جو دے اس کا بھلا ‘ جو نہ دے اس کا بھی بھلا ‘اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا‘اللہ آپ کو حج کرائے ‘یہ اور اس قسم کے جملے ثابت کرتے ہیں کہ مانگنے کے فن کو ہم نے باقاعدہ ایک سائنس بنا لیا ہے‘ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ صدقہ دینے میں اور خیرات کرنے میں اہلِ پاکستان کا کردار ہمیشہ قابلِ رشک رہا ہے۔ یہ جو ہر چوک اور ہر شاہراہ پر گداگروں کا ہجوم ہے‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں مانگنے والوں کی کثرت ہے وہاں‘ ماشاء اللہ‘ دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ہر مسجد‘ ہر مزار‘ ہر دربار میں صندوقڑیاں رکھی ہیں اور بھرتی جاتی ہیں۔انفرادی سطح سے ہٹ کر ‘ اجتماعی طور پر بھی خیراتی سرگرمیوں میں پاکستان کا نام مشہور ہے۔ بہت سے فلاحی ادارے رات دن کام کر رہے ہیں۔مذہبی اور غیر مذہبی تنظیمیں مصیبت کے ہر موقع پر لوگوں کے کام آتی ہیں۔ حالیہ سیلاب میں بھی ان فلاحی تنظیموں نے بے شمار افراد کی مدد کی ہے۔مگر یہ تو نجی شعبے کی بات تھی۔ الحمد للہ اب سرکاری شعبہ بھی صدقہ خیرات میں اپنا کردار ادا کرنے لگ گیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال وہ حکم ہے جس کی رُوسے پارلیمنٹ کے ارکان کے لیے ہر موٹر وے اور ہر ہائی وے پر ٹول ٹیکس معاف کر دیا گیا ہے۔ یہ بیچارے اس 'خیرات‘ کے مستحق بھی تھے۔ انہیں مبینہ طور پر بیرونِ ملک علاج معالجے کی سہولتیں بھی میسر ہیں۔ پارلیمنٹ بلڈنگ کے کیفے ٹیریا میں انہیں چائے اور کھانا بھی ایسے نرخ پر مہیا کیا جاتا ہے جسے سن کر اپنے کانوں پر یقین نہیں آتا۔ دیگر مراعات بھی ‘ جن میں سے کچھ عوام کے علم میں ہیں اور کچھ نہیں ہیں ‘ ہوشربا ہیں۔ ہوائی سفر کے لیے بھی ان معززین کو اور ان کے خاندانوں کو مفت ( یا رعایتی ٹکٹ) دیے جاتے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ ٹول ٹیکس والا خیراتی کام بھی آسمانوں میں قبول ہو اور وفاق عنداللہ ماجور ہو۔
ایک سینیٹر صاحب نے اس حکم کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس کے خلاف سینیٹ میں آواز اٹھائیں گے اور کوشش کریں گے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی یہ امتیازی حکم نامہ واپس لے! سینیٹر صاحب کی یہ تنہا آواز لائقِ تحسین ہے۔ مگر اس سے ہمیں ایک لطیفہ نما واقعہ یاد آگیا ہے۔ مغلوں کے عہدِ زوال میں ایک شہزادہ پیدائش کے بعد کبھی زنان خانے سے باہر ہی نہیں نکلا تھا۔اس کے ارد گرد ہمیشہ شہزادیاں‘ کنیزیں اور خواجہ سرا ہی رہے تھے۔اسی ماحول میں وہ جوان ہوا اور حرم سرا ہی میں رہا۔ ایک بار محل میں سانپ نکل آیا تو جب سب عورتوں نے شور مچایا کہ کسی مرد کو بلاؤ تو شہزادے نے بھی چیخ کر کہا کہ کسی مرد کو بلاؤ! ارے بھائی! حکومت تو اسی جماعت کی ہے جس کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ سینیٹر صاحب پارلیمنٹ میں بیٹھتے ہیں۔ ان کی اپنی حکومت ہی نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے۔ تو وہ احتجاج کس سے کریں گے ؟ اپوزیشن سے ؟ اور آپ کا کیا خیال ہے نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے یہ اتنا بڑا خیراتی کام خود ہی کر دیا ہو گا؟ اتنا بڑا قدم تو کابینہ کی سطح پر ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔وزارتِ خزانہ سے پوچھے بغیر ایسی کوئی بخشش ہو نہیں سکتی! اس کا تخمینہ بھی تو لگایا گیا ہو گا کہ اندازاً سالانہ اثر اس کا کتنا ہو گا؟ وزارتِ خزانہ کی زبان میں ‘ یعنی فرنگی زبان میں اسےFinancial Effectکہتے ہیں !!
اس کے بعد صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی باری آئے گی۔ وہ بھی اسی طرح منتخب ہیں جس طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان منتخب ہیں! دفاع والوں کی گاڑیاں ‘ غالباً‘ پہلے ہی اس رعایت سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اور اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو جج حضرات بھی!! تو بنیادی طور پر یہ ٹول ٹیکس میں نے اور آپ نے ادا کرنا ہے۔ اس وقت اگر آپ اسلام آباد سے لاہور‘ بذریعہ موٹر وے جائیں تو ٹول ٹیکس ہزار روپے ہے۔ اور جی ٹی روڈ سے جائیں تو ہر تھوڑے سے فاصلے کے بعد کار کو تیس روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ یوں جب آپ منزل پر پہنچتے ہیں تو تن پر صرف لنگوٹی بچی ہوتی ہے۔ سڑک استعمال کرنے کے لیے آپ ہر بار بھاری رقم ادا کرتے ہیں۔کاغذ پر یہ سڑک‘ یہ موٹر وے‘ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ کسی فرد کی نہ کسی ادارے کی۔ یہ عوام کی سڑک ہے۔ عوام کی ملکیت ہے۔ یہ آپ کی اپنی شاہراہیں ہیں۔ آپ کے بچوں کی ہیں۔ چلیں‘ ٹول ٹیکس بھی لے لیں۔ مگر اس سے بڑی بے عزتی اور بے حرمتی کوئی نہیں ہو سکتی کہ ایک طرف عوام کی جیبوں سے نکالا جانے والا ٹول ٹیکس ہر مہینے‘ بلکہ ہر ہفتے بڑھا دیا جائے اور دوسری طرف مراعات یافتہ طبقوں کو چھوٹ دی جائے۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ طبقے اس ملک میں دو ہی ہیں۔ ایک مراعات یافتہ اور دوسرا عوام! اس میں حزبِ اقتدار یا حزبِ اختلاف کی تخصیص کوئی نہیں۔ عوام کے ٹیکس پر اپوزیشن کی بھی پرورش اور کفالت ہوتی ہے اور خوب خوب ہوتی ہے۔ کروڑوں روپے عمران خان کی سکیورٹی پر خرچ ہو رہے ہیں۔ کے پی کے ہیلی کاپٹر کے اوپر جو پنکھے نصب ہیں وہ ہر وقت گھُوں گھُوں کر کے چل رہے ہیں اور بل عوام کو بھیجے جا رہے ہیں۔ رہی حزبِ اقتدار تو وفاق میں ہے یا صوبوں میں‘ اُس کی چاروں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ! نئے وزیر اعظم نے آتے ہی اپنے لاہور والے سلسلۂ محلات کو یقینا کیمپ آفس قرار دے دیا ہو گا۔اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ محترمہ مریم نواز اور جناب بلاول کے پروٹوکول‘ سکیورٹی اور آمد و رفت کے اخراجات بیت المال سے نہیں پورے ہو رہے۔ اور تازہ ترین خبر کے مطابق مولانا طارق جمیل کی سکیورٹی کے لیے بھی پنجاب حکومت نے ایلیٹ فورس کے دس اہلکار متعین کر دیے ہیں جو شفٹوں کی صورت میں‘ ہمہ وقت ان کے ساتھ رہیں گے۔ پہلے تو شاعر نے یہ کہا تھا کہ ؎
مجھے اپنے عمل سے کل نہ ہو انکار کی جرأت
رہے دو دو فرشتے ہمرکاب اول سے آخر تک
مگر اب دس دس باڈی گارڈز کے بغیر ہمارے علما کا پرو ٹوکول بھی پورا نہیں ہوتا۔ مولانا طارق جمیل نے تو ہمیشہ محبت کا پیغام پھیلایا ہے۔ فرقہ واریت کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی ہے۔ وہ ہر مکتبِ فکر میں یکساں مقبول ہیں۔ ان کی حالیہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر ‘ سچی بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ مثبت بات کرتے ہیں۔ ان کی سکیورٹی کے لیے دس سرکاری اہلکاروں کی تعیناتی سمجھ سے بالا تر ہے۔ وہ خود بھی یقینا اس انتظام کو قبول کرنے سے معذرت کر دیں گے!
یہ جو خبر ہے کہ ٹول ٹیکس معاف کر دیا گیا ہے‘ اس سے اقبالؔ کا وہ شہرہ آفاق قطعہ یاد آرہا ہے جو اس موضوع پر یوں سمجھیے حرفِ آخر ہے اور شرم دلانے کے لیے اکسیر ہے لیکن شرط یہ ہے کہ شرم کی کوئی رمق باقی ہو ؎
میکدے میں ایک دن اک رند زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
تاج پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے
کس کی عریانی نے بخشی ہے اسے زریں قبا
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا!!
مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا