زندگی میں کچھ بننے کی کوشش کی مگر کامیابی اس کے مقدر میں نہ تھی!
بزنس شروع کیا۔ لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ دکانیں ڈالیں۔ ملازم رکھے۔ اشتہار دیے۔ مگر کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ تدریس میں منہ مارا مگر علم کا فقدان تھااس لیے پڑھانا ممکن نہ تھا۔ بینکاری میں بھی فیل ہو گیا۔ فوج میں جانے کا سوچا مگر ڈر کے مارے گھگی بندھ گئی۔ زراعت کا رُخ کیا مگر محنت کا عادی نہ تھا‘ سو ‘ منہ کی کھائی۔ویلڈنگ سیکھنے کی کوشش کی۔استاد نے دو دن کے بعد ہی نکال دیا۔صوفہ سازی کی طرف گیا مگر کچھ نہ سیکھ سکا۔ تنگ آکر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔حضرت صاحب اس کے خاندانی بزرگ تھے۔ہر مشکل وقت میں کام آتے۔ تعویذ دیتے۔ پڑھنے کے لیے کچھ بتاتے کبھی چلہ کٹواتے۔ زمین پر سلاتے۔ دنیا داروں کے ساتھ حضرت صاحب کا رات دن کا میل جول تھا۔ دنیا کی اونچ نیچ سے واقف تھے۔اس لیے مشورہ بھی صائب دیتے۔
دو زانو ہو کر اس نے روداد بیان کی کہ کہیں بھی کامیابی نصیب نہیں ہو رہی تھی۔ سب پیشے آزمائے۔ ہر کام کرنے کی کوشش کی۔ مگر بندش ایسی تھی کہ کسی جگہ کام بننے ہی نہیں دے رہی تھی۔ عرضِ مدعا کے بعد اس نے نذرانہ پیش کیا جسے حضرت صاحب نے کمال شفقت سے قبول فرمایا۔لنگر رات دن چلتا تھا اور خلقِ خدا کی شکم پروری کرتا تھا۔اسی لیے حضرت صاحب نذرانے قبول فرماتے تھے وگرنہ دنیا اور اہل دنیا سے انہیں سروکار ہر گز نہ تھا۔ وہ سوچ میں مستغرق ہو گئے۔ سر اٹھایا تو سوالی کے سر پر ہاتھ رکھا۔ فرمایا: مراقبہ کرنا پڑے گا اور کئی بار کرنا پڑے گا۔ پھر اگلے ہفتے آنے کا حکم دیا۔
ایک ہفتے کے بعد حاضر ہوا۔ معتقدین کی خاصی تعداد حاضر تھی۔ خلوت ہوئی تو توجہ فرمائی۔کہا کہ مراقبے اور ایک خاص عمل کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کے لیے لیڈر کا پیشہ موزوں رہے گا۔ کامیابی اسی میں لکھی ہے۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ جب وہ معمولی اور آسان شعبوں میں کامیاب نہ ہو سکا تو لیڈری کیسے کر سکے گا۔اس نے ادب کے ساتھ اپنے خدشات کا ذکر کیا۔ مگر حضرت صاحب نے تسلی دی۔ ظفر یابی کا یقین دلایا اور فرمایا کہ لیڈری کے کچھ اصول ہیں اور قواعد و ضوابط ہیں۔ وہ میں تمہیں بتائے دیتا ہوں۔
پہلا اصول‘ کامیاب لیڈر بننے کا یہ ہے کہ جو اعتراضات مخالفین اٹھائیں اور تمہاری کمزوریاں‘ غلطیاں اور جرائم بیان کریں‘ ان کا کبھی جواب دو نہ ہی ان کا کبھی ذکر کرو۔اپنے اعصاب مضبوط رکھو۔اگر پوری دنیا بھی تم سے پوچھے کہ بتاؤ ایسا کیوں کیا اور ویسا کیوں کیا‘ دوست نوازی کیوں کی؟ نااہل افراد کو کیوں نوازا؟ خزانے میں نقب کیوں لگائی؟ تم کسی سوال کو‘ کسی اعتراض کو خاطر میں نہ لاؤ۔ کسی سوال کا جواب نہ دو۔ اپنے جرائم کے وجود ہی کو تسلیم نہ کرو۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ جب بھی انٹر ویو دینا ہو تو صرف ان صحافیوں کو انٹرویو دو جو تمہارے دائرۂ اثر میں ہوں۔ جو صرف وہی سوال کریں جو تمہیں پسند ہوں۔بال کی کھال نہ اتاریں۔ جرح نہ کریں۔ سوال در سوال (cross- questioning)نہ کریں۔ یاد رکھو کسی آزاد اور غیر جانبدار صحافی نے تمہارا انٹر ویو لیا تو پرخچے اڑا کر رکھ دے گا۔ اُس دن تم بری طرح بے نقاب ہو جاؤگے کیونکہ وہ تمہاری غلطیوں اور تمہارے جرائم کے بارے میں پوچھے گا۔ لازم ہے کہ پریس کانفرنس میں بھی سب صحافی تمہارے ہمدرد اور ہم خیال ہوں۔ کوئی شخص بھی ایسا سوال نہ کرے جو تمہارے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ جارحیت دکھاؤ۔ غنیم پر مسلسل حملے کرو۔ سچے یا جھوٹے‘ ہوشربا قسم کے الزامات کی بارش کر دو۔ الزامات اس تسلسل کے ساتھ دہراؤ کہ لوگ سچ سمجھنے لگیں۔ ثبوت تو کسی نے تم سے مانگنا نہیں‘ سو‘ جی بھر کر الزامات لگاؤ۔اس ٹیکنیک سے مخالف ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کریں گے۔ یوں بھی تمہارا واسطہ اس قوم سے ہے جو ثبوت نہیں مانگتی اور جو ہر چوتھے دن ایک نئی سازش کے خلاف ہوا میں تلواریں چلا رہی ہوتی ہے۔ تم سے کسی نے نہیں پوچھنا کہ اس الزام کا ثبوت کیا ہے۔اگر کوئی پوچھے بھی تو تمہارے شیدائیوں کو چاہیے کہ اس کا بھرکس نکال دیں اور اس کی زندگی جہنم بنا دیں۔ اس سے دوسرے بھی عبرت حاصل کریں گے۔ یوں کسی میں ہمت نہیں ہو گی کہ تمہارے لگائے ہوئے الزامات کا ثبوت طلب کرے۔ چوتھا اصول کامیاب لیڈری کا ذرا تفصیل طلب ہے۔ تمہیں غور سے سننا اور اچھی طرح سمجھنا ہو گا۔ جیسا کہ تم جانتے ہو ہماری پبلک کا ذوق عامیانہ ہے۔ٹی وی چینلوں پر جو ڈرامے چل رہے ہیں وہ ہمارے لوگوں کا ذوق بتانے کے لیے کافی ہیں۔ ہر ڈرامے میں ساس‘ بہو‘ نند اور سوکن کے جھگڑے اور سازشیں! اگلی قسط کا لوگ بے تابی سے انتظار کرتے ہیں اور خشوع و خضوع سے دیکھتے ہیں۔اس پبلک کو اپنے جلسوں میں جوق در جوق لانے کے لیے تمہیں ان کی زبان میں بات کرنا ہوگی۔ ٹھٹھے اور مخول کو اپنانا ہو گا۔ابتذال کا انداز اختیار کرنا ہو گا۔ ہمارے لوگ ‘ نام بگاڑنے کو بہت پسند کرتے ہیں۔یہاں ہر اپاہج کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ہر معذور کا حقارت اور اہانت سے بھرا ہوا نام رکھا جاتا ہے۔ کسی کو ٹنڈا اور کسی کو لنگڑا کہا جاتا ہے۔کوئی بھینگا تو کوئی کانا نام پاتا ہے۔تم بھی اپنے مخالفین کے نام بگاڑو۔انہیں حقارت والے ناموں سے پکارو۔ان کے چہروں‘ آنکھوں‘ داڑھیوں‘ مونچھوں‘ کانوں اور ناک کے حوالے سے ان کا مذاق اڑاؤ۔ان کی تحقیر کرو۔ یقین کرو کہ لوگ خوشی سے پاگل ہو جائیں گے۔ ان کے لیے اس سے بہتر تفریح اور کیا ہوگی۔نام بگاڑنے‘ تضحیک کرنے اور ٹھٹھا کرنے میں تم نے مرد اور عورت کا لحاظ نہیں کرنا۔مخالف صفوں میں کوئی عورت ہے تو اس پر بھی حملہ ضرور کرو خواہ یہ حملہ صنفی ہی کیوں نہ ہو اور اس کے میاں کا ذکر بھی کرو۔ اس سے لوگ بہت محظوظ ہوں گے۔ تمہارے جلسوں میں حاضری بڑھ جائے گی۔ تمہاری تقریریں انٹرٹینمنٹ کا بہترین ذریعہ بن جائیں گی۔مخالفین ظاہر ہے‘ اس سطح پر اترنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ سو‘ دانت پیسنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔پانچواں اصول یہ ہے کہ بد زبان افراد کا ایک طائفہ تمہاری تحویل میں ہو۔یہ افراد دشنام طرازی میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہوں۔ جس کی طرف تم اشارہ کرو‘ اسے کوسنے دے دے کر‘اس کی بے حرمتی کر کر کے‘ اسے ادھ مؤا کر دیں۔ ان افراد سے لوگ پناہ مانگیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ عاجز اور خوف زدہ ہو کر کونوں کھدروں میں دبک جائیں گے۔ یہ گویا تمہارا توپخانہ ہو گا جو اگلی صفوں میں رہے گا۔ اور چھٹا اور آخری اصول یہ ہے کہ تم آنکھیں ماتھے پر رکھنے کے لیے ہر دم‘ ہر ساعت ‘ ہر لحظہ تیار رہو۔ جس سے کام نکل جائے‘ اسے پہچاننے سے انکار کر دو۔ کامیاب لیڈر کے لیے لازم ہے کہ وفا نام کی چڑیا سے دور کا تعلق بھی نہ رکھے۔جاں نثار دوستوں کو سبق سکھانا ہو‘تو ایک ثانیہ ہچکچاہٹ کے بغیر ‘ ان کا کام تمام کر دو۔ جیل بھجوانا پڑے تو بھیج دو۔ یہ ضروری اس لیے ہے کہ ہر شخص تم سے ڈرے اور تمہارے اشارۂ ابرو پر ناچنے کے لیے تیار رہے۔