بھانجے تو پروردگار نے اور بھی عطا کیے ہیں‘ ماشاء اللہ سب لائق فائق‘ مگر عبید کا اپنا ہی مقام تھا۔ کل جب وہ باون سال کی عمر میں مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گیا تو یوں لگا جیسے جاتے وقت کہہ رہا ہو ''ماما جی اپنا خیال رکھیں!‘‘ ساری زندگی اپنی نہیں دوسروں کی فکر کی! جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا تو سب سے پہلے اس سے مشورہ ہوتا۔ مامی بھی اسی سے پوچھتی۔ اس کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا۔ مکان کی تعمیر سے لے کر‘ موبائل فون کی مشکلات تک‘ اسے ہر ماہر شخص کا علم تھا۔
پیدائش سے لے کر کل کی تدفین تک‘ ایک ایک منظر نگاہوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ بہت چھوٹا سا تھا تو بیمار پڑ گیا۔ تب اس کے والد صاحب کی‘ جو فوج میں ملازم تھے‘ اٹک شہر میں تعیناتی تھی۔ میں اسے دیکھنے سی ایم ایچ اٹک گیا۔ یاد نہیں کیا مرض تھا مگر ڈاکٹروں نے اس کے ننھے سے گلے میں سوراخ کیا ہوا تھا۔ تیسری سے چوتھی جماعت میں آیا تو اس کی پریشانی آج تک نہیں بھولتی اور وہ کمال کا فقرہ بھی جو اس نے کہا کہ ''میرا کچھ کریں کیونکہ نئی جماعت میں حساب کی اتنی بڑی بڑی رقمیں ہیں!‘‘ دیکھتے دیکھتے بڑا ہو گیا۔ ملازمت مل گئی۔ شادی ہو گئی۔ کچھ عرصہ پہلے جب اس کی خوبصورت مُرَتَّب داڑھی سفید ہو گئی تو میں نے ڈانٹا کہ یہ کیا سفید رنگ کا خضاب لگا لیا ہے؟ کہنے لگا: ما ما جی! میں نے رنگ ونگ کوئی نہیں لگانا۔ بس یہ سفید ہی رہے گی۔ سفید داڑھی میں اور بھی زیادہ خوش شکل ہو گیا۔ تینوں بچے اللہ نے اسے خوبصورت دیے۔ بڑا بیٹا بیرونِ ملک پڑھ رہا تھا اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ملازمت بھی کر رہا تھا۔ باپ کی بیماری کا سنا تو پہلی پرواز کے ساتھ وطن پہنچ گیا۔ کل باپ کے زرد‘ خاموش چہرے کو بار بار چوم رہا تھا اور میں‘ آنسوؤں کو روک کر سوچ رہا تھا کہ دس دن پہلے‘ بیرونِ ملک‘ اسے کیا معلوم تھا کہ مقدر میں کیا لکھا ہے۔
ہونی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ موت ایک حقیقت ہے۔ سب حقیقتوں کی ماں! مگر ایک موت وہ ہوتی ہے جو بڑھاپے میں آتی ہے۔ اس کے لیے مرنے والا بھی ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے اور لواحقین کو بھی اندازہ ہوتا ہے۔ یہ موت مرحلہ وار اپنی آمد کا پتا دیتی ہے۔ بوڑھا شخص پہلے گھر کے اندر کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ کبھی بر آمدے تک‘ کبھی صحن میں‘ کبھی بیٹھک میں! پھر وہ اپنے کمرے میں مقید ہو جاتا ہے۔ پھر بستر پر دراز ہوتا ہے اور وقت مقررہ پر اس منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے جس کے لیے قدرت اسے تیار کر رہی تھی۔ اس کے ماں باپ کبھی کے جا چکے ہوتے ہیں۔ دوستوں میں سے بھی بہت سے چل چلاؤ کے مراحل میں ہوتے ہیں۔ اولاد اور دیگر پس ماندگان روتے ہیں۔ اور کچھ عرصہ بعد دنیا کی مصروفیات میں گم ہو جاتے ہیں۔ ہاں! اولاد نیک ہو تو دعا کرتی رہتی ہے۔ ہر نماز میں پکارتی ہے رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔ اے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔ اب یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ اولاد کس نیچر کی ہے اور مرنے والے نے اس کی تربیت کیسے کی تھی۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ مگر سچ یہ ہے کہ اکل حلال اور اکل حرام کا اس قرآنی دعا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ بوڑھے نے جو بیج بویا تھا‘ مرنے کے بعد اسی کا پھل کھائے گا۔ سیب کا بیج سیب لائے گا اور نیم اور اندرائن بوئی تھی تو پھل کڑوا ہوگا! ماں باپ کے لیے دعا بھی وہی بچے کرتے ہیں جن کے جسم میں بننے والا اور وریدوں میں دوڑنے والا خون رزقِ حلال سے بنا ہو۔
