ایاز امیر صاحب سے یک طرفہ‘ غائبانہ‘ شناسائی تو اُس وقت سے ہے جب ان کے انگریزی کالم کا انتظار رہتا تھا۔ انگریزی کالم نگار چند ہی ایسے تھے‘ اور ہیں‘ جو دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں جب شمالی پاکستان میں انگریزی روزنامے '' پاکستان ٹائمز‘‘ کی اجارہ داری تھی تو خالد احمد کا کالمOf this and that بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں گئے تو پاکستان ٹائمز (لاہور) دوسرے دن ملتا تھا۔ وہاں رہتے ہوئے ''پاکستان آبزرور‘‘پڑھنے کا چسکا بھی پڑ گیا جو مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی روزنامہ تھا۔1949ء میں شروع ہونے والا یہ اخبار اندھیری رات میں چراغ کی طرح تھا۔1952ء میں جب بنگلہ زبان کی تحریک چلی تو اخبار کے مالک حمید الحق چوہدری اور مدیر عبدالسلام‘ دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں ایوب خان حکومت نے اخبار کو بلیک لسٹ کر کے اشتہارات سے محروم کر دیا۔ بنگلہ دیش وجود میں آیا تو یہ اخبار'' پاکستان آبزرور‘‘ سے'' بنگلہ دیش آبزرور‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔2010ء میں‘ زندگی کی اکسٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد‘ یہ اخبار وفات پا گیا۔
انگریزی کالم نگاروں کی بات ہو رہی تھی۔ بہت عرصہ ارد شیر کاؤس جی اور ایاز امیر پیش منظر پر چھائے رہے۔ ایاز امیر کبھی کبھی اسلام آباد کلب میں نظر آتے تو ہم سلام کر لیتے۔2014ء میں وفاقی دارالحکومت میں عمران خان کے طویل دھر نے کے دوران دنیا میڈیا گروپ نے کچھ دنوں کے لیے لاہور طلب کیا تا کہ ٹاک شوز میں شرکت کی جائے۔ تب ایاز امیر صاحب سے ذاتی شناسائی ہوئی۔ یورپ کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کی خد مت میں عرض کیا کہ مقدور ہوتا تو ان سے یورپ کی تاریخ‘ باقاعدہ زانوئے تلمذ تہ کر کے پڑھتے۔ یہ تو ممکن نہ تھا مگر انہوں نے رہنمائی ضرور کی کہ کون کون سی کتابیں اس ضمن میں مفید ہیں۔
دو دن پہلے ایاز امیر صاحب کا جو کالم ''دنیا‘‘ میں چھپا ہے‘ وہ انتہائی لائقِ تحسین ہے۔ اس زمانے میں کون ہے جو اولاد کی غلطی مانے؟ اس معاشرے کی سب سے بڑی بیماری ہی تو یہی ہے کہ اپنی اولاد‘ اپنے خاندان‘ اپنی برادری‘ اپنے قبیلے‘ اپنی ذات اور اپنی سیاسی جماعت کی غلطی کو غلطی نہیں تسلیم کیا جاتا۔ اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر اولاد جرم کرے تو آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور کھلیں بھی تو سخت یرقان زدہ ہو تی ہیں۔ مضحکہ خیز دلائل دیے جاتے ہیں۔
'' جوان لڑکے اسی طرح کرتے ہیں‘‘
''سزا دینے سے مقتول یا مقتولہ واپس تو نہیں آجائیں گے‘‘
'' قتل ہمارے بیٹے کے ہاتھوں ثابت ہو جائے تو دیکھیں گے‘‘وغیرہ
ظاہر جعفر کے والدین کا طرزِ فکر اور طرزِ عمل سب کے سامنے ہے۔ معاشرے کا مجموعی مزاج یہی ہے؛ تاہم ایاز امیر صاحب نے جس طرح اپنے کالم میں سچ اور حق کی بات کی ہے‘ اس کی مثال ہماری سوسائٹی میں ملی بھی تو بہت مشکل سے ملے گی۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر انہوں نے اپنے سگے بیٹے کے جرم کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کی بھر پور مذمت کی۔ اپنے مضمون میں وہ مقتولہ کو معصوم قرار دیتے ہیں اور اس کے خاندان کے ساتھ مکمل طور پر ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی یہ غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خاندان اکٹھا نہ رہ سکا جس کا اثر اولاد پر پڑا مگر یہ کہہ کر بھی وہ اپنے بیٹے کو فائدہ نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ خاندان تو ٹوٹتے ہیں مگر ایسے واقعات ہر شکستہ کنبے میں رونما نہیں ہوتے! وہ بیٹے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ اس کی شراب نوشی‘ تمباکو نوشی‘ چرس کی علت‘ بیکاری‘ سب کا ذکر کرتے ہیں۔ تربیت کی کمی کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بیٹے کی ماں پر کوئی الزام نہیں دھرتے۔وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ بیٹا ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اس کا فرض تھا کہ معاملات کو سنبھالتی۔ مگر وہ ایسی کوئی بات نہیں کرتے۔ خاندان کے انتشار کا الزام بھی وہ اپنے سوا کسی پر نہیں ڈالتے! ان کے لیے ایک آپشن یہ بھی تھا کہ وہ اس موضوع پر نہ لکھتے۔ مگر لکھا اور سچ لکھا!
ایک دانشور کو ایسا ہی کہنا اور لکھنا چاہیے تھا۔ ایاز امیر صاحب کے موجودہ سیاسی مؤقف سے شدید اختلاف کے باوصف‘ یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ جو مبنی بر انصاف مؤقف انہوں نے اختیار کیا ہے وہ دوسروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ یہاں تو رواج یہ ہے کہ مجرم بیٹے کو ملک سے باہر بھگا دو۔ یہ نہ ہو سکے تو اسے سزا سے بچانے کے لیے ہر جھوٹ‘ ہر فریب‘ ہر حیلے کو بروئے کار لاؤ۔ مقتول یا مقتولہ کے خاندان کے زخموں پر نمک چھڑ کو! اور آخر میں دولت کی فراوانی کو استعمال کرتے ہوئے خون کی قیمت ادا کردو!
ہر روز‘ ہر وقت‘ رونا پِٹنا لگا ہے کہ حکومت انصاف نہیں کرتی! عدالتیں انصاف نہیں کرتیں‘پولیس انصاف نہیں کرتی! سوال یہ ہے کہ کیا فرد انصاف سے کام لے رہا ہے؟ کیا خاندان انصاف کر رہا ہے؟نزاع پڑے تو کیا ہم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں؟ بہت ہی کم! سَو میں سے دس یا بیس! گاڑی کے پیچھے جو جاہل گاڑی کھڑی کر جاتا ہے اور بہت دیر سے ظاہر ہوتا ہے‘ اس سے بات کریں تو کبھی اپنی غلطی نہیں مانے گا! کبھی معافی نہیں مانگے گا۔ ایسا کرنے والا ہوتا تو یہ حرکت ہی کیوں کرتا! اُلٹا کہے گا کہ بس پانچ منٹ ہی کے لیے تو گیا تھا! ٹریفک کے معاملات میں کتنے لوگ یہ کہنے کی جرأت کرتے ہیں کہ میری غلطی ہے! آپ کا نقصان میں پورا کروں گا!
معاشرے کا یہ اندھا پن اُس وقت عروج پر ہوتا ہے اور قابلِ نفرین ہوتا ہے جب بیٹے اور بہو میں‘ یا بیٹی اور داماد میں جھگڑاہو۔ اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی میں کوئی غلطی نہیں دکھائی دیتی! سارا قصور بہو کا نکلتا ہے یا داماد کا! ان جھگڑوں میں ماں باپ انصاف سے کام لیں اور ناجائز حمایت نہ کریں تو بہت سے گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں! ہم قاتلوں کی حمایت کرتے ہیں! ڈاکوؤں اور اغوا کنندگان کو اپنے ڈیروں پرپناہ دیتے ہیں! مجرموں کو سزا سے بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں! جہاں قاتل عدالتوں میں پیش ہونے سے پہلے اور پیش ہونے کے بعد‘ انگلیوں کو‘ غلیل کے دو شاخے کی طرح‘ فتح کا نشان بنا کر دکھائیں‘ اس معاشرے میں امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے ؟ اپنے گریبان میں جھانکنے کو کوئی تیار نہیں! یوں لگتا ہے جیسے قبل از اسلام کا جاہلی معاشرہ ہے۔ایک تاجر‘ ایک ڈاکٹر‘ ایک وکیل‘ ایک سٹوڈنٹ‘جرم کرے تو اسے سزا سے بچانے کے لیے سارے تاجر‘ سارے ڈاکٹر‘ سارے وکیل اور سارے طالب علم اکٹھے ہو کر‘ انصاف کے راستے میں دیوار بن جاتے ہیں! غلط کون ہے اور صحیح کون ہے؟ یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں! ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے کہ بندہ اپنا ہے۔ اسے ہر حال میں بچنا چاہیے! پوری قوم کا مائنڈ سیٹ یہی ہے! ہمارے توعلما بھی ایک دوسرے کو بچاتے ہیں! ٹی وی ڈراموں میں بھی یہی سبق دیا جا رہا ہے۔ بیٹا تین تیرہ سے نکلے تو شوہر ہمیشہ بیوی سے کہتا ہے کہ تم نے اسے خراب کیا۔کسی ڈرامے میں بیوی یہ نہیں کہتی کہ تم باپ تھے‘ تم نے کیا تربیت دی ہے؟ ان افراد‘ ان خاندانوں اور ان گروہوں سے جو حکومت اور جو پولیس بنے گی‘ وہ بھی اسی مائنڈ سیٹ کی مالک ہو گی ! کیکر کا درخت اوپر تک کیکر ہی رہتا ہے۔ اوپر سے سیب کا نہیں بن جاتا!