جب ابن زیاد کا ٹیلی فون آیا

میں حسینی ہوں! پکّا حْسینی!
سبطِ نبی پر میری جان مال قربان! ان کی شہادت کا تذکرہ ہو تو آنکھوں سے جیسے آبشار ابلنے لگتی ہے! غم اور درد سے کلیجہ کٹنے لگتا ہے۔ میں محرم میں دل کھول کر صدقہ خیرات کرتا ہوں۔ شربت کی سبیلیں لگاتا ہوں۔ عزاداروں کی خدمت کرتا ہوں۔ میرا ایمان ہے کہ مسلمان‘ خواہ وہ سنی ہے یا شیعہ‘ بریلوی ہے یا دیوبندی‘ نواسۂ رسول اور اہلِ بیت کے ساتھ محبت کے بغیر اس کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہر مسلمان آلِ رسول سے محبت کرتا ہے۔ میں تو رات دن ان کا تذکرہ کرتا ہوں۔ شہیدِ کربلا میرے آئیڈیل ہیں۔ میری لائبریری میں ان کی شان پر لکھی ہوئی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔ محرم کے دس دن تو میں جوتے ہی نہیں پہنتا۔ جب رسول کا محبوب نواسہ تکلیف میں تھا تو میں کیسے آرام کی زندگی گزار سکتا ہوں۔
محرم کا پہلا عشرہ گزرا تو ایک صبح میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ وضاحت کر دوں کہ میرا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار ہے۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف وقت کا ابن زیاد تھا۔ میں نے اسے کہا کہ ملعون! تمہیں ہمت کیسے ہوئی مجھے فون کرنے کی! آئندہ فون کرنے کا سوچنا بھی مت! اس نے جلدی سے کہا کہ فون بند نہ کرنا۔ پہلے میری بات سن لو! میں نے غصے سے کہا‘ بولو کیا بات ہے؟ کہنے لگا ایک کاروباری تجویز ہے۔ ایک بڑا آرڈر آیا ہے بیرون ملک سے! پورے آرڈر کی تکمیل اس کے بس سے باہر تھی۔ مجھے حصہ دار بنانا چاہتا تھا۔ بخدا میں فون بند کرنا چاہتا تھا مگر پھر سوچا کہ نفرت تو میں اس سے کرتا ہی ہوں۔ تاہم اس پیشکش کی تفصیل سننے میں کیا حرج ہے؛ چنانچہ میں نے اس سے تفصیل پوچھی۔ اس نے کہا کہ اگر مال میں ملاوٹ کی جائے تو دونوں کو پچاس پچاس لاکھ روپے کا منافع ہوگا۔ میں نے استغفار پڑھی اور فون بند کر دیا۔رات کو بستر پر لیٹا تو وقت کے ابن زیاد کی پیشکش ذہن پر چھائی ہوئی تھی۔ پچاس لاکھ کا ہندسہ بار بار یاد آرہا تھا۔ دل نے منع کیا کہ اس شیطان صفت انسان سے کسی قسم کا سروکار رکھنا دین اور دنیا دونوں میں گھاٹے کا سبب ہے۔ مگر دماغ نے سمجھایا کہ جب تم محرم میں سبیلیں لگاتے ہو‘ غم کرتے ہو‘ خیرات کرتے ہو اور جب تمہارے دل میں نواسۂ رسول کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے تو اس کاروبار کی کیا مجال کہ یہ محبت‘ یہ غم‘ کم کرے۔ اور پھر دنیا کے دھندے تو چلتے ہی رہتے ہیں۔ پھر میں نے کسی کو بتانا تھوڑی ہے کہ وقت کا ابن زیاد میرا حصہ دار ہے۔ دوسرے دن دفتر پہنچ کر میں نے اس کو فون کیا۔ اسے کہا کہ تم ملعون ہو۔ میں تم سے شدید نفرت کرتا ہوں۔ تاہم تمہارا حصہ دار بن سکتا ہوں۔ مگر اس شرط پر کہ دو باتیں تم کسی کو نہیں بتاؤ گے۔ ایک یہ کہ میں تمہارے ساتھ مل کر بزنس کر رہا ہوں۔ دوسری یہ کہ میں بھی ملاوٹ والا مال ہی سپلائی کروں گا۔ اس نے یہ بات سن کر قہقہہ لگایا جو مجھے بہت برا لگا۔ میں نے غضبناک ہو کر پوچھا: اے ملعون! اس شیطانی ہنسی کا کیا مطلب ہے؟ مگر اس نے اس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ قصہ مختصر‘ وقت کے ابن زیاد کے ساتھ اس اشتراک کا بہت فائدہ ہوا۔ میں نے مال میں ملاوٹ کی۔ اس سے لاگت میں کافی کمی واقع ہوئی۔ اخراجات نکال کر پچاس لاکھ کا منافع ہوا۔ مگر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے وقت کے ابن زیاد سے شدید نفرت ہے۔
