یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے!
کوئی حرمت ِرسول پر جان قربان کر دیتا ہے اور کسی کو اتنا کہنے کی بھی توفیق نہیں ہوتی کہ مسجد ِنبوی میں شورو غوغا اور دنگا فساد کرنے والوں نے برا کیا۔ جو اسلام کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ اسی طرح بے نقاب ہوتے ہیں۔
لیکن اللہ اور اس کے رسول کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہی نہیں! اپنے رسول کی حرمت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود اٹھائی ہوئی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے۔ کرۂ ارض پر ‘ ہر وقت‘ کسی نہ کسی جگہ اشہد ان محمد اًرسول اللہ ضرور کہا جا رہا ہے۔ اگر امریکہ میں صبح کی نماز پڑھی جارہی ہے تو مشرقِ وسطیٰ میں اُس وقت ظہر کی اذانیں ہو رہی ہیں۔ فجی اور آسٹریلیا میں عشا کی نماز کے دوران لوگ السلام علیک ایہا النبی ( سلامتی ہو آپ پر اے نبی ) کہہ رہے ہوتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں اس وقت عصر کی نماز میں اللہم صل علیٰ محمد کہہ کر درود بھیجا جا رہا ہوتا ہے۔
ہر قبر اور ہر چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے والوں کو حرمت رسول کا احساس بھی نہیں ہو سکتا۔یہ تو توفیق کی بات ہے اور توفیق دینے والابندوں کو خوب پہچانتا ہے۔اس نے ترکان عثمان کو توفیق دی اور انہوں نے دنیا کو نمونہ بن کر دکھا دیا کہ اُس جگہ کی عزت کیسے کرنی ہے جہاں اللہ کے آخری رسول تشریف فرما ہیں۔ مسجد نبوی کی توسیع اور تجدید کے دوران جو ادب عثمانی ترکوں نے کر کے دکھایا وہ ضرب المثل بن چکا ہے۔ معمار‘ نقاش‘ شیشہ گر‘ سنگ تراش اور دیگر کاریگر تیار کرنے میں انہیں پچیس سال لگ گئے۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ جن جنگلوں سے لکڑی کاٹی انہیں اس سے پہلے کسی نے چھوا نہیں تھا۔ جن کانوں سے پتھر اور مر مر نکالا انہیں سر بمہر کر دیا۔ سنگ تراشی اور ہر وہ کام جس سے شور ہو سکتا تھا ‘ مدینہ منورہ کی حدود سے باہر کیا جاتا۔ گرد سے بچانے کے لیے جالیوں کو کپڑوں میں لپیٹ دیا گیا۔پتھر کو دوبارہ تراشنا پڑتا تو دوبارہ شہر سے باہر بھیجا جاتا! ایسی محبت‘ ایسی عزت‘ اتنا ادب !! اللہ اللہ! قیامت تک ترکوں کا یہ کارنامہ زندہ رہے گا۔ جن کی زبان سے خاتم النبیین کا لفظ درست نہیں نکل سکتا ‘ انہیں ایسی توفیقات کہاں!
معروف محقق اور سکالر حافظ محمود شیرانی کے فرزند‘ مشہور شاعر‘ اختر شیرانی رندِ بلا نوش تھے۔ ان کے حوالے سے شورش کاشمیر ی کا لکھا ہوا یہ واقعہ مشہور ہے: ''عرب ہوٹل میں ایک دفعہ بعض کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے‘ اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ اس وقت تک شراب کی دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے۔ تمام بدن پر رعشہ طاری تھا‘ حتیٰ کہ الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے۔ ادھر اَنا کا شروع سے یہ حال تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے۔ جانے کیا سوال زیر بحث تھا۔ فرمایا: مسلمانوں میں تین شخص اب تک ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینئس بھی ہیں اور کامل الفن بھی۔ پہلے ابوالفضل‘ دوسرے اسد اللہ خاں غالب‘ تیسرے ابوالکلام آزاد۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے۔ ہمعصر شعرا میں جو واقعی شاعر تھا‘ اسے بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا‘ طرح دے گئے۔ جوش کے متعلق پوچھا‘ کہا: وہ ناظم ہے۔ سردار جعفری کا نام لیا‘ مسکرا دیے۔ فراق کا ذکر چھیڑا‘ ہونہہ ہاں کر کے چپ ہو گئے۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی‘ سامنے بیٹھا تھا۔ فرمایا‘ مشق کرنے دو۔ ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا: ''نام سنا ہے‘‘۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا ''میرا شاگرد ہے‘‘۔ نوجوانوں نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں‘ تو بحث کا رخ پھیر دیا۔
