ہم لاکھ اختلاف کریں مگر عمران خان کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ شریف خاندان کا سب کچھ ملک سے باہر ہے۔
یوں لگتا ہے کہ بڑے میاں صاحب اصلاً لندن کے ہیں۔ پاکستان محض ان کا کیمپ آفس ہے یا دیہی قیام گاہ ! لندن کی زندگی کے وہ اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اب‘ بظاہر‘ ان کا پاکستان میں رہنا مشکل لگتا ہے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تب بھی ان کے لندن کے دورے بہت زیادہ ہوتے تھے۔ نہ صرف بر صغیر پاک و ہند میں‘ بلکہ سارے عالم اسلام میں یہ رواج ہے کہ عید اپنے آبائی وطن میں منانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لندن میاں صاحب کا آبائی وطن تو نہیںنیا وطن ضرور ہے‘ اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد‘ واحد عید جو انہوں نے پاکستان میں کی‘ جیل میں کرنا پڑی! ورنہ ہر عید پر وہ لندن میں ہوتے تھے۔ جب وہ پرویز مشرف کے عہد میں جدہ گئے تو اس وقت جانے کا ایک جواز تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح جیل سے نکلنا چاہتے تھے۔ مگر جب نومبر2007ء میں وہ پاکستان واپس آئے تو اس کے بعد ان کا لندن یاترا کا جو رجحان رہا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لندن ان کے دل میں گھر کر چکا تھا۔
2013ء میں حکومت میں آنے کے بعد اس رجحان میں تیزی آگئی۔ جو اعداد و شمار میسر ہیں ان کی رُو سے‘ جون2013ء سے لے کر فروری2016ء تک بڑے میاں صاحب نے جو بیرون ملک دورے کئے ان کی مبینہ فہرست کچھ اس طرح ہے: افغانستان ایک بار۔ جرمنی ایک بار۔ بحرین ایک بار۔ بھارت ایک بار۔ ایران ایک بار۔ نیپال ایک بار۔ تاجکستان ایک بار۔تھائی لینڈ ایک بار۔ ازبکستان دو بار۔ قازقستان دو بار۔ چین چار بار۔ ترکی چار بار۔ امریکہ چار بار۔ سعودی عرب پانچ بار اور برطانیہ سترہ ( 17) بار !! آخر ایسے کون سے امور تھے جن کی وجہ سے انہیں تین سال کے عرصے میں سترہ بار برطانیہ جانا پڑا؟ یقینا ان کے لیے لندن سے دور رہنا آسان نہیں !
ایک دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ قید سے بچنے کے لیے انہیں انگلستان میں رہنا پڑ رہا ہے! اس دلیل میں دو کمزوریاں ہیں۔قید اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔سیاست دان اگر قید سے گھبرائے تو پھر اسے سیاست کے کوچے کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔ یہ اور بات کہ پہلے سیاست دان بغاوت کے جرم میں سزا پاتے تھے۔ اب کرپشن کے درست یا غلط الزامات میں پکڑے جاتے ہیں۔ بڑے میاں صاحب جیل سے نکل کر لندن کی دلکش اور آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کی پارٹی کے دوسرے زعما نے عمران خان کی آتشِ انتقام کا استقامت سے سامنا کیا۔احسن اقبال‘ خواجہ آصف‘شاہد خاقان عباسی‘ مفتاح اسماعیل‘ سعد رفیق‘ ان کے بھائی سلمان رفیق‘ رانا ثنا اللہ‘ سب حوالۂ زنداں کیے گئے۔ حمزہ شہباز نے ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا۔ شہباز شریف بھی محبوس رہے۔ اگر یہ سب‘ بڑے میاں صاحب اور اسحاق ڈار صاحب کی طرح لندن جا بستے تو (ن) لیگ ختم ہو جاتی۔ خورشید شاہ کا عرصۂ اسیری دو سال سے بھی زیادہ تھا۔آصف زرداری کا رویہ اس حوالے سے میاں صاحب کے رویے کے مقابلے میں بالکل الٹ ہے۔زرداری صاحب نے دس سال سے زیادہ مدت جیل میں گزاری اور مجید نظامی سے مردِ حُر کا خطاب پایا۔ دوسری کمزوری اس دلیل میں یہ ہے کہ میاں صاحب کا انداز دیکھ کر مطلق احساس نہیں ہوتا کہ وہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ وہ ایک اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے اپنے گھر میں ہیں اور اپنے شہر میں ہیں۔
جب عدالتوں میں مقدمے چل رہے تھے اور چھان بین اور پوچھ گچھ ہو رہی تھی تو میاں صاحب کے صاحبزادوں نے برملا کہا اور ڈنکے کی چوٹ پر کہا کہ وہ پاکستان کے شہری نہیں اور نہ ہی پاکستانی قوانین کا اطلاق ان پر ہو سکتا ہے۔ روایت یہ ہے کہ مریم نواز نے انہیں والد کی علالت کے دوران واپس آنے کا کہا مگر وہ نہ مانے۔ واللہ اعلم ! بہر طور جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ شریف خاندان کا سب کچھ باہر ہے اور بچے بھی باہر ہیں تو لیگی کارکنوں کے پاس دفاع کے لیے کوئی دلیل نہیں ہوتی! زیادہ سے زیادہ یہ جواب دیا جاتا ہے کہ عمران خان کے بچے بھی باہر ہیں۔ مگر یہاں بات بنتی نہیں! سب جانتے ہیں کہ غیر ملکی بیوی سے علیحدگی ہو تو بچے‘ اکثر و بیشتر‘ ماں کے ساتھ ہی رہتے ہیں! ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ٹوٹے ہوئے کنبوں کا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ویسے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی ملاقات بیٹوں سے نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں یہ بات بھی سننے میں آئی‘ ( اور یہ بات مصدقہ نہیں ہے) کہ ایسا وہ کسی روحانی ہدایت کے تحت کر رہے ہیں! بات میاں صاحب کے صاحبزادوں کی ہو رہی تھی۔ اس میں کیا شک ہے کہ مریم نواز مشکلات کا سامنا کرنے میں اپنے بھائیوں‘ بلکہ اپنے والد کے مقابلے میں بھی زیادہ جرأت مند ثابت ہوئی ہیں۔ تازہ ترین خبر کے مطابق مریم نواز صاحبہ کے صاحب زادے جنید صفدر صاحب نے کیمبرج سے قانون کی ڈگری حاصل کی ہے۔یہ خوشی کی بات ہے۔ ہم ان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعاگو ہیں۔ پاکستان کے بہت سے نوجوان برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ڈگریاں لیتے ہیں۔ان میں امرا کے بچے بھی ہوتے ہیں اور مڈل کلاس خاندانوں کے بچے بھی ! تاہم جنید صفدر صاحب کو ان کے مقابلے میں یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ لندن ہی میں رہتے ہیں جہاں ان کے ننھیال مستقل طور پر قیام پذیر ہیں !
پاکستان کی سیاسی پارٹیاں مخصوص خاندانوں کی موروثی گرفت میں ہیں۔ خود تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف اڑھائی دہائیوں سے عمران خان صاحب کی اجارہ داری میں چل رہی ہے۔ پارٹی کے اندر انتخابات کرانے کے مسئلے پر جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے رہنماؤں کو یوں نکال دیا گیا جیسے دودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔سیاسی پارٹیوں پر خاندانوں اور شخصیات کی گرفت ایک بہت بڑی بیماری ہے جوہمارے سماج اور ہماری سیاست کو لاحق ہے مگر (ن) لیگ اس سے بھی دو قدم آگے چلی گئی ہے۔ اب اس سیاسی جماعت کی اجارہ دارانہ قیادت برطانیہ میں بیٹھ کر پارٹی چلا رہی ہے۔ فیصلے وہاں سے ہوتے ہیں۔ مشوروں کے لیے رہنماؤں کو وہاں بلایا جاتا ہے۔ یہ صورت حال کب تک رہے گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا!
کوئی ہے جو بہت ہی محترم بڑے میاں صاحب کو قائل کرے کہ ملک میں واپس آئیں۔ دوسرے تمام سیاست دانوں کی طرح مقدمات کا سامنا کریں۔ عدالتوں میں پیش ہوں۔ کبھی جدہ چلے جانے اور کبھی لندن چلے جانے کا رویہ ان کے شایانِ شان نہیں! اب تو ان کے حمایتی بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ صرف حکومت کرنے کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ پارٹی کو اپنی ملکیت سے آزاد کر دیں۔ بے شک مریم نواز صاحبہ کو اس کی قیادت سونپ دیں یا حوصلہ کرکے‘ دل بڑا کر کے‘ شہباز شریف صاحب کو قیادت منتقل کر دیں! عمران خان کے بیانیے کو مزید تقویت نہ دیں! چلئے خاندانی تسلط بر قرار رہے کہ باقی پارٹیاں بھی اسی طرح چل رہی ہیں مگر قیادت ملک کے اندر موجود تو ہو!