2018ء کا الیکشن اڑتالیس سال میں پہلا الیکشن تھا جس میں مَیں گھر سے نکلا۔ پولنگ سٹیشن پہنچا۔ قطار میں کھڑا ہوا اور تحریکِ انصاف کو ووٹ دیا۔ ہمارے حلقے سے اسد عمر صاحب امیدوار تھے۔ وہ جیتے اور ہمارے ایم این اے بنے۔ خیر رومانس بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ پہلا دھچکا بزدار صاحب کے انتخاب کا تھا۔ دوسرا بڑا دھچکا اُس دن لگا جب ایک سینئر پولیس افسر کو وزیراعلیٰ کے دفتر (یا گھر) طلب کیا گیا اور بزدار صاحب کی غیرمحسوس موجودگی میں سینئر پولیس افسر سے ''سوال و جواب‘‘ گجر صاحب نے کیے۔ میرے جیسے کم عقل انسان کے لیے یہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت تھی اور ناقابلِ معافی بھی! کہاں عمران خان صاحب کے وعدے‘ دعوے اور مغربی ملکوں کی مثالیں اور کہاں ریاست کے ایک افسر پر گجر صاحب کی حکمرانی! آپ کا کیا خیال ہے برطانیہ امریکہ یا فرانس یا سنگاپور میں ایسا ہونا ممکن ہے؟
خیر‘ رومانس ریزہ ریزہ ہوتا گیا۔ اور بھی عوامل تھے۔ اکثر عوامل سے پڑھنے والے باخبر ہیں؛ تاہم تحریکِ انصاف کے کچھ لیڈر ایسے تھے جن کے حوالے سے دلِ خوش فہم کو‘ رومانس ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد بھی‘ کچھ خوش گمانیاں تھیں! اسد عمر صاحب بھی اُن میں سے ایک تھے۔ یہ اور بات کہ چار سالہ عہدِ حکومت میں انہوں نے اپنے حلقے کے لیے کچھ کیا نہ اسلام آباد ہی کے لیے! فیض آباد سے گاڑی خود چلا کر ایک دن روات چوک تک جاتے تو احساس ہوتا کہ دارالحکومت کے مکین صبح و شام کس قیامت کا سامنا کرتے ہیں۔ اسد عمر صاحب بھی خیر سے اسی کابینہ کا حصہ تھے جس نے وزیراعظم عمران خان کے بند لفافہ لہرانے پر ''آمنا و صدقنا‘‘ کہہ کر چالیس ارب روپے قومی خزانے کے بجائے فردِ واحد کے حساب میں ڈال دیے تھے۔ پھر بھی اسد عمر صاحب اُن حضرات کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہی لگتے تھے جو تعلیم یافتہ نہیں کہلا سکتے۔
مگر اسد عمر صاحب کا تازہ ترین بیان پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ کاش میں انہیں ووٹ نہ دیتا۔ میں کیا اور میرا ووٹ کیا! میرے ووٹ کے بغیر بھی انہوں نے یقینا جیت جانا تھا مگر آج میں اپنی نظروں میں تو نہ گرتا۔ شوکت ترین صاحب جو مشورہ کے پی اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو دے رہے تھے اور جس کی آڈیو ٹیپ کا چہار سو غلغلہ ہے‘ اس کے بارے میں اسد عمر صاحب کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے! کاش اسد عمر اس بات پر غور کرتے کہ جب پنجاب کے وزیر خزانہ نے شوکت ترین سے پوچھا کہ ریاست کو تو نقصان نہیں ہوگا تو ترین نے کیا جواب دیا؟
آفرین ہے پنجاب کی بیوروکریسی پر جس نے وہ خط لکھنے اور بھیجنے سے منع کیا جس کی ہدایت شوکت ترین‘ پارٹی کی پالیسی کے تحت پہنچا رہے تھے۔ سلام ہے ان محبِ وطن افسروں کو۔ ان افسروں نے‘ مبینہ طور پر‘ متنبہ کیا کہ اگر ایسا خط لکھا گیا تو یہ مجرمانہ سازش ( Criminal Conspiracy) ہو گی اور یہ High treason کا کیس ہوگا۔ شاباش ہے پنجاب کے وزیر خزانہ کو جنہوں نے شوکت ترین کے سامنے سوال اٹھایا کہ اس سے ریاست کو نقصان تو نہیں پہنچے گا؟ کاش کے پی کے وزیر خزانہ بھی ایسا سوال اٹھاتے!
آفرین ہے پاکستان پیپلز پارٹی پر کہ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا مگر کسی نے یہ نہ کہا کہ (میرے منہ میں خاک) پاکستان کو آگ لگا دیں گے۔ آفرین ہے مسلم لیگ نون پر کہ تین بار اسے وزارتِ عظمیٰ سے نکالا گیا۔ اس کے لیڈر کو جلا وطن کیا گیا مگر کسی نے (میرے منہ میں خاک) قومی پرچم کی توہین نہیں کی! یہ کیسے لوگ ہیں جن کے نزدیک پاکستان صرف اُس صورت میں قابلِ قبول ہے جب حکومت ان کی ہو!
تم اس ملک کی دھوپ اور چاندنی سے لطف اندوز ہوتے ہو۔ اس کی آب و ہوا میں چلتے پھرتے ہو۔ اس کا پانی پیتے ہو۔ اس کی زمین سے اُگی ہوئی گندم اور چاول کھاتے ہو۔ اس ملک نے تمہیں کروڑ پتی بنایا۔ پھر بھی تم اس کے خلاف‘ اس کے مفاد کے خلاف‘ سازش کرتے ہو! تم کہتے ہو ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں! ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں! تم جس تھالی میں کھا رہے ہو اسی میں چھید کر رہے ہو! یہ ملک نہ ہوتا تو تم اتنے بڑے بینکار بھی نہ ہوتے۔ یہ ملک نہ ہوتا تو تم کسی بڑے افسر کے صاحبزادے بھی نہ ہوتے! دھرتی تو ماں ہے! افسوس! صد افسوس! تم دھرتی ماں کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہے ہو! تم کہتے ہو ہم پر مقدمے چلاتے ہیں تو ریاست کو نقصان تو پہنچے گا۔ مقدمے تو تم پر حکومت چلا رہی ہے! اس کا بدلہ تم ریاست سے لینا چاہتے ہو! انا للہ و انا الیہ راجعون!
قائداعظم سے لے کر لیاقت علی خان تک بڑے بڑے لیڈر چلے گئے۔ یہ ملک قائم ہے۔ ضیا الحق نے سرحدوں کی لکیر مٹا دی۔ لاکھوں غیر ملکیوں اور مسلح جنگجوؤں کو اس ملک کے اندر لا بٹھایا مگر ضیا الحق چلا گیا۔ یہ ملک قائم ہے! پرویز مشرف نے‘ اپنی کتاب میں خود لکھا کہ ڈالر لے کر پاکستانیوں کو فلاں کے حوالے کرتے رہے۔ پاکستان پھر بھی زندہ و سلامت ہے۔ کئی زرداری‘ کئی نواز شریف‘ کئی عمران خان اس ملک پر قربان ہو سکتے ہیں مگر ملک کسی پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ جو یہ سوچتا ہے کہ پاکستان کا وجود اس سے عبارت ہے یا اس کے لیڈر سے عبارت ہے‘ وہ احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ تم جس کی مرضی ہے پرستش کرو‘ جسے چاہو غلطی سے مبرّا قرار دو‘ جسے چاہو مافوق الفطرت سمجھو مگر تم کسی کو اس ملک کا نعم البدل سمجھتے ہو تو تم اپنے پاؤں پر اور اپنی آنے والی نسلوں کے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہو۔ تمہارا نام اس ملک کے بدخواہوں میں لکھا جائے گا۔ تمہیں تاریخ پجاری تو کہے گی‘ محب وطن نہیں مانے گی! ایسا ہی ہوگا۔ تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں!
تم اگر آج اپنے لیڈر کو مافوق الفطرت سمجھ رہے ہو اور اس کی کوئی غلطی‘ کوئی جرم ماننے کو تیار نہیں تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں! وہ لوگ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے ساتھی تھے‘ ان کے صحابی تھے‘ سامری جادو گر کی پیروی کرنے لگ گئے تھے۔ تمہاری تو ایک پیغمبر کے ساتھیوں کے سامنے حیثیت ہی کوئی نہیں! تم اگر کسی کو جرائم سے پاک‘ خطاؤں سے مبرّا اور غلطیوں سے ماورا سمجھتے ہو‘ تم اگر کسی کو وطن سے بھی بالاتر گردانتے ہو تو تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ تاریخ قسم قسم کے فدائیوں کو کئی بار دیکھ چکی ہے! لوگ ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے۔ آج ان کے نام کوئی نہیں جانتا!
اس ملک کی ہوا‘ دھوپ اور چاندنی تو بہت بڑی بات ہے‘ اس ملک کی مٹی کے برابر بھی کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس ملک کا پرچم ہمیشہ سر بلند رہے گا۔ پرچم کی توہین کرنے والے ختم ہو جائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس ملک کا برا چاہا‘ اس کا انجام عبرتناک ہوا! تم بھی اس ملک کا برا چاہ کر بچ نہیں سکو گے! تم لاکھ تاویلیں پیش کرو‘ ہزار توجیہات کرو‘ تمہاری صفوں میں تمہاری اُس پلاننگ کی وجہ سے کھلبلی مچ چکی ہے جسے تم نے خفیہ رکھا تھا مگر جو سامنے آچکی ہے!