اس قوم کی قسمت بھی عجیب ہے۔جب بھی گرتی ہے پہلے سے زیادہ اونچے آسمان سے گرتی ہے اور پہلے سے زیادہ مشکل کھجور میں اٹکتی ہے۔
مانیکا اور گجر خاندانوں سے جان چھوٹی تو نئے خاندان اس بھوکی ننگی‘ قلاش‘ بے بس‘ بے کس قوم پر حکمرانی کرنے کے لیے آگئے۔ ایک وفاقی وزیر کے ملازموں اور گارڈز نے جو کچھ کیا ہے ‘ اس کی وڈیو تا دم تحریر لاکھوں افراد دیکھ چکے ہیں۔ایک وزیر کا کھانا لینے کے لیے ایک نہیں کئی گاڑیاں ریستوران کے باہر کھڑی ہیں۔ ان گاڑیوں نے راستہ بلاک کر رکھا ہے۔ دوسرے گاہکوں اور ان کی فیملیوں کے لیے راستہ بند ہے۔ چونکہ یہ ون وے ہے اس لیے ان گاہکوں اور فیملیوں کو ‘ ون وے کی خلاف ور زی کر کے ‘ گھوم کر‘ دوسری طرف سے آنا پڑ رہا ہے۔ ان گاڑیوں سے بندوق بردار گارڈ اتر کر‘ بندوقیں تانے‘ ریستوران کے سامنے مختلف جگہوں پر کھڑے ہیں۔ ان میں وردیاں پہنے سرکاری سپاہی بھی ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ انہیں کچھ کہے۔ گاڑیاں بھی سرکاری ہیں۔ یہ سب بڑی گاڑیاں ہیں جیسے ڈبل کیبن! مبینہ طور پر آدھ گھنٹے سے ‘ یا جتنی دیر سے اندر کھانا تیار ہو رہا ہے‘ یہ گاڑیاں سٹارٹ ہیں یعنی انجن چل رہے ہیں۔ یہ سارا پروٹوکول‘ وزیر کا نہیں‘ بلکہ ان کے کھانے کا اور کھانا لانے کا ہے۔ یہ سب کچھ ہولناک ہے۔ مگر ہولناک ترین بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر گاڑیوں کے آگے یا پیچھے کوئی نمبر ہے نہ نمبر پلیٹ !
یہ ہیں ہمارے حکمران! پٹرول اور ڈیزل کی صورت حال بدترین ہو چکی ہے۔ بھک منگوں کی طرح ہم ساری دنیا کے سامنے گڑ گڑا رہے ہیں‘ لجا رہے ہیں اور ترلے کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے لے کر چین اور سعودی عرب تک ہماری عزتِ نفس رکوع کی حالت میں ہے۔ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان قوم سے قربانی در قربانی در قربانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور قوم قربانی دے بھی رہی ہے۔ عوام آخری حد تک گاڑیاں اور موٹر سائیکل کم سے کم چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر خود حکومت کا رویہ مطلق العنان بادشاہتوں سے بھی زیادہ بے خوف ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پٹرول سفاک بے رحمی سے استعمال کرنے کا! کس منہ سے حکومت عوام کے سامنے پٹرول مہنگا ہونے کا جواز دے سکتی ہے؟ لوگ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر حکومت کو جو ٹیکس دے رہے ہیں‘ یہ اس ٹیکس کے استعمال کی صرف ایک جھلک ہے۔یعنی صرف کھانا لانے کے لیے ایک کے بجائے کئی گاڑیاں جن کے انجن مبینہ طور پر مسلسل چل رہے ہیں ! کوئی ہے جو جواب دے ؟ کیا اس سے زیادہ بے رحمی اور بے دردی ہو سکتی ہے؟
اور قانون کہاں ہے ؟ بغیر نمبر کی گاڑیاں ! راستہ بلاک! خلقت بے بس! بندوقیں تنی ہوئیں! کیا اس ملک پر بادشاہت کا راج ہے ؟ یہ محافظ‘ یہ سپاہی‘ یہ بندوق بردار‘ اگر سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں تو ان کا بد ترین استعمال ہے۔اگر پرائیویٹ گارڈز ہیں تو کس نے انہیں یہ حق دیا ہے کہ پبلک مقام پر آکر بندوقیں تان کر کھڑے ہو جائیں؟ توپھر مان لیا جائے کہ یہ ملک نہیں جنگل ہے! یہ قوم نہیں‘ باجگذار رعایا ہے ! اگر ایک بڑے شہر میں دن دہاڑے یہ حال ہے تو جنوبی پنجاب میں‘ اور اندرون سندھ‘ اور بلوچستان میں اور دوسری جگہوں پر کیا ہو تا ہو گا اور کیا نہیں ہوتا ہو گا !
جناب احسن اقبال نے قوم سے اپیل کی ہے کہ چائے نوشی کم کی جائے۔ اس اپیل کا مذاق اڑایا گیا حالانکہ اس اپیل پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اربوں روپے چائے کی درآمد پر صرف ہو رہے ہیں‘ وہ بھی زر مبادلہ کی صورت میں۔ ہر شخص پورے دن میں ایک کپ بھی چھوڑ دے تو بہت فرق پڑ سکتا ہے۔قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔ مگر ہم جناب احسن اقبال کی توجہ خود حکومتی ارکان کے رویّے کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ اگر کابینہ کے ارکان بادشاہوں کی طرح رہیں گے تو عوام سے اس نوع کی اپیلیں کرنا ہر گز مناسب نہیں ! پہلے اپنے ارد گرد والوں کو قائل کیجیے۔
کیا پارلیمنٹ میں اتنی جان ہے کہ وہ پوچھے کہ کابینہ کے ارکان کے پاس کتنی کتنی سرکاری گاڑیاں ہیں؟ ان کے محلات میں کتنی کتنی سرکاری گاڑیاں کھڑی ہیں؟ یہ گاڑیاں کتنے سی سی کی ہیں ؟ فی وزیر سرکاری پٹرول ہر ماہ کتنا اور کتنے کا دیا جا رہا ہے ؟کل کابینہ کا ماہانہ پٹرول کا خرچ کتنا ہے ؟ اور پٹرول کی مقدار کیا ہے ؟ مگر لکھ لیجیے کہ پارلیمنٹ نہیں پوچھے گی! کبھی نہیں پوچھے گی ! بلکہ ماضی کی طرح ‘ مستقبل میں بھی‘ جب بھی موقع آیا‘ اپنی مراعات میں اضافے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن کے ارکان باہم متحد ہو جائیں گے! بے سہارا عوام مہنگائی کے بوجھ تلے سسکتے ‘ کراہتے‘ ہلکان ہوتے رہیں گے جبکہ حکمران گاڑیوں کے بیڑوں کے بیڑے استعمال کریں گے۔ سرکاری خرچ پر پٹرول جلتا رہے گا۔ سرکاری اہلکار ذاتی ملازموں کی طرح استعمال کیے جاتے رہیں گے! پبلک کے راستے بند ہوتے رہیں گے! بندوقیں تنی رہیں گی! کوئی کچھ نہیں کرے گا! کوئی پوچھ گچھ نہیں ! کوئی سوال جواب نہیں ! کوئی جواب طلبی نہیں اس قوم کا کوئی پرسانِ حال نہیں ! نصب العین صرف یہ ہے کہ حکومت بچی رہے۔ اتحادی خوش رہیں ! شاہ خرچیاں جاری رہیں۔ عوام کی جیبوں سے پیسہ‘ رگوں سے خون‘ جسموں سے پسینہ نکلتا رہے تا کہشاہ خرچیوں میں تعطل نہ آئے۔ پروٹوکول میں کمی نہ آئے! تزک و احتشام قائم رہے۔شکوہ و جلال سلامت رہے۔ رہے عوامتو ان کا کام ہی یہ ہے کہ ان کا راستہ بلاک ہو تو بھیڑ بکریوں کی طرح سہم جائیں! بندوقوں کا چمکتا لوہا دیکھیں تو ڈر جائیں!پروٹوکول کا طمطراق جگمگائے تو مرعوب ہوں! احتجاج کریں نہ اونچی آواز نکالیں!
افسوس صد افسوس! ہیہات! ہیہات! کوئی ایسی حکومت نہ آئی جس کے ارکان عوام کے ساتھ بازاروں میں گھر کا سودا سلف خریدتے! جس کے وزیر بسوں ‘ ٹیکسیوں‘ رکشوں میں سفر کرتے! کوئی ہیلی کاپٹر یا چارٹرڈ جہازوں سے کم کسی سواری کو قبول نہیں کرتا۔ کوئی پارلیمنٹ کو گھاس نہیں ڈالتا۔ کوئی اپنی اور اپنے اقربا کی جانوں کو عافیت میں رکھنے کے لیے ترامیم کا انبار لے کر آتا ہے! کسی کی گھڑی کروڑوں کی ہے تو کسی کی شہرت ہاروں اور ہائی قیراط انگوٹھیوں کے حوالے سے ہے !لنکا سے جو بھی نکلا باون گز ہی کا نکلا۔ جس قوم کے حکمران مانگے تانگے کے پیسوں اور ادھار کے پٹرول پر شہنشاہوں جیسی زندگی گزاریں اس قوم کا مستقبل آخر کیا ہو سکتا ہے!
دیوار پر سب صاف لکھا ہے! ہے کوئی ہے جو اسے پڑھے؟ ہے کوئی جو سری لنکا سے عبرت پکڑے! مگر سری لنکا جیسا حال‘ خدا نخواستہ ‘ خدا نخواستہ‘ ہوا بھی تو عذاب عوام ہی بھگتیں گے! حکمرانوں کی زندگیوں کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا! ان کے محلات‘ ان کی جائدادیں‘ ان کے بچے‘ ان کے داماد سب باہر ہیں۔ یہ جہازوں میں بیٹھیں گے اور اُڑ کر اپنے اپنے پرستانوں ‘ شبستانوں ‘ اور حرم سراؤں میں چلے جائیں گے! جو یہاں رہ بھی گئے‘ ان کے معیارِ زندگی کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا! ان کے اے ٹی ایم سلامت رہیں‘ ان کے ٹھاٹھ باٹھ‘ اسی طرح جاری رہیں گے۔ہم جب حکمران کہتے ہیں تو اس میں سابق حکمران بھی شامل ہیں! سنا ہے اب بھی ان کے لیے رُوٹ لگتا ہے! گروی قوم رکھی جا رہی ہے! حکمران نہیں !!