کمرہ کیا تھا، کٹیا تھی۔
دیواریں مٹی کی تھیں۔ فرش سیمنٹ کا جیسے ہمارے بچپن میں اکثر گھروں کا ہوتا تھا۔ فرش پر چٹائیاں بچھی تھیں۔ ایک طرف پانی کا پرانا سا کولر رکھا تھا جس پر مٹی کا ایک پیالہ اوندھا پڑا تھا۔ چٹائیوں کے ایک طرف دری بچھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک عمر رسیدہ گاؤ تکیہ رکھا تھا ۔ یہیں وہ بزرگ تشریف فرما تھے جن کی زیارت کے لیے ایک دوست زبردستی لایا تھا۔ اس دوست کا ہمیشہ سے گلہ تھا کہ تم لوگ بزرگوں کو نہیں مانتے۔ میں ہر بار وضاحت کرتا کہ ایک تو میں وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو! نہ ہی کسی فرقے سے تعلق ہے۔ دوسرا بزرگوں کی بزرگی سے انکار کون کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ بزرگ ہوں، مستقبل کی پیشگوئیاں کرنے والے نہ ہوں۔ بد قسمتی سے آج کل بزرگی اور روحانیت کا مطلب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مستقبل کا حال بتایا جائے گا۔ میں اپنے مستقبل کا حال معلوم کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر مستقبل کا حال جاننا میرے لیے مفید ہوتا تو قدرت دوسرے علوم کی طرح یہ علم بھی عطا کرتی۔ دوست نے بتایا کہ یہ بزرگ مستقبل کی پیشگوئیاں بالکل نہیں کرتے نہ انہیں دعویٰ ہے۔ وہ تو علم و حکمت بانٹتے ہیں اور دانش کے موتی بکھیرتے ہیں۔ لوگ سوال کرتے ہیں۔ وہ جواب دیتے ہیں۔
عبا تھی نہ عمامہ! عام لباس پہنے تھے۔ چہرے پر مسکراہٹ تھی اور نرمی! آنکھیں روشن تھیں۔ ماتھا کُھلا تھا۔ سر کے بال سفید تھے نہ سیاہ، کھچڑی تھے۔ گویا سرد و گرمِ زمانہ چشیدہ تھے۔ ہم ایک طرف چٹائی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ ایک صاحب استفسار کر رہے تھے کہ اولاد کے کیا حقوق ہیں۔ وہ جواب دے رہے تھے، یوں گویا لفظ نہیں زبان سے ستارے نکل رہے ہوں۔ نپے تلے الفاظ! چہرے پر مسلسل مسکراہٹ! سبحان اللہ! کیا نکتہ آفرینی تھی۔ کیا اندازِ تکلم تھا! سمجھانے کا کیا اسلوب تھا! جو ہم سے پہلے بیٹھے تھے، ان سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ خیریت پوچھی۔ پوچھا: کھانا کھایا ہے؟ عرض کیا کہ کھا کر آئے ہیں۔ ایک خادم کو انہوں نے چائے لانے کا اشارہ کیا۔ میں ادب سے گویا ہوا کہ حضور! ہمارا جو قدیم، کلاسیکی ادب ہے، فارسی اور عربی کا، اس میں خاندانی لوگوں کی کچھ علامات بتائی گئی تھیں۔ یہ ادب اگر نایاب نہیں تو اب کمیاب ضرور ہے۔ ہماری دسترس میں تو بالکل نہیں! معاشرے کی قدریں الٹ پلٹ ہو گئی ہیں۔ معززین کونوں کھدروں میں روپوش، عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ شُہدے، لُچے، فرنگی صوفوں پر براجمان، خلقِ خدا سے کورنش وصول کر رہے ہیں۔ سب کچھ خلط ملط ہو گیا۔ یہ بتائیے کہ خاندانی انسان کی کیا پہچان ہے! وہ سن کر مسکرائے۔ چائے آ چکی تھی۔ ہمارے احتجاج کے باوجود خود چینک سے ہماری پیالیوں میں انڈیلی! پھر گویا ہوئے:
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ خاندانی نجابت سے مراد موروثی اقتدار یا امارت یا جاگیرداری نہیں۔ ایک سفید پوش بھی خاندانی ہو سکتا ہے اور ایک امیر زادہ بھی! خاندانی انسان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے برابر کے لوگوں اور رُتبے میں اپنے سے کمتر لوگوں کے دُکھ میں ضرور شامل ہوتا ہے۔ اپنے سے اونچے سٹیٹس کے لوگوں کے غم اور خوشی میں تو ہر کوئی شامل ہوتا ہے جس کی وجہ ذاتی مفادات بھی ہو سکتے ہیں۔ بڑے مرتبے پر فائز ہو کر، اپنے سے کم حیثیت والوں کے غم میں شامل ہونا اصل نجابت اور اصل شرافت ہے۔ جو خاندانی امرا ہوتے ہیں وہ اپنے کارندوں کے گھر جا کر پُرسہ دیتے ہیں بلکہ غریب کسان کی بھینس بھی مر جائے تو جا کر چٹائی پر بیٹھتے ہیں۔ بادشاہوں کے زمانے میں ہر بادشاہ اپنے جانشین کو اس امر کی نصیحت کر کے جاتا تھا۔ یہ بادشاہ اپنے غلاموں، خادموں، پیشکاروں اور چوبداروں کی ہر موقع پر دلجوئی کرتے تھے۔ کسی کی وفات پر، تعزیت میں شامل نہ ہونا اور جنازے سے احتراز کرنا، خاندانی لوگوں کی نہیں، کم ہمت اور کم ظرف لوگوں کا وتیرہ ہے اور احساس کمتری کی واضح دلیل ہے۔
دوسری نشانی مہمان نوازی ہے۔ جو شخص خاندانی ہو گا وہ اپنے مہمان کی، خواہ مہمان اس سے مرتبے میں کم ہو، ضرور خاطر مدارات کرے گا۔ ایسے لوگ، گھر میں کچھ نہ ہوتو گھر کا سامان بیچ کر مہمان کو کھانا کھلاتے ہیں۔ قیمتی سے قیمتی جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھوکا بھی رکھنا پڑے تو دریغ نہیں کرتے۔ عربوں، پختونوں، ازبکوں اور کئی دوسری قوموں کے نزدیک مہمان نوازی زندگی اور موت کا، اور غیرت اور بے غیرتی کا سوال ہے! جو شخص مہمان کی موجودگی میں خود کھائے اور مہمان کو نہ کھلائے وہ جو کچھ بھی ہونے کا دعویٰ کرے، خاندانی نہیں ہو سکتا۔ اس سے زیادہ پست ہمتی اور دنایت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا!
تیسری نشانی خاندانی انسان کی یہ ہے کہ وہ دست سوال نہیں دراز کرتا۔ گھر میں فاقہ ہو تب بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔ خاص طور پر مانگے تانگے کی شان و شوکت اور طمطراق کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اپنی سواری نہ ہو تو پیدل چل لے گا، کسی سے سواری مانگے گا نہیں اس لیے کہ اسے معلوم ہے سواری کا مالک کسی بھی وقت اپنی سواری واپس مانگ لے گا۔ ایسے میں جو بے عزتی ہو گی اس بے عزتی کو خاندانی انسان کبھی نہیں برداشت کرے گا۔ اگر وہ عالی شان سواری کا شائق ہے تو خود خرید کر رکھے گا۔ ورنہ دست سوال دراز کرنے سے بہتر یہ سمجھے گا کہ جو سواری اس کی اپنی ہے، جیسی بھی ہے، اسی پر قناعت کرے!
چوتھی نشانی یہ ہے کہ خاندانی انسان کی شہرت، کبھی بھی، ایک جھوٹے انسان کی نہیں ہو سکتی! جھوٹ بولنا انسانی فطرت کا خاصہ ہے مگر کچھ لوگ اس قدر تواتر اور مستقل مزاجی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کی عمومی شہرت ایک دروغ گو کی ہو جاتی ہے۔ خاندانی آدمی ایسی شہرت رکھتا ہے نہ اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔ وہ جان تو دے سکتا ہے، اپنی زبان سے نہیں پھر سکتا۔ خاندانی آدمی ایک بار وعدہ کر لے، یقین دہانی کرا دے، کمٹ منٹ کر لے تو پھر پوری دنیا اس پر اعتبار کرتی ہے۔ پھر اگر کوئی عدم اعتماد کی بات بھی کرے تو اس کی بات کوئی نہیں مانتا۔
پانچویں نشانی یہ ہے کہ خاندانی آدمی اپنے دوستوں سے فریب کاری کبھی نہیں کرتا۔ وہ ہر مصیبت میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے چہ جائیکہ ان کی پیٹھ میں چھرا بھونکے۔ جس کے دوست اس کا ساتھ چھوڑ دیں اور بہت زیادہ تعداد میں ساتھ چھوڑتے جائیں وہ نجیب نہیں ہو سکتا۔ یہ ہزاروں سال کا آزمودہ فارمولا ہے کہ اگر خلق خدا کہہ دے کہ فلاں کا دنیا میں کوئی دوست نہیں تو سمجھ لو کہ وہ خاندانی آدمی نہیں۔
اور آخری نشانی یہ ہے کہ خاندانی آدمی احسان فراموش نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک کم حیثیت انسان کا بھی احسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے بے شک وہ احسان معمولی ہی کیوں نہ ہو۔ جو شخص اپنے محسنوں کو بھول جائے وہ طوطا چشم تو ہو سکتا ہے، حیلہ کار اور بے وفا تو ہو سکتا ہے، عالی نژاد نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے تو فرمایا گیا ہے -ہَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ‘ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور کیا ہے۔
بزرگ موتی رول رہے تھے۔ کمرہ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ سب ہمہ تن گوش تھے۔ ہم نے اجازت چاہی اور باہر آگئے۔ ایک نور تھا جو باطن میں موجزن تھا۔