تلاشِ گمشدہ

حالاتِ حاضرہ کی عجیب ترین ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کوئی شریفوں یا زرداریوں کے خلاف ہے تو اسے عمران خان کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی عمران خان کے چار سالہ دورِ اقتدار پر تنقید کرتا ہے تو اسے فوراً شریفوں اور زرداریوں کے ساتھ بریکٹ کر دیا جاتا ہے۔ جو شریفوں کے حامی ہیں وہ بھی مزے میں ہیں۔ جو عمران خان کے ساتھ ہیں وہ بھی مست ہیں۔ جو دونوں کو ناپسند کرتے ہیں وہ دونوں طرف سے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔
مظلوم ترین گروہ وہ ہے جو شریفوں اور زرداریوں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر عمران خان کی طرف لپکا تھا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ جو انصاف‘ جو میرٹ جو طرزِ حکومت مغرب کے جمہوری ملکوں میں رائج ہے‘ اسے پاکستان میں نافذ کریں گے؛ چنانچہ یہ جو گروہ تھا‘ شریفوں اور زرداریوں سے تنگ آکر عمران خان کے جھنڈے تلے آنے والا گرو ہ‘ اس گروہ نے عمران خان کے اس وعدے میں پناہ لی۔اس گروہ میں ایک کثیر تعداد اُن لوگوں کی تھی جو ووٹ ڈالنے زندگی میں پہلی بار گھر سے نکلے۔ ان لوگوں نے عمران خان کو ووٹ دیا۔ ان کی حکومت آنے پر خوش ہوئے۔اب یہ لوگ جب عمران خان کے عہدِ حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو کوئی جواز نہیں کہ جواب میں انہیں شریفوں اور زرداریوں کی بدعنوانیوں پر لیکچر پلائے جائیں۔ اللہ کے بندو! شریفوں اور زرداریوں سے تو تنگ آکر ہی انہوں نے عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ ان کا مسئلہ یہ نہیں کہ عمران خان کا شریفوں اور زرداریوں سے موازنہ کیا جائے۔یہ موازنہ کرتے ہیں عمران خان کا عمران خان سے! عمران خان کے دو روپ ہیں: ایک عمران خان وہ ہے جو پیش از اقتدار تھا یعنی اگست2018ء سے پہلے! دوسرا عمران خان وہ ہے جو بعد از اقتدار ہے یعنی حکومت سنبھالنے کے بعد! یہ بد قسمت گروہ عمران خان کا شریفوں اور زرداریوں سے نہیں‘ بلکہ اُس عمران خان سے مقابلہ کرتا ہے جس نے اس گروہ کو اپنی طرف کھینچا تھا۔ تحریکِ انصاف کی خدمت میں ایک سنجیدہ تجویز ہے کہ ان اسباب و علل کو دریافت کرے جن کی وجہ سے عمران خان کے حامیوں کی اچھی خاصی تعداد بد دل ہوئی۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ متین اور سنجیدہ ارکان کی ایک کمیٹی بنے جو سروے کرے‘ منحرفین کی آرا سنے اور پھر ان اسباب کو مدوّن کرے۔
لیکن اس وقت تحریک انصاف کا جو مائنڈ سیٹ ہے‘ کیا اس میں ایساکرنا ممکن ہے ؟ کیا ایسے ارکان موجود ہیں جو سروے کریں اور بد دل لوگوں کے موقف کو سنجیدگی سے سنیں؟ کیا اپنا محاسبہ کرنے کی اخلاقی جرأت تحریکِ انصاف میں دکھائی دے رہی ہے؟ جس طرح تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک Cultیا فرقہ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور جس طرح سیاسی حمایت اندھی تقلید میں تبدیل ہو چکی ہے اور جس طرح خود احتسابی‘ دروں بینی‘ خود نگری اور معروضیت اس جماعت میں دور دور تک نہیں نظر آرہی‘ اس کے پیش نظر اس اَمر کا کوئی امکان نہیں کہ سابق حامیوں کی بات سنی جائے گی!
اگست2018ء سے پہلے والے عمران خان اُسی دن تاریخ کے دھندلکے میں گم ہو گئے تھے جس دن چیف منسٹر پنجاب کے دفتر میں پاکپتن کے پولیس افسر کی سرزنش‘ چیف منسٹر نے نہیں‘ بلکہ چیف منسٹر کی موجودگی میں گْجر صاحب نے کی تھی ! یہ اس بات کا اعلان تھا کہ صوبہ اصل میں کس نے چلانا ہے اور ڈور کس کے ہاتھ میں ہو گی! اگر عمران خان اسی دن یہ اعلان کر دیتے کہ آئندہ یہ شخص کسی سرکاری معاملے میں مداخلت نہیں کرے گا تو صورتحال مختلف ہوتی ! آپ کاکیا خیال ہے جو لوگ گزشتہ حکومتوں کی اقربا پروری اور دوست نوازی سے تنگ آکر عمران خان کی طرف لپکے تھے ان کے لیے آنکھوں دیکھنا یہ مکھی اور ایسی کئی اور مکھیاں نگلنا ممکن تھا؟ وہی دوست نوازی! جو گزشتہ حکومتوں میں تھی ! تین افراد میں سے دو کو چور کہا۔ تیسرے کو سب سے بڑا ڈاکو کہا۔ مان لیا! سو فیصد درست ! مگر پھر جس کو سب سے بڑا ڈاکو کہا اسے ساتھ ملا لیا! آج تک اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ کم از کم یہی کہہ دیتے کہ وہ جو ہم نے کہا تھا کہ سب سے بڑا ڈاکو ہے تو غلط کہا تھا! ایک اور صاحب کو کہا کہ چپڑاسی رکھے جانے کے قابل نہیں۔ انہیں وزارت دے دی ! وزارت بھی وہ جو حساس ترین وزارتوں میں سے ہے! کم از کم یہی کہہ دیتے کہ چپڑاسی والی بات نہیں کہنی چاہیے تھی ! عمران خان کے فین کلب کی بات اور ہے۔ مگر وہ جو سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے ہیں اور کسی کے فین ہیں نہ اندھے مقلد‘ ان کے لیے یہ قلابازیاں مضحکہ خیز ہی نہیں‘ ناقابلِ قبول تھیں!
یہ لوگ وزیر اعظم عمران خان کا مقابلہ شریفوں یا زرداریوں سے نہیں کرتے۔ یہ عمران خان کا مقابلہ عمران خان سے کرتے ہیں۔ کہاں گیا وہ عمران خان جس نے کہا تھا کہ کابینہ سترہ ارکان پر مشتمل ہو گی؟جس نے پی ٹی وی کے سربراہ کو للکارا تھا کہ ہرماہ پینتیس روپے کا جگا ٹیکس کیوں لیتے ہو؟ جس نے بجلی کے بل کو نذر آتش کیا تھا۔ جس نے اُن حکومتوں کی بار بار مذمت کی تھی اور انہیں رد کیا تھا جنہیں شیخ رشید‘ عمر ایوب‘ فہمیدہ مرزا‘ خسرو بختیار‘ اعظم سواتی‘ رزاق داؤد‘محمد میاں سومرو‘ زبیدہ جلال اور فواد چوہدری چلاتے رہے۔ جو پوچھتا تھا کہ سرکاری عمارتیں شریفوں اور زرداریوں کے نام کیوں کی جاتی ہیں؟ جوکہتا تھا کہ جب بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتو سمجھ جاؤ وزیراعظم چور ہے۔ یہ لوگ جو عمران خان کے حامی تھے اور اس کے اسلوبِ حکمرانی کو دیکھ کر اس کا ساتھ چھوڑ گئے‘ آج بھی اُس عمران خان کے ساتھ ہیں جو اگست 2018ء سے پہلے والا عمران خان ہے اور جو گُم ہو گیا ہے!
عمران خان امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا‘ سویڈن‘ ڈنمارک اور جرمنی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ ان کے وابستگان کو سوچنا چاہیے کہ ان میں سے کون سا ملک ہے جس کا حکمران ہر روز‘ گھر سے دفتر‘ اور دفتر سے گھر‘ ہیلی کاپٹر میں آتا جاتا ہے؟ جو دوسرے ملکوں کے حکمرانوں سے جہاز مانگ کر اس میں سفر کرتا ہے اور پھر اسے راستے کے بیچ جہاز سے اتار دیا جاتا ہے ؟ کس مغربی اور کس جمہوری ملک میں سب سے بڑے صوبے کو اُس گمنام Non entityکے سپرد کیا جاتا ہے جسے خود وزیراعظم بھی نہ جانتا ہو‘ جو بولنے‘ لکھنے‘ بحث کرنے اور فیصلہ کرنے کے قابل ہی نہ ہو ! ان میں سے کون سا ملک ہے جہاں صوبے کا چیف سیکرٹری‘ آئی جی پولیس اور دیگر اعلیٰ حکام ہر چند ہفتوں بعد بدل دیے جاتے ہوں اور لوگ ایسی گورننس کا مذاق اڑاتے ہوں؟
شریفوں اور زرداریوں کو چھوڑیے۔ان کی کرپشن‘ ان کی بدعنوانیاں‘ یہ لوگ مانتے ہیں! یہ بتائیے کہ اگست 2018ء سے پہلے والا عمران خان اب کہاں ملے گا؟ یہ لوگ جو عمران خان کے ساتھ تھے اور چار سالہ دور حکومت سے بد دل ہو کر پیچھے ہٹ گئے‘ دوبارہ عمران خان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں مگراُس عمران خان کا جو ابھی حکومت میں نہیں آیا تھا! وہ کہاں ہے ؟ تحریک انصاف کو اس کا اتا پتا معلوم ہو تو از راہ کرم اطلاع دے !!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں