چالیس فیصد کٹوتی؟
نہیں جناب وزیراعظم! نہیں! ایسا نہ کیجیے! اللہ سے ڈریے! چالیس فیصد نہیں‘ سو فیصد کٹوتی کیجیے!
چالیس فیصد کٹوتی کا مطلب ہے کہ جسے تین سو لٹر پٹرول سرکار کی طرف سے مفت مل رہا تھا‘ اب اسے ایک سو اسی لٹر ملے گا جس کی قیمت 37800 روپے بنتی ہے جو صرف ایک مہینے کا خرچ ہے۔ سال کا خرچ ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ ہوگا۔ بہت سوں کو ماہانہ پانچ سو لٹر مفت پٹرول ملتا ہے۔ چالیس فیصد کٹوتی کا مطلب ہے کہ انہیں اب تین سو لٹر مفت ملے گا جس کی سالانہ قیمت ساڑھے سات لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ ہزاروں افراد کو حکومت کی طرف سے پٹرول اعزازی مل رہا ہے۔ وفاق کے افسر‘ صوبوں کے افسر‘ وفاق کے وزیر‘ صوبوں کے وزیر‘ وزرائے اعلیٰ‘ گورنر‘ ان کے سینکڑوں سٹاف افسر‘ جج حضرات‘ عساکرکے افسران‘ سفارت خانوں کے پٹرول کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں! یہ سارا بوجھ عوام اٹھا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام بار برداری کے جانور ہیں جن پر مراعات یافتہ طبقہ سواری کر رہا ہے۔ سابق وزیراعظم چار سال سرکاری ہیلی کاپٹر کو تبدیلی کے نام پر رکشے کی طرح استعمال کرتے رہے۔ انہیں اس کا بِل دیا جائے جس کی وہ ادائیگی کریں۔ موجودہ وزیراعظم پٹرول کا خرچ اپنی جیب سے ادا کریں۔ ان کی کابینہ بھی۔ وزیراعظم لاہور والے گھروں کو سرکاری گھر نہ ڈیکلیئر کریں! پچھلے سے پچھلے سال کے جو سرکاری اعدادو شمار تھے ان کے مطابق بزدار صاحب نے اپنے تونسہ اور ملتان والے گھر بھی سی ایم ہاؤس ڈیکلیئر کر یا کرا رکھے تھے۔ ایوانِ صدر‘ وزیراعظم ہاؤس اور وزیراعظم کے دفتر کے خراجات بھی کم کرنے چاہئیں!
ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ سر پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔ اللّے تللّے ہمارے امیر قوموں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ دفتروں سے افسر اُٹھ جائیں یا آئے ہی نہ ہوں‘ ایئر کنڈیشنرز چلتے رہتے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں ہر جا و بے جا کام کے لیے بیگار کاٹ رہی ہوتی ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ گریڈ بیس اور بیس سے اوپر کے افسروں کو کہا گیا کہ گاڑیاں اپنی استعمال کرو اور خود چلاؤ۔ اس کے بدلے میں انہیں بھاری الاؤنس ہر مہینے دیا جا رہا ہے۔ کسی کو ستر ہزار‘ کسی کو نوے ہزار مگر عملاً سرکاری گاڑیاں بھی استعمال ہو رہی ہیں اور ڈرائیوروں کی تعداد بھی نہیں گھٹی! ہر اقدام احمقانہ ہے۔ ہر وہ کام جو نجی شعبے میں سیٹھ نہیں کرتا کیونکہ اسے وارا نہیں کھاتا‘ وہ سرکاری شعبے میں ہو رہا ہے۔ کسی کے دل میں درد ہوتا ہے نہ کسی کی ذاتی جیب کو فرق پڑتا ہے۔ اگر بزدار صاحب اتنے ہی نابغہ ہیں تو عمران خان ان کی خدمات اپنی یونیورسٹی اور اپنے ہسپتال کے سپرد کیوں نہیں کر دیتے؟ اگر وہ پنجاب کے لیے موزوں ہیں‘ وہ پنجاب جو یورپ کے کئی ملکوں سے رقبے اور آبادی‘ دونوں اعتبار سے بڑا ہے‘ تو انہیں ہسپتال یا یونیورسٹی کا سربراہ بنانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ سرکاری کام میں خلوص عنقا ہے۔ اپنے ذاتی کام میں خلوص‘ نیک نیتی‘ احتیاط‘ عقلمندی‘ مردم شناسی سب کچھ موجود ہے۔
وزیراعظم نے صاحبزادے کو چیف منسٹر بنوا دیا۔ کچھ تو سوچتے۔ کیا یہ مناسب ہے؟ ایک ہی خاندان وفاق اور پنجاب دونوں پر حکمران ہے! کیا پوری (ن) لیگ میں ایسا کوئی نہ تھا جو چیف منسٹر بنایا جاتا؟ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کسی اور کو بناتے تو سب متفق نہ ہوتے اور پارٹی انتشار کا شکار ہو جاتی! یہ وہی عذر لنگ ہے جو عمران خان عثمان بزدار کے حوالے سے پیش کرتے ہیں! پارٹی کیوں انتشار کا شکار ہو جاتی؟ آپ پارٹی کو قائل کرتے! سمجھاتے! کیا خواجہ آصف‘ سعد رفیق‘ احسن اقبال اور دوسرے (ن) لیگی سیاستدان اس لیے چیف منسٹر نہیں بن سکتے کہ ان کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے؟ پارٹی کی نائب صدارت ہو یا صوبے کی چیف منسٹری‘ سب کچھ خاندان ہی میں رہے! قمر جلالوی نے کہا تھا:
یہ ایسی بات ہے جو درگزر نہیں ہوتی!
کب تک خاندانی اجارہ داریاں چلیں گی؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہاں ابھی تک تغلق‘ خلجی‘ لودھی اور مغل خاندانوں کی پیروی میں بھٹو اور شریف خاندان حکمران ہیں۔ مفتی محمود صاحب اور باچا خان کے خاندان بھی حکمرانی کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ عمران خان پچیس سال سے پارٹی پر قابض ہیں۔ گجرات کا حکمران خاندان بھی نئی نسل لیے سامنے آچکا۔ چوہدری سالک حسین‘ مونس الٰہی اور بلاول زرداری تینوں ماشاء اللہ ارب پتی اراکینِ اسمبلی میں شامل ہیں! علیم خان ہوں یا جہانگیر ترین یا نور عالم خان‘ یہ صرف امارت ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں لگتا ہے پاکستان میں طویل عرصے تک امارت ہی معیار رہے گی اور دولت مند ہی حکمرانی کا حق رکھیں گے! اس رجحان سے تنگ آکر مڈل کلاس عمران خان کی طرف لپکی تھی مگر انہوں نے بھی جسٹس وجیہ الدین جیسے افراد کو پارٹی سے باہر نکال دیا اور دولت مندوں کی منڈلی سجا لی! اب تحریک انصاف زخم چاٹے یا ماتم کرے‘ وہ آزمائی جا چکی۔ اب اس میں اور دوسری سیاسی جماعتوں میں پرِکاہ کا فرق نہیں! ہماری قسمت اس معاملے میں بھی ''کسمت‘‘ نکلی! تبدیلی لانے کا دعویدار رہنما ہیلی کاپٹر اور چارٹرڈ جہاز سے کم کسی بات پر راضی ہی نہیں! یہ شوق ان کا Obsession بن چکا ہے۔ یہاں تک کہ ایک شہزادے کے جہاز پر امریکہ گئے۔ واپسی پر جو کچھ ہوا‘ پورے ملک کے لیے باعثِ عزت نہ تھا! مگر عزت کس چڑیا کا نام ہے؟
یہ ارب پتی جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور اسمبلیوں سے باہر ہیں اگر اپنی اپنی دولت کا دسواں حصہ بھی دیں تو ملک کے قرضے اتر جائیں گے۔ کاش! کچھ مخلص افراد آگے بڑھیں اور ملک کے قرضے اتارنے کے لیے پیسے جمع کریں! یہ ارب پتی دیں یا نہ دیں‘ مڈل کلاس ضرور دے گی! مفتی صدرالدین آزردہ کا شعر ہے:
کامل اس فرقۂ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
کسی سرسیّد کی ضرورت ہے‘ کسی ایدھی کی ضرورت ہے‘ جس پر لوگ اعتبار کریں اور جو جمع شدہ رقم سے واقعی قرضے اتارے‘ چارٹرڈ جہازوں پر اور محلات پرنہ خرچ کر دے۔
آپ ہمارے حکمرانوں کی عزتِ نفس ملاحظہ کیجیے۔ پرویز مشرف نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ فلاں بادشاہ نے انہیں مکان خرید کر دیا۔ عمران خان ایک شہزادے سے جہاز مانگ کر امریکہ گئے۔ میاں صاحب‘ جدہ ہو یا لندن‘ محلات کے سوا رہ ہی نہیں سکتے! فقہ میں قصر نمازوں کے جو احکام ہیں ان میں دو اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں۔ وطنِ اقامت! جہاں مسافر آدھی نماز ادا کرتا ہے اور وطنِ اصلی! یعنی جہاں اس کا گھر ہے اور جہاں سفر سے واپسی پر پوری نماز پڑھتا ہے۔ لگتا ہے میاں صاحب کا وطنِ اصلی اب لندن ہی ہے! اگر حکمرانی کے لیے پاکستان آنا بھی پڑے تو یہ وطنِ اقامت ہی ہوگا! ویسے جس طرح ہمارا ستارہ گردش میں آیا ہوا ہے اور جس طرح ہمیں تیرہ بختی نے گھیرا ہوا ہے‘ کسی کے لندن میں رہنے یا پاکستان میں رہنے سے ہمارے ستارے کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا! وہ جو لندن میں نہیں رہتے‘ انہیں بھی ہم آزما چکے! ہماری قسمت کا حال تو صائب کے اس شعر میں ہے
ہر شب کواکب کم کنند از روزء ما پارہ ای
ہر روز گردد تنگ تر سوراخِ این غربال ہا
رات آتی ہے تو ستارے ہماری روزی سے ایک ٹکڑا کم کردیتے ہیں ! دن آتا ہے تو ان چھلنیوں کے سوراخ زیادہ تنگ ہو جاتے ہیں۔