غالب نے بہت کچھ لکھا۔ فارسی میں بھی اُردو میں بھی! مگر شہرت کے آسمان پر ان کے صرف دو کام جگمگائے۔ اُردو کا دیوان اور اُردو میں لکھے ہوئے خطوط! غالب کے خطوط نے اُردو نثر کی جہات ہی بدل ڈالیں! خطوط ادب کی باقاعدہ صنف ہے ! جاں نثار اختر کے نام صفیہ کے خطوط‘ جو ''زیر لب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے‘ ادب کا حصہ ہیں۔ ابوالکلام آزاد کی تصنیف ''غبارِ خاطر‘‘ جو خطوط ہی کا مجموعہ ہے‘معرکہ آرا کتاب ہے اور کلاسکس میں شمار ہوتی ہے! اقبال کے خطوط چار ضخیم جلدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اقبال کی زندگی‘ اقبال کے پیغام اور اقبال کی تصانیف کو سمجھنے کے لیے ان خطوط کا مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ انگریزی ادب میں خطوط کے حوالے سے بہت کام ہوا ہے۔مشہور ناول نگار شیرلٹ برونٹی کے چھ خطوط‘ جو اس نے اپنے محبوب‘ ہیگر‘ کو لکھے‘ ادب اور رومان کا ایسا سنگم ہیں جو دردناک ہے اور دلکش بھی ! ہیگر کی بیوی نے پھاڑے گئے ان خطوط کو سی کر کس طرح انہیں نئی زندگی دی‘ یہ ایک الگ داستان ہے۔ سترہویں صدی کے ڈراما نگار اور شاعر تھامس اَوٹ وے کے غم انگیز عاشقانہ خطوط بھی انگریزی ادب کا حصہ ہیں۔
مقصد اس تمہید کا خطوط کی تاریخ بیان کرنا نہیں! یہ سب کچھ ارتجالاً اس لیے لکھ دیا کہ عطا الحق قاسمی کو جن قابلِ ذکر لوگوں نے خطوط لکھے‘ انہیں معروف سکالر ڈاکٹر عائشہ عظیم نے ایک کتاب کی صورت میں یکجا کردیا اور یہ کتاب اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ان خطوط کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ مختلف مکاتبِ فکر اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف افراد کی طرف سے لکھے گئے ہیں۔ ان میں ملکی تاریخ بھی ہے‘ادبی مسائل بھی ہیں‘ باہمی رشتوں کا رکھ رکھاؤ بھی ہے‘ شخصی تذکرے بھی ہیں اور بحث مباحثہ بھی ہے۔ اس مجموعۂ خطوط میں کس قدر تنوّع ہے اور کس قدر بو قلمونی ہے‘ اس کا اندازہ صرف چند ناموں ہی سے ہو جائے گا جن کے خطوط شامل ہیں۔ ابن انشا‘ ظفر اقبال‘ احمد ندیم قاسمی‘ اکرام چغتائی‘ الطاف گوہر‘ جسٹس جاوید اقبال‘ جمیل الدین عالی‘ حفیظ جاندھری‘ محمد خالد اختر‘ رئیس امروہوی‘ ساقی فاروقی‘ سراج منیر‘ محمد سلیم الرحمان‘ ڈاکٹر سید عبداللہ‘شفیق الرحمن‘ شمس الرحمن فاروقی‘ ضمیر جعفری‘ ڈاکٹر عبد السلام خورشید‘ عبداللہ حسین‘ قدرت اللہ شہاب‘ اور مظفر علی سید تو وہ چند حضرات ہیں جن کا حوالہ ادب ہے۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کے خطوط بھی شامل ہیں۔ مولانا زاہدالراشدی‘ مولانا حامد سعید کاظمی‘ مولانا ساجد نقوی‘ مولانا سمیع الحق‘مولانا ضیا القاسمی‘ مولانا عطا المحسن بخاری‘ علامہ مفتی کفایت حسین نقوی ان میں سے چند نام ہیں۔ سیاست دانوں کے خطوط بھی شامل ہیں اور صحافیوں کے بھی! یوں یہ تالیف‘پاکستان کی تاریخ کے اعتبار سے ایک مستند دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
245معروف شخصیات کے خطوط جہاں عطا کی وسیع المشربی پر دال ہیں وہاں یہ ایک بہت بڑے سپر سٹور کی طرح بھی ہیں جہاں ہر شخص اپنے مطلب کی اور اپنی ضرورت کی شے‘ اپنے ذوق اور اپنے حسنِ انتخاب کے لحاظ سے چُن سکتا ہے۔ میری دلچسپی کے خطوط کئی حضرات کے ہیں مگر یہاں صرف دو کا ذکر کروں گا۔ ایک تو جناب اکرام چغتائی کے خطوط ہیں جو دامنِ دل کھینچتے ہیں۔ اکرام چغتائی بہت بڑے محقق اور بلند پایہ سکالر ہیں۔اور حد سے زیادہ منکسر المزاج ! بیسیوں تحقیقی کتابوں کے مصنف مگر تشہیر سے یکسر بے نیاز۔ جرمن زبان پر عبور رکھتے ہیں۔ آسٹریا کی حکومت اور وہاں کے علمی اداروں نے چغتائی صاحب کوکئی اعزازات سے نوازا ہے۔ محمد اسد پر وہ اتھارٹی ہیں اور ان کے احوال پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کے خطوط سے‘ جو انہوں نے عطا الحق قاسمی کو لکھے‘ مترشح ہوتاہے کہ ایک محقق اور سکالر جب بیرونِ ملک جاتا ہے تو اس کی دلچسپیاں سیر و تفریح میں نہیں‘ کتب خانوں میں ہو تی ہیں۔ اکرام چغتائی‘ وی آنا ( آسٹریا) سے لکھتے ہیں : ''اس شہر کے کتاب خانوں میں ایسے ایسے نوادرات پوشیدہ ہیں کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسی دور افتادہ جگہ پر دستیاب ہوں گے۔ ابتدائی چند روز تو یہاں کے کتب خانے‘ ادارے اور وی آنا یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کی لائبریریوں کو کھنگالنے میں صرف ہو گئے۔ اس جائزے کے بعد مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ یہاں اگر میرے مطلب کی کوئی چیز ہے تو وہ آسٹریا کی نیشنل لائبریری ہے جو یورپ کی قدیم ترین لائبریریوں میں شمار ہوتی ہے اور جس کے خزانوں کی دھوم چہار دانگِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے‘‘۔
آسٹریا کی نیشنل لائبریری کے بارے میں چغتائی صاحب مزید لکھتے ہیں اور اسے پڑھتے وقت یہ بھی سوچیے کہ ہم‘ اس میدان میں کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا وجود اس لحاظ سے قابلِ ذکر بھی ہے یا نہیں ! ... ''بھائی ! یہ لائبریری علم و دانش کی ایک دنیا اپنے اندر سمیٹے ہے۔ کسی بھی موضوع پر کام شروع کیجیے‘ اس کے متعلق اتنامواد اس لائبریری میں مل جاتا ہے کہ آدمی اخذ و ترک کے مسئلے میں الجھ جاتا ہے۔ اس کی بہت بڑی عمارت ہے جس کے آٹھ مختلف شعبے ہیں جو مختلف موضوعات کی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں۔ان میں ایک شعبہ قلمی نسخوں کا ہے جس میں عربی‘ فارسی اور ترکی کے ہزاروں مخطوطات انتہائی محفوظ حالت میں رکھے ہوئے ہیں۔ عربی فارسی اور ترکی کے مخطوطات کی ایک جامع فہرست مشہور مستشرق فلیوگل نے تین جلدوں میں1868ء میں شائع کی تھی۔ اس کے بعد کے حاصل شدہ عربی مخطوطات کی جامع فہرست بھی شائع ہو چکی ہے‘‘۔جس دوسری شخصیت کے خطوط نے متوجہ کیا وہ جگن ناتھ آزاد ہیں۔ ان کے تیس خطوط شاملِ کتاب ہیں۔یہ خطوط 1977ء اور1997ء کے درمیانی عرصہ میں لکھے گئے۔ ان میں جا بجا ایک معروف روزنامہ کے ادبی صفحہ کا ذکر ہے جو عطا ایڈٹ کرتے تھے۔ در حقیقت اخبارات کے ادبی صفحے کی ابتدا عطا ہی نے کی تھی۔ جگن ناتھ آزاد ان خطوط میں ڈاکٹر جاوید اقبال‘ مجید نظامی‘ احمد ندیم قاسمی‘ وقار انبالوی‘ محمد طفیل اور کئی دیگر مشاہیر کا ذکر کرتے ہیں جن سے ان کے تعلقات تھے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ جب جگن ناتھ آزاد اور ان سے تعلق رکھنے والے یہ ممتاز افراد دنیا سے رخصت ہو گئے تو یہ درفطنی چھوڑی گئی کہ پاکستان کا قومی ترانہ قائد اعظم نے جگن ناتھ آزاد سے لکھوایا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ قیام ِپاکستان کے وقت جگن ناتھ آزاد کی عمر انتیس سال تھی اور قائد اعظم کی اکہتر برس! اس وقت نوجوان جگن ناتھ آزاد لاہور کے ایک‘ اینٹی پاکستان‘ ہندو اخبار میں کام کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صفدر محمود پر خدا اپنی رحمتیں برسائے‘ انہوں نے اس جھوٹ کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے۔ ایک ایک متعلقہ شخص سے ملے‘ ایک ایک دستاویز چھانی اور تیرہ ناقابلِ تردید دلائل اس جھوٹ کے رد میں پیش کیے جن کا کوئی جواب آج تک نہ دے سکا! مزے کی بات یہ ہے کہ خود جگن ناتھ آزاد نے اپنی زندگی میں یہ دعویٰ کبھی نہ کیا۔ جگن ناتھ آزاد کے ان تیس خطوط میں بھی‘ جو اس مجموعہ خطوط میں شامل ہیں‘ اس بات کا کوئی ذکر نہیں !
خطوط پر مشتمل یہ کتاب ادب اور سیاست کے قارئین کے لیے تو دلچسپی کی حامل ہے ہی‘ تحقیق کرنے والوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا سورس ہے۔ان خطوط سے کئی جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں اور کئی تنازعے پیدا بھی ہو سکتے ہیں !