سچ کہتا ہوں کہ اس کے بعد میں نے اس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھا۔ میرا بزنس ترقی کرتا گیا۔ ایک دن ایک دوست نے مشورہ دیا کہ یہ جو سرکار کی طرف سے تجارتی وفد دوسرے ملکوں کے دوروں پر جاتے ہیں اور یہ جو دوسرے ملکوں میں تجارتی نمائشیں منعقد ہوتی ہیں‘ ان میں تمہارے نام کی منظوری ہو جائے اور تم بھی باہر جا کر اپنی برآمدات کی تشہیر کرو تو تمہارا نام بین الاقوامی سطح کے تاجروں میں شامل ہو جائے گا۔ اس سے تمہارے کاروبار کو بہت فائدہ ہو گا۔ یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ بات معقول تھی۔ مجھے واقعی بیرون ملک دوروں کے ٹارگٹ پر کام کرنا چاہیے تھا۔ ادھر ادھر دوستوں رشتہ داروں سے بات کی مگر آخری نتیجہ یہی نکلا کہ شاہی دربار سے نیچے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اب جہاں تک شاہی دربار کا تعلق تھا تو ایک ہی شخص تھا جو مجھے وہاں تک پہنچا سکتا تھا اور وہ وقت کا ابن زیاد تھا۔ ایک دن میں نے اسے فون کیا کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے فوراً ملاقات کا وقت دے دیا۔ میں اسے رات کے اندھیرے میں ملنے گیا۔ احتیاط اس قدر برتی کہ گھر والوں کو بھی نہ بتایا کہ کہاں جا رہا ہوں۔ وقت کے ابن زیاد نے میری بات سنی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا‘ ٹھیک ہے میں تمہیں وقت کے یزید کے دربار میں لے جاؤں گا۔ سفارش بھی کر دوں گا۔ بات تم اس سے خود کر لینا۔ اس کے بعد اس نے پھر اسی دن والا شیطانی قہقہہ لگایا۔ میں نے سبب پوچھا تو ٹال گیا۔
وقت کے یزید کے دربار تک میری رسائی ہو گئی۔ میں دربار میں جاتا تو جھک کر سلام کرتا۔ مگر سچ کہوں کہ میں وقت کے یزید سے شدید نفرت کرتا ہوں۔ پھر میرے کام بھی ہونے لگے۔ ہر تجارتی وفد میں میرا نام ہوتا۔ دربار میں دکھائی دینے کی وجہ سے عمّال بھی میرے کام میں روڑے نہ اٹکاتے۔ میری برآمدات میں خوب اضافہ ہوا۔ میرے بیٹوں‘ بھتیجوں‘ بھانجوں کو ٹاپ کی ملازمتیں ملیں۔ میں نے ایک عظیم الشان محل بھی تعمیر کر لیا۔ اب دربار میں مجھے کھڑا بھی نہیں رہنا پڑتا تھا۔ مجھے کرسی مل گئی تھی جو بہت بڑا اعزاز تھا۔ محرم آیا تو میں نے پہلے سے بھی زیادہ زور شور سے سبیلیں لگائیں۔ اہلِ بیت کے نام پر صدقہ خیرات کے دریا بہا دیے۔ ابن زیاد اور یزید کو خوب برا بھلا کہا۔ وقت کے ابن زیاد نے گلہ کیا تو اسے بتایا کہ معاشرے میں اپنی ساکھ قائم رکھنے کے لیے یہ سب کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔
آج میرا شمار کامیاب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ میں محرم کی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہوتا ہوں۔ سنی شیعہ سب میرا احترام کرتے ہیں۔ عملی زندگی میں روابط وقت کے ابن زیاد اور یزید سے ہیں۔ رہا یہ اعتراض کہ اہلِ بیت سے محبت محض زبانی ہے اور صدقہ خیرات اور سبیلیں لگانے کی عبادت محض نمائشی اور ریاکاری ہے اور رہا یہ سوال کہ میں اہل بیت کے اسوہ پر کیوں نہیں چلتا اور غلط کو غلط کیوں نہیں کہتا تو مجھے ان اعتراضات اور ان سوالوں کی کوئی پروا نہیں۔ کامیابی کا گُر یہ ہے کہ نام حسین کا لو اور روابط وقت کے ابن زیاد اور یزید سے رکھو۔ یہ کام صرف میں نہیں کر رہا‘ بہت لوگ کر رہے ہیں۔ یہ محلات‘ یہ مناصب‘ یہ وزارتیں‘ یہ سفارتیں‘ یہ دولت کی ریل پیل‘ یہ شہرت‘ یہ سب کچھ تب حاصل ہوتا ہے جب وقت کے ابن زیاد اور وقت کے یزید سے تعلقات رکھے جائیں! بھائی! بات صاف ہے۔ اہلِ بیت کی سچی پیروی کا مطلب ہے کہ آپ روٹی چٹنی کے ساتھ کھائیں‘ دربار میں سچی بات کریں اور پھر تکلیفیں اٹھائیں۔
ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ ویسے میں حْسینی ہوں ‘ پکّا حْسینی!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں