یہ شباب تھا جب اٹلی اور ہسپانیہ میں زیتون کے باغات دیکھے تھے۔
میلوں تک‘ فرسنگ در فرسنگ‘ زیتون کے سبز پیڑ دیکھ کر لگتا تھا ایک اور ہی دنیا ہے۔ کئی سال بعد مراکش میں بھی یہی مناظر دیکھے۔ رباط سے فاس (Fez) جاتے ہوئے مسحور کن نظارے ملے۔ ٹیلے اور اُن پر زیتون کے باغات۔ حدِ نگاہ تک‘ سواری کے ساتھ دوڑتے باغات! آنکھوں میں ٹھنڈک انڈیلتے باغات! ایک ٹیس دل میں اٹھی! کیا زیتون کے باغات پاکستان میں نہیں لگ سکتے؟ پاکستان میں بھی تو یہی زمین ہے! یہی آسمان ہے! پاکستان کی فضا میں بھی تو یہی بادل ہیں۔ یہی بارش ہے۔ ٹیس حسرت میں بدلی! حسرت خواہش میں! اور خواہش شعر میں ڈھل گئی؛
یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہے
یہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہے
اسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گے
یہی غرناطہ، یہی سسلی ہے جیسی بھی ہے
وقت گزرتا رہا۔ اس شعر کو کہے دس سال گزر گئے۔ پھر‘ بیس سال ہو گئے۔ پھر بائیس برس ہو گئے۔ ایک چھوٹے سے شاعر کا خواب! مگر بڑا خواب! تین دن پہلے عجیب واقعہ پیش آیا۔ پورے بائیس سال بعد شاعر زیتون کے ایک بہت بڑے باغ میں کھڑا تھا! حدِ نظر تک پھیلا ہوا باغ! ٹیلوں پر زیتون کے درخت! ہموار زمین پر زیتون کے درخت اور ندیوں نالوں کے کنارے زیتون کے درخت! یہ خواب کی تعبیر تھی۔
زیتون کا یہ باغ‘ بہت بڑا باغ‘ تلہ گنگ کے نواحی قصبے لاوہ میں ہے۔ یہ ملک فتح خان کا کارنامہ ہے۔ ملک فتح خان زراعت کے ماہر ہیں۔ ان کی مہارت بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی گئی ہے۔ مدتوں ایجنسی فار بارانی ایریاز ڈویلپمنٹ ( آباد) کے سربراہ رہے۔ اب بھی کئی بین الاقوامی اداروں کے مشیر ہیں۔ زیتون کا یہ باغ انہوں نے نو ہزار کنال پر لگایا ہے۔ سولہ ہزار درخت لگ چکے ہیں۔ ہر سال تعداد کو بڑھا رہے ہیں اور خالص سائنسی اور جدید بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ باغ زیتون کی متعدد اقسام پر مشتمل ہے۔ تیل بھی نکالا جا رہا ہے۔ ملک صاحب کا اعلیٰ تعلیم یافتہ فرزند‘ ملازمت چھوڑ کر ہمہ وقت اس کام میں مصروف ہے۔ تاحال حکومت کی طرف سے انہیں کوئی مدد حاصل نہیں۔ پکی سڑک کی شدید ضرورت ہے۔ جتنے زیادہ لوگ یہاں آکر یہ مناظر دیکھیں گے‘ اتنی ہی تشہیر اور ترغیب ہوگی۔ اگر حکومت اس حوالے سے سنجیدگی دکھائے تو وفاقی سطح پر ''ترقیٔ زیتون‘‘ کی باقاعدہ وزارت ہونی چاہیے۔ محنت اور توجہ کے تسلسل سے پاکستان زیتون پیدا کرنے والے ملکوں میں نمایاں مقام پیدا کر سکتا ہے۔ زمین موافق ہے۔
یہ پہلی حیرت تھی جو تلہ گنگ نے تین دن پہلے دکھائی۔ دوسری حیرت جن صاحب نے دکھائی وہ بھی فتح خان ہیں مگر ریٹائرڈ بریگیڈیئر! بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ تلہ گنگ کا خطہ صدیوں سے تعلیم و تعلم کے لیے مشہور تھا۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں ہر مسلمان قر آن پاک کا حافظ تھا۔ اس میں مرد عورت کی تخصیص نہ تھی۔ عورتیں کنوؤں سے پانی نکالتے وقت‘ تلاوت کیا کرتی تھیں۔ زبانی روایت یہ مشہور ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر اس علاقے سے گزر رہا تھا تو اسے بتایا گیا کہ یہاں ہر مسلمان حافظ ہے۔ اس نے ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک گاؤں کے سب مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ مرد و زن سب سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس نے امتحان لیا تو دعویٰ سچا ثابت ہوا۔ مدارس بھی یہاں کثیر تعداد میں تھے۔ یاد رہے کہ اُس دور میں مدارس میں وہ تعلیم بھی دی جاتی تھی جو آج کل کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں دی جاتی ہے۔ انگریز آئے تو سب کچھ بدل گیا۔ خواندگی کی شرح جان بوجھ کر کم کی گئی۔ لوگوں کو جاہل رکھنے کی پالیسی استعمار کی طوالت کے لیے مددگار تھی۔ درمیان میں انگریزی زبان کا پیچ ڈال دیا گیا۔ ناخواندگی غربت پھیلاتی ہے اور غربت بیماریاں لاتی ہے۔ بریگیڈیئر (ر) فتح خان نے ناخواندگی اور غربت‘ دونوں کو چیلنج کرنے کا عزم کیا۔ ان کی دن رات کی کوشش اور شدید محنت کا نتیجہ ہے کہ آج دندہ شاہ بلاول کے قصبے میں بہت بڑا ہسپتال دن رات کام کر رہا ہے۔ اب تک چھ لاکھ سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا جا چکا ہے۔ ہسپتال میں بہت بڑی لیبارٹری بھی ہے۔ ایکس رے اور الٹرا ساؤنڈ کی سہولتیں اس کے علاوہ ہیں۔ دو ایمبولینسز ہمہ وقت تیار کھڑی ہیں۔ بریگیڈیئر صاحب نے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا جو اَب ملک بھر میں کام کر رہا ہے‘ جبکہ ان کی بنائی ہوئی ایک تنظیم تعلیم کے لیے کام کر رہی ہے۔ جس ماحول میں لڑکیوں کو اردو میں تعلیم دینے کی مخالفت کی جاتی تھی‘ وہاں اب لڑکیاں انگریزی بول چال کی کلاسیں اٹینڈ کر رہی ہیں اور انگریزی میں تقریریں کر رہی ہیں۔ لوگوں کا مائنڈ سیٹ بدل رہا ہے اور یہی اصل کامیابی ہے۔ نوجوانوں کو کمپیوٹر کی جدید تعلیم دینے کا بند و بست کیا گیا ہے۔ لمز اور نسٹ جیسے اداروں سے نوجوان اس دور افتادہ علاقے میں آکر‘ رضاکارانہ طور پر‘ آئی ٹی پڑھا رہے ہیں۔ حیرت کے ساتھ مسرت بھی ہوئی۔
پھر تیسری حیرت کا سامنا ہوا۔ دندہ شاہ بلاول کے قریب دربٹہ کی بستی ہے۔ یہ ملک سعید اختر کی فلاحی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ملک سعید اخترسول سروس کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد فلاحی کاموں کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ علاقے میں سکولوں کا ایک وسیع سلسلہ کام کر رہا ہے‘ اس کی پشت پر ملک سعید اختر کا کردار نمایاں ترین ہے۔ صرف سکولوں کا انتظام ہی نہیں‘ نئے سکولوں کے لیے عمارتوں کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم اور تہذیب کے لیے سعید اختر نے ایک انوکھا کام کیا جس کا ان دور افتادہ قریوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘ انہوں نے دربٹہ گاؤں میں آل پاکستان مشاعرہ کرنے کا سوچا۔ ان کے احباب ہنسے کہ شہروں سے شاعر یہاں کیوں آئیں گے۔ ملک سعید اختر کا موقف یہ تھا کہ جن نوجوانوں میں ادبی جراثیم ہیں ان کی تربیت کے لیے یہ کام ضروری ہے۔ چنانچہ آل پاکستان مشاعرہ ہوا اور بہت کامیاب ہوا‘ وسیع و عریض میدان میں شائقین کا ہجوم تھا‘ اوپر پورا چاند تھا۔ ارد گرد درخت تھے اور خوشگوار ہوا کے جھونکے! ملتان‘ کراچی‘ پشاور اور اسلام آباد کے شعرا موجود تھے۔ نظم کے نامی گرامی شاعر وحید احمد کو بھی بلایا گیا تھا۔ غیر متوقع بات یہ تھی کہ رات دو بجے تک مشاعرہ جاری رہا اور سامعین میں سے کوئی ایک فرد بھی اٹھ کر نہیں گیا۔ انہی اشعار پر داد دی گئی جن پر دی جانی چاہیے تھی۔ مقامی نوجوانوں نے بہت اچھی شاعری سنائی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایسی تقریب کا اہتمام ہر سال کیا جائے۔
اس ملک میں ٹیلنٹ کی کمی ہے نہ وسائل کی! کمی ہے تو توجہ کی! جب تک ہم دیہی ترقی پر دھیان نہیں دیں گے‘ صرف شہروں کی ترقی ملک کو آگے نہیں لے جا سکتی! ہماری مٹی میں جو لعل اور جواہر چھپے ہیں انہیں ڈھونڈنے اور چمکانے کی ضرورت ہے۔ ملک فتح خان‘ بریگیڈیئر (ر) فتح خان اور ملک سعید اختر جیسے بے غرض افراد ہر علاقے میں اٹھیں‘ شہروں کی سہولتیں کچھ عرصہ کے لیے ترک کریں اور بستیوں اور قریوں میں تعلیم‘ صحت اور لٹریچر کی روشنی پھیلائیں۔ منزل دور سہی‘ راستہ کٹھن سہی‘ ہمت کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ٹھہر سکتی!
وادیٔ قیس سلامت ہے تو ان شاء اللہ
سر بکف ہو کے جوانانِ وطن نکلیں گے