں کے ساتھ ہو رہی ہیں ان کے تدارک کے لیے راست اقدام۔ ان کی جائز شکایات کا ازالہ۔
٭ ادبی معاملات پر بامعنی مکالمے کا اجرا
٭نوجوان ادیبوں کی رہنمائی‘ تربیت اور حوصلہ افزائی کے حوالے سے مساعی۔
٭خواتین ادیبوں کے مسائل کا تدارک۔ ان کی مشکلات کا حل۔ان کے احترام کیلئے فضا استوار کرنے کا اہتمام۔
٭ادبی تنظیموں اور ان تنظیموں کے کارکنان کی مدد اور حوصلہ افزائی۔
ظاہر ہے کہ تمام کتب اور جرائد کی خریداری کسی بھی تنظیم کے لیے آسان ہے نہ ممکن۔ سائبان تحریک اس حوالے سے سینئر ادیبوں کی ایک کمیٹی تشکیل دے گی جو منتخَب مطبوعات کی منظوری دے گی اور مختص کردہ بجٹ کے مطابق کتاب مقررہ تعداد میں خریدی جائے گی۔ نکاسی کیلئے ایک مارکیٹنگ پلان وضع کیا جارہا ہے جس کے مطابق ادیبوں کو رائلٹی دینے کے علاوہ قاری کیلئے بھی رعایت کا بندوبست کیا جائے گا تا کہ خرید کر پڑھنے کی حوصلہ افزائی ہو۔ ناشر حضرات کو قائل کیا جائے گا کہ کتابوں کے سستے ایڈیشن بھی شائع کریں۔ احباب پر زور دیا جائے گا کہ کتاب تحفے میں قبول کرنے کے بجائے خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالیں۔اگر مصنف‘ محبت کی وجہ سے کتاب تحفے کے طور پر پیش کرتا بھی ہے تو کم از کم اس کی آدھی قیمت اصرار کر کے ضرور پیش کی جائے۔ حکام سے عرض گزاری ہو گی کہ کتاب دوست پالیسیاں اپنائیں۔ٹیکسوں اور ڈاک ٹکٹ کے سلسلے میں رعایت کا تقاضا کیا جائے گا۔ پبلک اور کارپوریٹ سیکٹر سے کہا جائے گا کہ اشتہارات کا ایک حصہ ادبی مطبوعات کیلئے وقف کیا جائے۔ تحریک کا باقاعدہ آئین اور ضوابط ہوں گے جو تحریری شکل میں موجود ہیں۔ تحریک کو فاؤنڈیشن کے طور پر رجسٹر کرایا جا رہا ہے۔ اس کا صدر دفتر اور ذیلی دفاتر ہوں گے۔ مختلف امور کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ تجربہ کار‘ متحرک اور ہم خیال ادیبوں پر مشتمل انتظامی کونسل بنائی جارہی ہے۔
کسی بھی تحریک کیلئے آکسیجن کا کام اس کا شعبہ مالیات ہو تا ہے۔ اس سلسلے میں پہل خود مجروح نے کی ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود اس نے اپنی گرہ سے تین لاکھ سے زیادہ کی رقم تحریک کو دی ہے۔ اس کے علاوہ‘ تحریک کو متعارف کرانے کے لیے تمام بڑے شہروں کا سفر اس نے اپنے خرچ پر کیا ہے۔ تعارفی لٹریچر بھی اس نے خود چھپوایا ہے۔ جو دوست اس ضمن میں اپنے وسائل تحریک کے ساتھ شیئر کریں گے انہیں باقاعدہ رسید دی جائے گی۔ فاؤنڈیشن کی سالانہ آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات‘ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر ہر خاص و عام کیلئے مہیا ہوں گی۔
اس قلیل مدت میں سائبان تحریک تین ادبی کتابیں شائع بھی کر چکی ہے جن میں معروف مزاحیہ شاعر اطہر شاہ خان جیدی مرحوم کا کلام بھی شامل ہے۔ سائبان ہی کے عنوان سے ادبی جریدہ بھی نکالا جا رہاہے جس کا پہلا شمارہ منظر عام پر آنے والا ہے۔ کام کٹھن ہے مگر حسین مجروح محض گفتار کا نہیں‘ عمل کا آدمی بھی ہے۔یقینا یہ تحریک کامیاب ہو گی!
یہ جو ہم رونا روتے ہیں کہ کتابیں مہنگی ہو گئی ہیں اور استطاعت سے باہر ہیں‘ سراسر غلط ہے۔ اگر کتاب مہنگی ہے تو سستی یہاں کون سی شے ہے ؟ لباس سے لے کر خوراک تک ہر طرف گرانی کا بھوت ناچ رہا ہے۔ سکولوں کی فیسیں‘ پٹرول‘ مکانوں کے کرائے‘ موبائل ٹیلیفونوں کے کارڈ‘ سواری‘ ہر شے مہنگی ہے۔ مگر ہم یہ سب کچھ خرید رہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ اشیا و خدمات ترجیحات کی فہرست میں اوپر ہیں۔ کتاب بیچاری تو اس فہرست میں موجود ہی نہیں اور اگر موجود ہے بھی تو آخر میں ! جس دن یہ معاشرہ کتاب کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے گا اس کی مہنگائی‘ دوسری اشیا کی طرح‘ قابلِ برداشت ہو جائے گی۔