آپ وفاقی دارالحکومت میں رہتے ہیں۔ فرض کیجیے آپ کا ایک غیرملکی دوست آپ کے پاس آکر ٹھہرتا ہے۔ وہ پاکستان کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتا ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں کے بارے میں‘ پاکستان کی بیورو کریسی کے بارے میں‘ پاکستان کے عوام کے بارے میں! وہ پوچھتا ہے یہاں کی ایڈمنسٹریشن کیسی ہے؟ یہاں کی حکومت کیسے چل رہی ہے؟ اداروں کی کیا صورتِ حال ہے؟تو آپ کیا کریں گے؟
یہ تو ایسی حکایت ہے جسے بیان کرنے کے لیے مہینوں درکار ہیں۔ اپنے ملک کے سیاست دانوں کے بارے میں آپ بتانے لگیں تو دن راتوں میں اور راتیں دنوں میں بدلنے لگیں گی۔ اور پھر بیوروکریسی! اور پھر عوام! عمرِ نوح چاہیے یہ سب کچھ بتانے اور سمجھانے کے لیے۔ اس کا حل میں بتاتا ہوں۔ آپ کچھ بھی نہ کیجیے۔ ایک لفظ منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اسے سیالکوٹ لے جائیے۔ اب تو کھرب پتی اہلِ سیالکوٹ نے اپنی ایئر لائن بھی بنا لی ہے۔ جہاز اڑ رہے ہیں مگر آپ نے مہمان کو جہاز پر نہیں لے کر جانا۔ پاکستان فضا میں اڑتا جزیرہ نہیں‘ زمین پر قائم ہے۔ ہاں‘ ایک احتیاط آپ کو کرنا ہو گی۔ روانہ ہونے سے پہلے اسے یہ نہیں بتانا کہ سیالکوٹ ملک کے امیر ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔
2017ء کے اعداد و شمار کی رُو سے سیالکوٹ نے اڑھائی ارب ڈالر کی اشیا بر آمد کیں۔ یہ ملکی برآمدات کا دس فیصد ہے! پوری دنیا میں جتنے فٹ بال درکار ہیں ان کا ساٹھ فیصد سیالکوٹ بناتا اور برآمد کرتا ہے۔ چمڑے کی مصنوعات اور آلاتِ جراحی کا زبردست بین الاقوامی کاروبار اس کے علاوہ ہے۔ مگر یہ سب کچھ آپ نے مہمان کو ابھی نہیں بتانا۔ ابھی صبر سے کام لیجیے۔ ابھی صرف یہ کیجیے کہ اپنی گاڑی نکالیے‘ مہمان کو اس میں بٹھائیے اور سیالکوٹ کی طرف روانہ ہو جائیے۔ واحد نزدیک ترین راستہ جی ٹی روڈ ہی ہے۔ منطقی لحاظ سے بھی یہی راستہ مناسب پڑتا ہے۔ گوجر خان جہلم سے ہوتے ہوئے آپ کھاریاں اور لالہ موسیٰ سے گزرتے ہیں۔ پھر گجرات آتا ہے۔ پھر آپ وزیر آباد پہنچتے ہیں۔ یہاں آپ جی ٹی روڈ چھوڑ دیتے ہیں اور بائیں طرف مڑتے ہیں۔ یہ وہ سڑک ہے جو آپ کو اور آپ کے معزز مہمان کو سیالکوٹ لے کر جائے گی۔ جیسے ہی جی ٹی روڈ کو داغِ مفارقت دے کر آپ وزیر آباد سے سیالکوٹ جانے والے راستے پر چڑھتے ہیں‘ آپ کو ایک ڈرامہ کرنا پڑے گا۔ آپ ظاہر کریں گے کہ آپ تھک گئے ہیں۔ کمر پر ہاتھ رکھ کر برا سا منہ بنائیے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کندھے دبائیے۔ پھر مہمان سے کہیے کہ اب وہ گاڑی چلائے اور آپ تھوڑا سا بریک لے لیں۔
جیسے ہی گاڑی وزیر آباد سے اُس سڑک پر روانہ ہوگی جس نے سیالکوٹ تک لے کر جانا ہے‘ آپ کے مہمان کی زندگی کا ناقابلِ فراموش تجربہ شروع ہو جائے گا۔ سڑک کا وجود ہی نہیں ہے۔ گڑھے ہیں اور کچھ آثارِ قدیمہ کے نشانات‘ جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں ماضی بعید میں ایک سڑک موجود تھی۔ آپ کا مہمان موٹر کو گڑھوں سے بچاتا ہے تو موٹر سائیکلوں کا جمِ غفیر اس کے در پے ہو جاتا ہے۔ ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو گاڑی گڑھوں میں گرتی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں آپ کے مہمان کا سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگے گا۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر اکڑوں ہو کر بیٹھ جائے گا۔ اگر دو تین گھنٹے پہلے بارش ہوئی ہے تو سڑک کے دونوں طرف گھٹنوں گھٹنوں پانی بھی کھڑا ہوگا۔ سڑک کے دونوں طرف دکانیں ہیں۔ بازار کا یہ سلسلہ سارے راستے پر پھیلا ہوا ہے۔ دکانوں اور سڑک کے درمیان پانی ہے۔ اسی پانی سے گزر کر لوگ دکانوں میں جاتے ہیں۔ اسی پانی میں چارپائی بچھا کر رات کو سوتے ہیں۔ چالیس‘ پچاس کلو میٹر کی یہ سڑک‘ یوں لگتا ہے‘ قیامت تک ختم نہیں ہو گی۔ سیالکوٹ پہنچنے تک آپ کے مہمان کے اعصاب ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے۔ کمر دُکھ رہی ہوگی۔ کندھے چٹخ رہے ہوں گے۔ سیالکوٹ آچکا ہوگا۔ اب آپ اپنے مہمان پر رحم کیجیے۔ گاڑی رکوائیے۔ سڑک کے دونوں طرف قدم قدم پر ریستوران ہیں۔ اسے لے کر کسی ریستوران میں بیٹھیے اور چائے کا آرڈر دیجیے۔ پھر اسے بتائیے کہ یہ جو نام نہاد شاہراہ ہے یہ Manifestation ہے‘ یہ تجسیم ہے ہماری صورتِ حال کی۔ یہ تشریح ہے کہ ہمارے سیاست دان کیا ہیں اور کیسے ہیں۔ سڑک نام کا یہ بد ترین راستہ‘ جسے ''ڈبل کیریج وے‘‘ کہتے ہیں‘ سڑک ہی نہیں ہے۔ بس اسی سڑک کو سیاست دان سمجھیے۔ یہی بیورو کریسی بھی ہے۔ عوام بھی یہی ہیں۔ سیالکوٹ‘ سمبڑیال اور وزیر آباد کے بڑے بڑے افسر اس سڑک پر صبح شام چلتے ہیں مگر ان کے کان پر جوں رینگتی ہے نہ انہیں شرم آتی ہے۔ انہی لوگوں سے اہلِ سیاست ووٹ لیتے ہیں۔ رہے عوام تو سڑک کے کنارے کھڑے پانی سے گزر کر دکانوں تک جاتے ہیں‘ سڑک کے دونوں طرف بیٹھے تاجر اپنے سامنے ریزہ ریزہ ہوئی سڑک دیکھتے ہیں اور مچھروں سے بھرا پانی بھی‘ مگر اپنی مدد آپ کے تحت سڑک نہیں بنوا سکتے۔ یہ وہ عوام ہیں‘ یہ وہ تاجر ہیں جو بے حس ہیں اور گندگی میں رہنے پر تیار! جو سیاست دان انہیں مٹی کے ذرے جتنی اہمیت دینے کو تیار نہیں‘ انہی کو یہ ووٹ دیتے ہیں۔ انہی کے نام کے نعرے لگاتے ہیں۔ مہمان کو یہ بھی بتائیے کہ پاکستان کا حال اسی سڑک جیسا ہے۔ ایسی ہی سڑکیں ہیں جو ضلع اور تحصیل لیول پر پائی جاتی ہیں۔ کہیں بھی چلے جائیے‘ یہی تجربہ ہوگا۔ یہی رویہ ہے ہر جگہ سیاستدانوں کا‘ افسرشاہی کا اور عوام کا!
اور اب وقت آگیا ہے کہ آپ اپنے معزز مہمان کو اہلِ سیالکوٹ کی امارت سے آگاہ کریں۔ اسے بتائیے کہ سیالکوٹ کھرب پتیوں سے چھلک رہا ہے۔ یہ بہت بڑے دل والے لوگ ہیں۔ فیاض! وسیع القلب! سیالکوٹ کے ان آسودہ حال صنعت کاروں اور بر آمد کنندگان نے اپنے لیے ایئر پورٹ تک بنوا لیا ہے۔ ڈرائی پورٹ بنوا لی ہے اور چشم بد دور‘ ماشاء اللہ‘ ایئر لائن بھی قائم کر لی ہے۔ فضاؤں میں ان کے اپنے جہاز اُڑ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ چاہیں تو مریخ تک جہاز بھیج سکتے ہیں۔ مگر ایک کام یہ کسی صورت نہیں کر سکتے۔ یہ سیالکوٹ وزیر آباد کی چالیس‘ پچاس کلو میٹر سڑک نہیں تعمیر کر سکتے۔ یہ سڑک سیالکوٹ کو اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ گجرات‘ جہلم‘ کھاریاں‘ مری‘ ایبٹ آباد‘ مظفر آباد‘ پشاور اور سارے شمالی علاقہ جات سے ملاتی ہے۔ اور سیالکوٹ کے کھرب پتی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ وہ خود تو اپنی قائم کردہ نئی نویلی ایئر لائن کے ذریعے اسلام آباد یا پشاور جا سکتے ہیں اور وہاں سے مری‘ نتھیا گلی‘ کاغان‘ ہنزہ‘ سوات اور چترال! مگر وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سیالکوٹ کے عام لوگ‘ جو جہاز پر جانے کی سکت نہیں رکھتے‘ ان علاقوں میں جا کر تفریح کر سکیں کیونکہ سیالکوٹ وزیر آباد سڑک پر وہی سفر کرے گا جسے سخت‘ بہت سخت‘ شدید مجبوری ہوگی۔ کون چاہے گا کہ اس کے جسم کا انجر پنجر ہل جائے۔ گردے انتڑیوں کی جگہ آ جائیں۔ جگر دل میں اور دل پھیپھڑوں میں پیوست ہو جائے۔
ایک کرم یہ کیجیے گا کہ سیالکوٹ پہنچ کر مہمان کو اقبال منزل ہر گز نہ لے جائیے گا۔ یہ منزل کسی دوسرے ملک میں ہوتی تو پوری گلی ''اقبال عجائب گھر‘‘ میں بدل دی جاتی۔ مگر یہاں تو اقبال منزل میں یو پی ایس تک نہیں۔ خدا آپ پر اور آپ کے مہمان پر رحم کرے!