''حضرت! فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ نشہ میں چور تھے۔ زبان پر قابو نہیں تھا‘ لیکن چونک کر فرمایا: ''کیا بکتے ہو؟‘‘۔''ادب و انشا یا شعر و شاعری کی بات کرو۔‘‘ کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا۔ ''ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے؟‘‘ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا‘ مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے‘ فرمایا: ''اجی پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں۔ یہ افلاطون‘ ارسطو یا سقراط آج ہوتے‘ تو ہمارے حلقہ میں بیٹھتے‘ ہمیں ان سے کیا؟ کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔‘‘ اس لڑکھڑاتی ہوئی گفتگو سے فائدہ اٹھا کر ایک قادیانی نوجوان نے سوال کیا۔
''آپ کا محمدﷺ کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
اللہ اللہ! ایک شرابی‘ جیسے کوئی برق تڑپی ہو‘ بلور کا گلاس اٹھایا اور اس کے سر پر دے مارا۔
''بدبخت ایک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ایک سیاہ رُو سے پوچھتا ہے! ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے؟‘‘
تمام جسم کانپ رہا تھا۔ ایکا ایکی رونا شروع کر دیا۔ گھگی بندھ گئی ''تم نے اس حالت میں یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرأت کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب!!
باخدا دیوانہ باش و با محمدﷺ ہوشیار!
اس شریر سوال پر توبہ کرو‘ تمہارا خبث باطن سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔ اس قادیانی کو محفل سے اٹھوا دیا پھر خود اُٹھ کر چلے گئے۔ تمام رات روتے رہے۔ کہتے تھے: یہ بدبخت اتنے نڈر ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں‘ میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنانا چاہتاہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘
صرف نعت کا سوچیں تو انسانی دماغ سن ہو کر رہ جاتا ہے۔ دربارِ نبوت کے شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج تک کتنے شاعروں نے مدحِ رسول میں عرض گزاری کی ہو گی! کتنی زبانوں میں!!اور کتنے زمانوں میں ! شمار کا تو ذکر ہی کیا‘ تصور ہی محال ہے۔ کتنے ہی کلمات ہیں جو ان گنت لوگوں کی زبان سے ادا ہوئے اور ادا ہو رہے ہیں۔ صرف سعدی کے ان چار مصرعوں کا ہی سوچئے۔ بلغ العلیٰ بکمالہ‘ کشف الدجیٰ بجمالہ‘ حسنت جمیع خصالہ‘ صلّو علیہ وآلہ
کب سے پڑھے جا رہے ہیں اور پڑھے جاتے رہیں گے ! جامی کی شہرہ آفاق نعت جس کا ڈکشن ہی نرالا ہے اور اسلوب ہی اچھوتا ہے‘ کتنوں کو رُلا چکی ! اور آنے والے زمانوں میں کتنے دلوں میں چھید کرے گی ! کالم کا دامن تنگ ہے۔ اصل فارسی اشعار کے بجائے صرف ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔'' دردِ فراق سے دنیا کی جان نکلنے والی ہے! رحم ! یا نبیَ اللہ ! رحم! ہماری شبِ غم کو دن بنادیجیے۔آپ کے چہرے ہی سے ہمارا دن ظفر یاب ہو سکتا ہے۔ حضور! یمنی چادر سے اپنا مبارک سر باہر نکالیے۔آپ کا روئے مبارک زندگی کی صبح ہے۔ خوشبودار ملبوس زیبِ تن فرمائیے! مبارک سر پر کافوری عمامہ رکھئے۔طائف کے بہترین چرم سے بنے ہوئے جوتے پہنیے۔ ان کے تسمے ہماری زندگیوں کے دھاگے سے بنائیے۔پھر اپنے حجرہ مبارک سے صحنِ حرم میں قدم رنجہ فرمائیے۔ جو آپ کے راستے کی خاک چومتے ہیں ان کے سر پر قدم رکھیے۔ آپ ابرِ رحمت ہیں! کیا ہی اچھا ہو اگر ان پر نگاہِ کرم ہو جائے جن کے ہونٹ خشک ہیں۔
چمگادڑ کے نہ دیکھ سکنے سے سورج کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ آفتابِ رسالت ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔مسجد نبوی دست بستہ ‘ پُرنم ‘ زائرین سے ہمیشہ چھلکتی رہے گی! جہاں لفظوں سے زیادہ آنسو کام آتے ہیں !