آہ! ایک موت وہ ہوتی ہے کہ جانے والے کے ماں باپ حیات ہوتے ہیں۔ جس بچے نے ان کی چارپائی کو کندھا دینا تھا‘ وہ ان کی زندگی میں چلا جاتا ہے۔ آزمائش سی آزمائش! امتحان سا امتحان! وہ کبھی یتیم پوتوں پوتیوں کو دیکھ کر روتے ہیں کبھی ہمیشہ کے لیے جدا ہونے والے بچے کی زندگی کے مختلف مراحل کو یاد کرکے آنسو بہاتے ہیں! کل جب اپنی 77سالہ بہن کو اور ان کے سفید ریش‘ کمزور‘ میاں کو بیٹے کی میت کے پاس دیکھا تو یوں لگا جیسے بے بسی انسانی وجود میں ڈھل کر سامنے آگئی ہے۔ یہ ایسی بے بسی ہے جسے بیان کرنے کے لیے دنیا کی کوئی لغت کام نہیں آتی۔ انسان روئے تو کتنا روئے! آنسوؤں کا ذخیرہ بے کنار نہیں ہوتا۔ آنکھیں ساتھ دینا چھوڑ دیتی ہیں۔ لفظ بے معنی ہو جاتے ہیں۔ پُرسہ تیر بن جاتا ہے۔ ڈھارس برچھی بن کر سینے کے پار ہو جاتی ہے۔ دلاسا نیزے کی اَنی کی طرح چبھتا ہے۔ پاؤں کے نیچے زمین ہوتی ہے نہ سر پر آسمان! خداکسی کو اولاد کی موت نہ دکھائے۔ قدرت کی چکی عجیب ہے۔ کبھی دائیں سے بائیں چلتی ہے تو کبھی الٹی یعنی بائیں سے دائیں! مگر جب بائیں سے دائیں چلتی ہے تو قیامت برپا کر دیتی ہے۔ یہ وہ زلزلہ ہوتا ہے جو زمین کو ایک سمت لے جانے کے بعد دوسری سمت کھینچتا ہے اور سب کچھ ملیا میٹ ہو جاتا ہے۔ جس نے کندھا دینا ہوتا ہے وہ خود چار کندھے مانگ بیٹھتا ہے۔
دو تین دن عبید کہتا رہا کہ طبیعت میں بے چینی ہے۔ یہ بھی انسانی المیہ ہے کہ دل کا مسئلہ ہو یا سٹروک کی آمد‘ دھیان دوسری طرف جاتا ہے۔ کبھی پٹھوں کا درد لگتا ہے کبھی تھکاوٹ تو کبھی سروائیکل! بچے اور بیوی کہتے رہے کہ ہسپتال لے کر چلتے ہیں مگر اس کی افتادِ طبع ایسی تھی کہ کسی کو کام کہتا تھا نہ تکلیف دینے کا روادار تھا۔ پھر جب بازو سن ہو گیا تو ہسپتال لے جایا گیا مگر دیر ہو چکی تھی۔ امید لیکن زندہ رہی! دماغ کی سرجری ہوئی تو ڈاکٹروں نے آس بندھائی کہ آپریشن کامیاب ہوا ہے۔ دعائیں‘ صدقے‘ خیرات‘ قران پاک کے بیسیوں ختم‘ ہر ممکن علاج! سب کچھ کیا گیا۔ اس کے بھائی رات دن تیمارداری میں لگے رہے مگر اجلِ مسمّیٰ ناقابلِ تغیّر ہے!
جب احمدِ مُرسَل نہ رہے کون رہے گا!
عجیب بات یہ ہوئی کہ جب تک وہ ہسپتال میں رہا‘ اس کی امی جان مسلسل روتی رہیں! یوں لگتا تھا آنسوؤں سے رخساروں پر نشان پڑ گئے ہیں۔ دن میں کئی بار مجھے فون کرتیں۔ بات تھوڑی کرتیں‘ روتیں زیادہ! مگر وفات کے بعد بالکل نہ روئیں! پہلے‘ میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے کہتی رہیں کہ بے ہوش ہوا ہوگا‘ ڈاکٹروں سے کہو اچھی طرح چیک کریں! سب کہہ رہے تھے کہ انہیں رونا چاہیے تاکہ غبار نکلے ورنہ بیمار پڑ جائیں گی۔ جسدِ خاکی آیا تو مسلسل یہ آیت پڑھتی رہیں استعینوا بالصبر و الصلوٰۃ، ان اللہ مع الصبرین۔ چھیالیس برس پہلے میرا اور اُن کا چوبیس سالہ بھائی ایک حادثے میں رحلت کر گیا۔ اس کی مرگ پر مرثیے کہے۔ آج پھر اُن مرثیوں کے اشعار ذہن کا بوسیدہ دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ پڑھتا ہوں اور روتا ہوں:
مرتا بھی نہیں، سانس بھی میں لے نہیں سکتا
اٹکا ہوا شہ رگ میں کوئی تیر عجب ہے!
ملنا تو ہے اس سے مجھے ہر حال میں اظہارؔ
لیکن یہ ملاقات میں تاخیر عجب ہے!
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ اسی میں ہم تمہیں لوٹا رہے ہیں۔ اور اسی سے ہم تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے!