لڑکی پڑھی لکھی تھی اور ماڈرن!
اس نے گھر کو دیکھا اور اپنے رہنے کے لیے پسند کر لیا۔ گھر دکھانے والے نے کہا کہ وہ جھوٹ بالکل نہیں بولے گا اور سب کچھ صاف صاف بتائے گا۔ پھر اس نے تفصیل سے بتایا کہ یہ گھر بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے‘ خاص طور پر اُس کے لیے! اس لیے کہ گھر کی بنیادیں کمزور ہیں۔ تیز ہوا چلے تو چھت لرزنے لگتی ہے۔ دیواروں میں بڑے بڑے شگاف ہیں۔ پہلی نظر ہی میں لوگ جانچ لیتے ہیں کہ گھر رہائش کے قابل نہیں۔ اس نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اپنے کسی بڑے کو گھر دکھا کر اس کی بھی رائے لے لے۔ لڑکی نے ایک ہی جواب دیا کہ گھر جیسا بھی ہے‘ بس اُسے پسند ہے۔ وہ اسے خریدے گی اور اسی میں رہے گی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ماڈرن لڑکی نے گھر خرید لیا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ بارشیں شروع ہو گئیں‘ ایک دن چھت گر پڑی۔ لڑکی اس کے نیچے آکر دب گئی۔ ملبہ ہٹایا گیا تو اس کی لاش بر آمد ہوئی۔
شوہر عورت کا گھر ہی ہوتا ہے۔ ایک ماڈرن‘ پڑھی لکھی لڑکی جب ایک ایسے مرد کو اپنے شریکِ حیات کے طور پر پسند کرتی ہے جس کی حیثیت ایک ایسے مکان سے زیادہ نہیں جو گرنے والا ہے‘ تو ایک لحاظ سے وہ خودکشی کی مرتکب ہوتی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ میں دو ماڈرن‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں‘ وفاقی دارالحکومت میں‘ دو مردوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر چکی ہیں۔ ایک مقتولہ کا دوست تھا‘ دوسرا شوہر! دونوں واقعات میں قتل کرنے والے مرد مستحکم اور قابلِ اعتبار (stable) نہیں تھے۔ پہلے واقعہ میں لڑکی جس مرد کی خاصی پرانی دوست تھی‘ اسی کے ہاتھوں ختم ہوئی۔ دوستی تھی اور اتنی گہری کہ لڑکی کے پاس اس شخص کے گھر کی چابی تھی کہ جب چاہے وہاں آسکے۔ یہ شخص نشے کا عادی تھا۔ تشدد پسند تھا۔ برطانیہ سے اسے‘ مبینہ طور پر‘ آبرو ریزی کے جرم میں نکالا گیا تھا۔ یہ بظاہر ناممکن ہے کہ لڑکی کو اس سارے پس منظر سے آگاہی نہ ہو۔ اتنا لمبا عرصہ دوستی رہی تو کیا اس کا مزاج‘ اس کی افتادِ طبع‘ اس کی تشدد پسندی‘ اس کے نشے کی عادت‘ کیا یہ سب کچھ وارننگ نہ تھا کہ یہ کمپنی چلنے والی نہیں‘ اس سے جان چھڑا لینی چاہیے۔ لڑکی کے والدین یقینا اس صورتِ حال سے با خبر ہوں گے۔
دوسرے واقعہ کے حوالے سے دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ ایک تو مبینہ طور پر لڑکے کے والد نے شادی سے قبل لڑکی کو بتایا تھا کہ لڑکے کی دو شادیاں ہو چکی ہیں اور یہ کہ وہ نشے کا عادی ہے۔ اس پر لڑکی نے کہا کہ لڑکے کا ''دل سونے کا ہے‘‘۔ دوسرے‘ کیا شادی کے معاملات میں اور پھر شادی کے موقع پر لڑکی کے والدین شریک تھے؟ قرائن بتاتے ہیں کہ لڑکی نے اس شخص سے شادی کرنے کا فیصلہ خود کیا تھا ورنہ اس کے گھر والے تقریب میں شریک ہوتے۔
کچھ اور کہنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ قتل کا جواز کسی صورت بھی نہیں پیش کیا جا رہا نہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ قاتلوں کو قانون کے مطابق کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے اور جلد از جلد پہنچانا چاہیے۔ ہم یہاں جو نکات قارئین کے سامنے اٹھانا چاہتے ہیں وہ سماجیات کے حوالے سے ہیں۔ زیریں طبقات میں تو عورتوں کا قتل ایک معمول بن چکا ہے۔ دیہی کلچر میں شک کی بنا پر عورت کو ہلاک کر دینا عام بات ہے۔ یہ کام‘ شوہر کے علاوہ‘ عورت کے باپ اور بھائی بھی کر دیتے ہیں۔ پھر خاندان والے انہیں سزا سے بھی بچا لیتے ہیں۔ لڑکی (یا لڑکیاں) پیدا کرنے کے بعد بیوی‘ اور بہو‘ یوں بھی زہر لگنے لگتی ہے۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں بیٹیاں‘ بہنیں اور بیویاں قتل کر دی جاتی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر‘ کبھی شک کی بنیاد پر‘ کبھی وٹے سٹے کے نتیجے میں‘ کاروکاری‘ سوارہ اور وَنی کی جاہلانہ رسمیں اس اسلامی ملک میں پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں اور ثقافت اور ریاست دونوں‘ عملاً ان مکروہ‘ ذلت آمیز رسموں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ بالائی طبقے میں پڑھی لکھی‘ ماڈرن‘ لڑکیاں کیوں قتل ہو رہی ہیں؟ یہ دو واقعات‘ یقینا پہلے ہیں نہ آخری! لیکن اگر ان دو واقعات ہی کا تجزیہ کریں تو دونوں میں کچھ پہلو مشترک ہیں۔ اول: دونوں مرد بھلے مانس تھے نہ شریف! بلکہ تشدد پسند تھے اور ناقابلِ اعتبار! دوم: دونوں نشے کے عادی تھے۔ سوم: دونوں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور ماڈرن تھیں۔ چہارم: دونوں لڑکیاں آزاد تھیں یعنی Independent۔ پہلی لڑکی اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہی تھی مگر اپنی نقل و حرکت میں‘ آنے جانے میں اور وقت باہر گزارنے میں وہ گھریلو ڈسپلن یا پابندی سے آزاد تھی۔ آخری بار بھی‘ جب وہ اپنے گھر میں تھی‘ تو بوائے فرینڈ کے فون کے بعد اُس کے ہاں خود گئی۔ جاتے وقت اس نے ماں یا باپ کو نہیں بتایا کہ کہاں جا رہی ہے۔ اس کے والد نے بعد میں تین ٹیکسٹ بھیجے یہ پوچھنے کے لیے کہ وہ کہاں ہے مگر جواب کوئی نہ ملا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ عملاً Independent تھی۔ دوسری مقتولہ نے‘ جو کچھ خبروں سے مترشّح ہوتا ہے اس کے مطابق‘ شادی اپنی مرضی سے کی تھی۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ سوال انتہائی اہم اور فیصلہ کن (Crucial) ہے۔ ہو سکتا ہے یہ سوال کچھ نوجوان‘ ماڈرن لڑکیوں کو اچھا نہ لگے مگر سوال پوچھنے سے روکا تو نہیں جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر دوسری لڑکی‘ شادی کرنے سے پہلے اپنے بزرگوں سے مشورہ کرتی‘ اس کے بزرگ لڑکے کو اور اس کی فیملی کو دیکھتے بھالتے تو کیا وہ اس شادی کے حق میں رائے دیتے؟ رہا پہلی بچی کا مسئلہ تو جو اُس لڑکے کے لچھن تھے اور جو اس کی شہرت تھی‘ اس کے پیش نظر‘ اس کے والدین نے‘ ایک دو بار تو ضرور اپنی بیٹی کو اسے ملنے سے منع کیا ہوگا یا اتنا تو ضرور کہا ہوگا کہ یہ لڑکا ٹھیک نہیں!
بدقسمتی سے ہم دو انتہاؤں کے بیچ پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک انتہا یہ ہے کہ لڑکی سے پوچھے بغیر‘ لڑکے کی جھلک تک دکھائے بغیر‘ اسے ایک اجنبی لڑکے کے ساتھ باندھ دیا جائے خواہ تعلیم میں اور عقل میں وہ لڑکی کے پاسنگ بھی نہ ہو۔ ہم نے تو ایسا معاملہ لڑکوں کے ساتھ بھی ہوتے دیکھا ہے۔ ہمارا جاننے والا ایک لڑکا انجینئر بنا۔ اس نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ فلاں لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ماں باپ نے انکار کر دیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ لڑکی کا انتخاب لڑکے نے خود کیوں کیا؟ لڑکے نے شادی کر لی۔ آٹھ دس سال ماں باپ نے تعلق نہ رکھا۔ پھر ملے مگر پوتوں کے بچپن سے لطف اندوز ہونے کا وقت گزر چکا تھا۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ لڑکی ماں باپ کو بتائے بغیر‘ ان سے مشورہ کیے بغیر‘ ان کی تجربہ کار رائے لیے بغیر‘ خود ہی لڑکا پسند کرے اور شادی کر لے۔ عام طور پر یہ کورٹ میرج ہوتی ہے۔
یہ دونوں انتہائیں خانہ خرابی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ایسی شادیاں ہر حال میں ناکام ہوں مگر خرابی کا احتمال (Probability) زیادہ ہے۔ بہترین راستہ اعتدال کا راستہ ہے۔ ماں باپ پر لازم ہے کہ بچوں‘ خاص طور پر بچیوں کی پسند کا خیال رکھیں‘ ان پر اپنی مرضی نہ مسلط کریں! اور ماڈرن لڑکیاں زندگی ساز فیصلوں میں اپنے بزرگوں کو شامل کریں۔