It is not the end of the world

کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں!
شمالی علاقوں پر نظر دوڑائیے۔ سیاحوں کی جنت! کوہ پیماؤں کی پناہ گاہ! برفانی چوٹیاں شہزادیوں کی طرح کھڑی مسکرا رہی ہیں! دریا بہہ رہے ہیں! جھیلیں موتیوں کی طرح جگہ جگہ ٹانک دی گئی ہیں۔ پھلوں کی بہتات ہے! فطرت نے سارا حسن ان علاقوں میں انڈیل دیا ہے! ہمارے پاس ریگستان ہیں۔ شتربان‘ حدی خوانی کرتے ہوئے ان صحراؤں کو پامال کرتے ہیں۔ سمندر ہے۔ گرم پانیوں والا سمندر! جس کی آرزو میں کئی ملک تڑپ رہے ہیں! ہمارے پاس افرادی قوت ہے! بے پناہ ٹیلنٹ ہے! پاکستانی پوری دنیا میں کام کے لحاظ سے اعلیٰ ریٹنگ پاتے ہیں! ہمارے ڈاکٹر‘ ہمارے انجینئر‘ ہمارے سائنسدان‘ ہمارے پروفیسر‘ ہمارے مزدور‘ ہر ملک میں ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں! ہماری خواتین سول سروس میں‘ بینکاری میں‘ تعلیم کے شعبے میں‘ بزنس میں‘ مسلح افواج میں قابلِ رشک کارنامے سرانجام دے رہی ہیں! ہمارے کسان زمین سے سونا اگاتے ہیں! کیا ہے جو ہمارے پاس نہیں!
تو پھر یہ کون سی نحوست ہے جو ہم پر چھائی ہوئی ہے؟ کیا ہمارے ستارے گردش میں ہیں؟ کیا ہمیں کسی کی بد دعا ہے؟ کیا ہم پر بد روحوں کا سایہ ہے؟ کیا قدرت ہم سے ناراض ہے؟ بنی اسرائیل تو چالیس سال بھٹکتے رہے! ہمیں بھٹکتے ہوئے کئی دہائیاں ہو گئی ہیں! دور دور تک منزل کا نشان نہیں! یہ کیسا سفر ہے جو ہمیں درپیش ہے! قدم قدم پر جنگلی درندے اور پھنکارتے اژدہے! جو ہم سے منزلوں پیچھے تھے‘ کوسوں آگے نکل گئے! کوریا‘ سنگا پور‘ ملائیشیا‘ یو اے ای‘ ہمارے سامنے صفر تھے! آج ہم ان کے سامنے صفر سے بھی کم ہیں! جو دو وقت کی روٹی کے لیے ہم سے گندم مانگ کر لے جاتے تھے‘ آج ہمارے اَن داتا بنے ہوئے ہیں! ہمارا پاسپورٹ باعثِ ندامت ہے! ہمارا ایکس چینج ریٹ شرمناک ہے! کشکول ہاتھ میں پکڑے در در آوازیں لگا رہے ہیں! ہر پیدا ہونے والا بچہ‘ ناف کٹنے سے پہلے ہی لاکھوں کا مقروض ہو جاتا ہے! دنیا میں ہمیں منہ لگانے کو کوئی تیار نہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون!
اس زبوں حالی اور نکبت کے باوجود قیادت آپس میں دست و گریباں ہے! یہ لوگ بھرے ہوئے ترکش ایک دوسرے پر خالی کر رہے ہیں! تلواریں‘ تلواروں سے ٹکرا کر وحشت ناک جھنکار پیدا کر رہی ہیں! نیزے سینوں کے پار ہو رہے ہیں! گھوڑے ہانپ رہے ہیں! سوار گر رہے ہیں! ہماری قیادت کی کوئی اخلاقیات نہیں! کوئی اعتبار نہیں! کوئی لندن بیٹھ کر ڈور ہلا رہا ہے! کوئی اداروں سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے! ان کی اصلیت یہ ہے کہ ایک دن جسے سب سے بڑا ڈاکو کہتے ہیں‘ دوسرے دن اسے کورنش بجا لاتے ہیں! اپنے قول سے پھرتے ہیں اور شرم تک نہیں آتی! سیاست کو شطرنج کی طرح کھیلتے ہیں! ایک دوسرے سے بات تک کرنے کے روا دار نہیں! بچوں کی طرح ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہیں! کسی کو فکر ہے کہ بیٹا وزیراعظم بنے! کوئی بیٹی کو تخت پر بٹھانا چاہتا ہے! کوئی ہیلی کاپٹر اور چارٹرڈ جہاز سے نیچے قدم دھرنے کو تیار نہیں! دیانت کا دعویٰ کرنے والے بھی یہاں اندر سے خائن نکلتے ہیں! دوست نوازی سکہ رائج الوقت ہے! اقربا پروری کو برا ہی نہیں سمجھا جاتا! بیوروکریسی میں دیکھا جاتا ہے کہ ''اپنا‘‘ کون ہے! احتساب کرتے ہوئے صرف پرائے نظر آتے ہیں! لگتا ہے ملک کے ساتھ کوئی بھی مخلص نہیں! سب کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں! مذہب کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے! یہاں تک کہ دینی شعائر پر حملے کیے جا رہے ہیں! منتقم مزاجی کی لہر میں حکومتی فرائض بہا دیے گئے۔ ذاتی دشمنیاں ترجیحات میں شامل ہو گئی ہیں! دور دور تک کوئی روشنی نہیں نظر آرہی!
تو پھر کیا یہ ملک ٹھیکے پر دے دیں؟ کیا اس کا انتظام و انصرام امریکہ کے سپرد کر دیں؟ یا چین کے؟ یا روس کے؟ یا کچھ سال کے لیے یو اے ای کو دے دیں کہ جس طرح دبئی اور ابو ظہبی کو دنیا کا سنٹر پوائنٹ بنا دیا ہم پر بھی مہربانی کریں؟ یا اقوام متحدہ سے درخواست کریں کہ کچھ کرے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا! کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے لیے محنت نہیں کر سکتا۔ یہ خیالی متبادل بحث کے لیے پیش کیے گئے ہیں! ان کا حقیقت سے کیا تعلق!
اس ملک میں نون لیگ‘ قاف لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جے یو آئی کے علاوہ بھی بہت لوگ بس رہے ہیں۔ عقل اور سوچ اور اخلاص اور تدبیر صرف ان سیاسی طالع آزماؤں کی اجارہ داری نہیں! وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں It is not the end of the world۔ تو یہ بائیس (بلکہ پچیس) کروڑ افراد کا ملک ہے! ایک سے ایک ذہین مرد اور عورت یہاں موجود ہے! ایسے بے غرض افراد کی کمی نہیں جو کسی لالچ کے بغیر ملک کے لیے کام کریں! موجودہ لیڈر شپ کا متبادل تلاش کرنا ہوگا! مردانِ کار کو آگے بڑھنا ہوگا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ غیر متنازع شہرت کے حامل افراد کی ایک انجمن بنے؟ جس میں ایسے لوگ ہوں جن کی دیانت مشروط نہ ہو! اس میں بلوچستان سے عبد المالک بلو چ شامل ہو سکتے ہیں جو بلوچستان کے واحد چیف منسٹر تھے جو سردار نہیں تھے۔ کراچی سے یونس ڈھاگہ ہیں۔ منظور حسین ہیں جو آڈیٹر جنرل آف پاکستان رہے ہیں اور قابلِ رشک شہرت اور انتظامی صلاحیت رکھتے ہیں! لاہور سے اکرم خان ہیں جو بطور معیشت دان عالمی شہرت رکھتے ہیں اور اقوامِ متحدہ میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ سابق آئی جی پولیس ذوالفقار چیمہ ہیں جن کی امانت داری ایسی غیر متنازع ہے کہ ان کے قریبی عزیز نون لیگ میں تھے مگر وہ خود نون لیگ کی حکومت کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔ انہیں اس لیے تبدیل کیا گیا کہ انہوں نے نون لیگ کے امیدوار کو جتوانے کے لیے غلط احکام کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا۔ انہیں کسی صوبے کا آئی جی بنانے کے بجائے ریلوے کی کھڈے لائن میں کھپایا گیا۔ جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے اشخاص ہیں جنہیں تحریک انصاف سے نکال پھینکا گیا مگر جرم کوئی نہیں تھا سوائے اس کے کہ راستی پر اصرار کیا۔ اس قبیل کے مردانِ کار اپنے ساتھ اُن خواتین و حضرات کو شریک کر سکتے ہیں جن پر انہیں اعتماد ہو!
کاش! کوئی اروند کجریوال ہمیں بھی میسر آ جاتا! ایک فقیر منش شخص جس نے اقتدار میں آکر اپنا طرزِ زندگی رمق بھر نہ بدلا۔ دارالحکومت میں‘ جہاں اسے حکومت ملی‘ تاریخ ساز تبدیلیاں کیں! جیب سے کوئی بزدار نکالا نہ تھیلے سے کوئی گجر! کسی کی تضحیک کی نہ کسی کا نام بگاڑا‘ نہ جوشِ انتقام میں اندھا ہوا! لندن میں فلیٹ خریدے نہ دبئی میں محل! یہاں تو حالت یہ ہے کہ جو صاحب دس گیارہ سال سندھ کے گورنر رہے‘ منصب سے ہٹے تو دبئی کا رخ کیا اور وہیں رہائش اختیار کر لی! یہاں تک کہ بیٹے کی شادی بھی وہیں کی۔ اس شادی میں پیپلز پارٹی کی ہائی کمان کے علاوہ ڈھیر سارے سیاستدان‘ شیخ رشید سمیت‘ پہنچے ہوئے تھے۔ قرضوں سے اَٹے ہوئے اس ملک کے اہلِ سیاست اور اہلِ اقتدار کی عیاشیاں کوئی دیکھے اور عبرت پکڑے! اور یہ تو صرف ایک مثال ہے! اس حمام میں سارے ہی ننگے نکلے! ایک طرف آئی ایم ایف کے سامنے دستِ سوال‘ دوسری طرف اس قلاش قوم کے سر پر چار سال‘ دن میں دو بار‘ ہیلی کاپٹر کے پھڑ پھڑاتے پروں کا سایہ! دھرتی ماں آنسو نہ بہائے تو کیا کرے ؎
اے ماں! تجھے تو کوئی نہ خورسند کر سکا
فرزند گرچہ تو نے دیے تھے جنم بہت

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں