بستی میں داخل ہوتے ہوئے جو گھر سب سے پہلے پڑتا تھا اس کا دروازہ تھا نہ بیرونی دیوار۔ سامنے صحن نظر آتا تھا۔ صحن کے درمیان میں دھریک کے درختوں کا جھنڈ تھا۔ اُن دھریکوں کے نیچے‘ چارپائی پر ایک بابا پڑا رہتا تھا۔ نیم دراز‘ سرہانے سے ٹیک لگائے ہوئے۔ عینک کی دونوں کمانیوں پر دھجیاں لپیٹی ہوئیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک سرسبز شاخ ہوتی تھی جس سے وہ مکھیاں اڑاتا رہتا تھا۔ یاد نہیں کہ کبھی اس کے پاس گاؤں کا کوئی آدمی بیٹھا ہوا ہو۔ نہیں معلوم اس کی عیادت کے لیے کوئی آتا تھا یا نہیں۔ ہو سکتا ہے جو دائمی طور پر چارپائی کے ساتھ لگ جائے‘ اس کی عیادت کو لوگ نہ آتے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے دو تین بار آتے ہوں پھر آنا چھوڑ دیتے ہوں! گاؤں کے ایک اور بابا جی یاد آ رہے ہیں۔ دراز قد۔ اونچا شملہ! اس زمانے میں یونین کونسل کا ممبر ہونا بڑی بات تھی۔ وہ اپنی یونین کونسل کے ممبر تھے یا شاید سربراہ! کئی کئی دن سفر میں رہتے۔ علاقے بھر میں نام تھا۔ قسمت کا پھیر کہ بیمار ہو گئے۔ بیماری بھی فالج کی! اٹھارہ سال بستر پر رہے۔ سوائے گھر والوں کے اتنا عرصہ کون عیادت کرتا!
تیمارداری اور عیادت! یوں کہیے کہ باقاعدہ سائنس ہے! تیماردار کو مریض کے پاس مستقل ہونا ہوتا ہے۔ اسے اٹھانا‘ بٹھانا‘ وقت پر دوا دینا‘ نہلانا‘ لباس تبدیل کرانا‘ اس کے کمرے کی صفائی کا خیال رکھنا! یہ سب تیمارداری کے اجزا ہیں! جن کے والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک‘ بیمار ہو یا اتنا بوڑھا یا بوڑھی کہ بحالی کا امکان ختم ہو جائے‘ انہیں تیمارداری کرنا ہوتی ہے۔ ایک صاحب نے کہا تھا کہ بوڑھے والدین جنت کا ٹکٹ ہیں۔ بخت کا ستارہ روشن ہو تو اولاد یہ ٹکٹ کٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تیرہ بختوں سے یہ ٹرین چھوٹ جاتی ہے! اپنے ارد گرد دیکھیے! آپ کو ایسے مرد یا ایسی عورتیں ضرور نظر آجائیں گی جنہوں نے اپنے ماں باپ کی یا ساس سسر کی مثالی خدمت کی! اور ایسے بد قسمت بھی مل جائیں گے جنہوں نے اس معاملے میں غفلت اور بد دلی دکھائی! اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اگر کسی کو خدمت کا موقع ملا ہو تو وہ ہر گز اس زعم میں نہ پڑے کہ اس نے حق ادا کردیا۔ بس خواہش یہ کرے کہ جو کوتاہیاں اس ضمن میں ہوئیں وہ معاف ہو جائیں اور پکڑ نہ ہو!
رہی عیادت یعنی کسی مریض کے پاس تھوڑی دیر کے لیے جا کر اس کا حال پوچھنا‘ تو یہ ایک الگ باب ہے اور ہم میں سے اکثر نے یہ باب بالکل نہیں پڑھا ہوا۔ مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ ایک بار وہ بیمار پڑے تو عیادت کرنے کے لیے جو لوگ آئے ان میں سے صرف ایک صاحب ایسے تھے جنہوں نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ فلاں ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور فلاں دوا کھاؤ! ہم جب کسی کی عیادت کے لیے جاتے ہیں تو یہ فرض کر کے جاتے ہیں کہ یہ بیمار کسی ڈاکٹر کے پاس گیا نہ کوئی دوا لے رہا ہے نہ یہ تعلیم یافتہ ہے نہ اس کا کوئی تیمار دار ہے! بس اس کی صحت کا سارا انحصار اُن مشوروں پر ہے جو ہم نے دینے ہیں۔ اسے کہیں گے کہ فلاں ڈاکٹر کے پاس جاؤ! پھر اس کے کلینک کا راستہ سمجھائیں گے۔ ارے بھئی! جس ڈاکٹر کا وہ علاج کرا رہا ہے اس ڈاکٹر میں کیا نقص ہے؟ اور آپ کیوں ایک اور ڈاکٹر کا بتا رہے ہیں؟ بعض تو یہ بھی کہیں گے کہ چلیے میں آپ کو فلاں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں! ایسے مواقع پر عقل مند مریض یا اس کے تیماردار شکریہ ادا کر کے بات ختم کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ مریض یا ان کے تیمار دار ایسے مشوروں پر عمل کر کے خوب خراب ہوتے ہیں۔ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے! ایک بزرگ گاؤں سے تشریف لائے۔ ان کو راولپنڈی کے ایک معروف ڈاکٹر کے پاس بھیجا۔ کچھ دیر کے بعد فون کیا تو مرحوم ٹیکسلا میں کسی کلینک کی انتظار گاہ میں بیٹھے تھے۔ سبب پوچھا تو کہنے لگے۔ پنڈی والے ڈاکٹر کے ہاں ایک مریض ٹیکسلا والے ڈاکٹر کی بہت تعریف کر رہا تھا۔ سو میں یہاں چلا آیا۔
اور دوا! دوا کے حوالے سے مشورے ہمارے ہاں چھوٹے بڑے‘ عورت مرد‘ جاہل عالم سب دیتے ہیں اور فیاضی سے دیتے ہیں۔ کوئی کہے گا نیم کے پتے چبائیں! کوئی کہے گا فلاں شے کا رس نکال کر اس میں فلاں چیز گھول کر پئیں۔ ہمارا کلچر ایسا ہے کہ ہر خاندان کی الگ گھریلو طب ہوتی ہے جو پڑنانی اور پڑدادی سے نسل در نسل چل رہی ہوتی ہے۔ ہم کسی کی عیادت کرتے ہیں تو اپنے خاندانی نسخوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ مریض کی عمر پوچھتے ہیں۔ کچھ خوفناک مثالیں دیں گے کہ فلاں کو یہی تکلیف تھی‘ وہ جانبر نہ ہو سکا۔ کچھ ملاقاتی آپس میں گپیں ہانکنے لگتے ہیں جبکہ مریض کو سکون درکار ہوتا ہے۔ کچھ حضرات عیادت کے لیے آئیں تو اٹھنے کا نام نہیں لیتے یہاں تک کہ مریض اور اس کے متعلقین تنگ پڑ جاتے ہیں۔ ہسپتالوں کا عملہ ان عیادت کرنے والوں سے پریشان رہتا ہے۔ قاعدہ اور ضابطہ ہمارے ہاں ایک بیکار شے ہے۔ ملاقات کا وقت مقرر ہوتا ہے مگر ہم میں سے اکثر ان اوقات کی خلاف ورزی کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ بچوں کا لانا ممنوع ہو تو بچے اندر لے جانے کی ضد کریں گے۔ مریض کے آرام کا خیال نہیں کریں گے۔ ایک ہسپتال کے اہلکار کی بات یاد آرہی ہے۔ کسی ملاقاتی سے کہہ رہا تھا کہ آپ لوگ ایک درجن مالٹے اٹھائے آجاتے ہیں اور مریض کو آرام نہیں کرنے دیتے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ کچھ ملاقاتی مریض کے کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کچھ یہ توقع کرتے ہیں کہ چونکہ وہ عیادت کے لیے تشریف لائے ہیں اس لیے ان کی خدمت میں چائے پیش کی جانی چاہیے۔ عیادت کرنے کے حوالے سے کچھ لطیفے اتنے مشہور ہیں کہ کلاسیک کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ ملاقاتی نے مریض کا حال پوچھا۔ مریض نے بتایا کہ بخار الحمدللہ ٹوٹ گیا ہے‘ ہاں! گردن میں درد باقی ہے۔ اس پر ملاقاتی نے وفورِ جذبات میں امید ظاہر کی کہ ان شاء اللہ گردن بھی ٹوٹ جائے گی! ایک شخص بہرا تھا۔ عیادت کے لیے گیا تو جانے سے پہلا اپنی طرف سے ذہن میں پورا منظرنامہ تیار کر کے گیا کہ حال پوچھوں گا تو وہ کہے گا: بہتر ہوں۔ اس پر میں کہوں گا: الحمدللہ۔ پھر ڈاکٹر کا پوچھوں گا۔ وہ کسی ڈاکٹر کا نام لے گا۔ اس کا مورال اونچا کرنے کے لیے ڈاکٹر کی تعریف کروں گا۔ پھر خوراک کا پوچھوں گا۔ وہ بتائے گا کہ دلیا یا چاول! تو میں کہوں گا کہ مناسب ہے۔ بد قسمتی سے مریض اس دن اپنی جان سے بیزار تھا اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ ملاقاتی نے پوچھا کیسے ہیں۔ مریض نے جواب دیا: بس مر رہا ہوں۔ ملاقاتی نے تیار شدہ مکالمے کی رُو سے الحمدللہ کہا۔ پھر پوچھا علاج کون کر رہا ہے۔ جواب ملا: عزرائیل! اس پر اس نے کہا کہ بہت اچھا معالج ہے۔ علاج جاری رکھیے۔ آخر میں خوراک کا پوچھا تو مریض نے کہا: زہر۔ ملاقاتی نے کہا کہ ہاں! یہ بیماری میں بہت مفید ہے!
جو ہماری عیادت کو آتے ہیں ان پر تو اختیار نہیں! مگر جب ہم کسی کی عیادت کو جائیں تو عیادت کے آداب پر عمل کر سکتے ہیں۔